کرشمہ ساز، مریم نواز

312

یہ2013ء کے انتخابات تھے جب عمران خان این اے 122 سے الیکشن لڑنے بارے سوچ رہے تھے۔ یہ حلقہ بہت ہی شریف النفس اور ملنسار لیگی سیاستدان سردار ایاز صادق کے پاس تھا اور کہا جا رہا تھا کہ مریم نواز یہاں سے براہ راست عمران خان کے مقابلے میں الیکشن لڑنے آ رہی ہیں۔ انہوں نے غالبا کاغذات بھی لئے مگر بعد میں یہ فیصلہ بدل لیا گیا۔ عمرا ن خان بھی اس حلقے سے نکل گئے کہ یہ ہمارے سیاستدانوں کا ایک غیر اعلانیہ معاہدہ ہوتا ہے کہ تمام بڑے سیاستدان ایک دوسرے کے براہ راست مقابلے میں نہیں آئیں گے چہ جائیکہ یہ ناگزیر نہ ہوجائے۔ میری اس وقت بھی رائے تھی کہ مریم نواز میں وہ صلاحیتیں موجود ہیں کہ وہ عمران خان کا مقابلہ کرسکتی ہیں، ان کا کرزما توڑ سکتی ہیں ہیں۔ غالبا آج بارہ، تیرہ برس پہلے اس پر کالم بھی لکھا تھا مگر پھر یوں ہوا کہ میاں نواز شریف ڈرائیونگ سیٹ پر آ گئے اور مریم نواز کو پچھلی سیٹ پر بیٹھنا پڑا اور پھر وہ عوامی سیاست میں اس وقت نظر آئیں جب میاں نواز شریف کو نااہل کیا گیا۔
یہ ابھی چند روز پہلے کی بات ہے کہ پنک گیم کی افتتاحی اور اختتامی تقاریب میں مجھے مدعو کیا گیا۔ افتتاحی تقریب میں تو کچھ مصروفیات کی وجہ سے نہ جا سکا مگر اختتامی تقریب میں شرکت کی۔ یہ وہی دن تھا جس روز وزیراعلیٰ پنجاب، شاہدرہ سے قذافی سٹیڈیم تک میٹرو بس میں سفر کر کے پہنچی تھیں۔ وہ جمنازیم کے اندر آئیں اور وہاں پر بہت ساری شرکا لڑکیوں کو دیکھا تو صوفہ پیچھے کروایا اور سیدھی ان کے پاس پہنچ گئیں۔ میں نے دیکھا کہ ان لڑکیوں کا حیرت اور خوشی کے مارے بُرا حال تھا۔ وہ اچھل رہی تھیں، نعرے لگا رہی تھیں، قریب پہنچنے کے لئے زور لگا رہی تھیں، کلائیوں اور ہتھیلیوں پر آٹو گراف لئے جا رہے تھے اور اسی وقت وہ لڑکی بھی سیکورٹی گارڈز کا حصار توڑ کر قریب پہنچنے کی کوشش کر رہی تھی جس کے ہاتھ میں صرف ایک گلاب تھا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ جب پرویز رشید اس رش کو دیکھ کے باہر نکلے تواسی میں اس لڑکی کو آگے جانے کا موقع مل گیا۔اس نے وزیراعلیٰ سے کہا کہ میرے پاس اتنے ہی پیسے تھے کہ آپ کے لئے یہی پھول لا سکتی تھی۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی، جب وزیراعلیٰ سٹیج پر تقریر کر رہی تھیں تو انہوں نے اس کا حوالہ دیا، اسے اپنے پاس روسٹروم پر بلا لیا اور وہ لڑکی اتنی عزت اور اہمیت ملنے پر وہیں رونے لگ گئی۔
یہ الیکشن کی ٹرانسمیشن تھی جب میرے ساتھ مسلم لیگ نون کے ساتھ بہت زیادہ ہمدردی رکھنے والے تجزیہ کار اسد آر چوہدری موجود تھے مگر وہ حیرت انگیز طور پر مریم نواز کو کچھ ہٹ کے مشورے دے رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ مریم نواز کو اپنا تاثر ختم کرنا ہوگا کہ وہ جب باہر نکلتی ہیں تو ان کے کپڑے ہی نہیں جوتے اور پرس تک امپورٹڈ اور برینڈڈ ہوتے ہیں۔ وہ کئی برینڈز کے نام لے رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ یہ سب کوئی تیس چالیس لاکھ روپے کا ہوتا ہے۔ ان کا تجزیہ تھا کہ اس تاثر سے عام عورت ان کے قریب نہیں آئے گی، انہیں اپنی ہمدرد اور اپنی نمائندہ نہیں سمجھے گی۔ انہوں نے اس سلسلے میں بے نظیر بھٹو کی بھی مثال دی کہ وہ عام مزدوراور کسان عورت کی پہچان اور آواز بنیں تھیں۔ میں نے ان کی پوری بات سنی اور یقین کیا کہ وہ مسلم لیگ نون اور اس کی قیادت کے لئے خلوص دل سے مشورہ دے رہے ہیں۔ مجھے نوے کی دہائی کا وہ سیلاب یاد آ گیا جب میاں نواز شریف کسی دور دراز گاؤں میں پہنچے تھے اور ان کی ایک تصویر اخبارات میں شائع ہوتی تھی جس میں وہ ایک بیوہ عورت کے گھر کی گری ہوئی کچی دیوار پر اس کے ساتھ مل کر مٹی رکھ رہے تھے۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ نوے کی دہائی میں میاں نواز شریف نے اپنے کارکنوں کو بہت عزت دی۔ وہ انہیں ہر ویک اینڈ پر دستیاب ہوتے تھے۔ ماڈل ٹاون میں گھر کے باہر والے ڈرائنگ روم میں ان کے جذباتی نوجوان کارکن نعرے لگایا کرتے تھے، میں بال کھڈاواں میاں دے، میں صدقے جاواں میاں دے، انہوں نے محبت میں جیالوں کے نعرے بھی اپنا لئے تھے۔
میرے پروگرام میں اسد آر چوہدری نے جو گفتگو کی وہ اپنی ایکس پروفائل پر پِن کر دی۔ میں نہیں جانتا کہ وہ گفتگو مریم نواز نے کتنی سنی اور کتنی نہیں مگر میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ انہوں نے وزیراعلیٰ بنتے ہی ایک ارب پتی خاندان کی بیٹی ہونے کا تاثر ختم کر کے رکھ دیا۔ وہ جہاں جاتی ہیں عام سے کپڑوں والی عام سی لڑکیوں کو گلے لگا لیتی ہیں جیسے وہ ان کی بہنیں ہوں، گندے مندے کپڑوں میں ملبوس بچے ان کے ساتھ، ان کی گود میں نظر آتے تھے جیسے وہ ماں ہوں، وہ خواتین سے عام سے سوال کرتے سنائی دیتی تھیں کہ پھر آج آپ کیا پکا رہی ہیں جیسے وہ ان کی سہیلیاں ہوں۔ وہ ادویات لے کر گھروں میں پہنچ رہی ہیں،وہ بچیوں کو الیکٹرک بائیکس دے رہی ہیں اور نجانے کیا کیا۔ یہ سب کچھ اتنا زیادہ اور شاندار ہے کہ پی ٹی آئی جس کی ساری اٹھان اور پروان ہی سوشل میڈیا کی ہے اس کے بڑے بڑے انفلوئنسرز یا ٹرولز کے پاس اسے ڈرامہ کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور مجھے ہنسی آ رہی تھی کہ عمران خان کے رمضان میں دوپہر گیارہ بجے سموسوں کی دکان پر پہنچنے کے ڈرامے پر واہ واہ کرنے والوں کو یہ جذبات ڈرامہ لگ رہے ہیں۔ مجھے ان کم فہموں اور کم ظرفوں پر حیرت ہو رہی تھی کہ بزدار اور گنڈا پور کا دفاع کرنے والے مریم نواز کے خلوص اور محبت پر تنقید کر رہے ہیں۔ مریم نواز کی شخصیت اور لباس پہلے ہی انہیں کرشمہ ساز بناتا ہے اور اب وزیراعلیٰ بننے کے بعد عوامی ا نداز اور اطوار سونے پر سہاگہ ہو گئے ہیں۔
آپ کو اچھا لگے یا بُرا مگر یہ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ مریم نواز اگر اسی طرح محنت اور کارکردگی کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا ہینڈلنگ کرتی رہیں تو ان کی کرشمہ سازی کے سامنے پی ٹی آئی کا کرشمہ ساز سورج غروب ہوجائے گااور وہ چراغ تو بالکل نہیں جلیں گے جن کی عمر ستربہتر برس سے بھی زیادہ ہوچکی۔ مجھے لگتا ہے کہ پنجاب میں انہیں صر ف دو باتوں کی طرف مزید توجہ دینی ہوگی پہلی یہ ہے کہ اپنے کارکنوں کو وقت اور اہمیت دیں جیسے میاں نواز شریف دیا کرتے تھے۔سیاست ایک جنگ ہے اور اس میں کارکن ہی سپاہی ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں کی فصیلیں اپنے کارکنوں کے لئے کھول دیں، بلدیاتی انتخابات کروائیں یا کچھ اور کریں، کارکن عزت اور اختیار سے مسلح ہو کے گلی گلی اور شہر شہر آپ کی لڑائی لڑیں گے۔ دوسرے، وزیراعلیٰ کا اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس اور سرکاری ٹیم اپنی جگہ، وہ سوشل میڈیا نیٹ ورک صوبے، ضلعے،صوبائی حلقے کی سطح پر تشکیل دیں، ان کے مقابلے میں دور، دور تک کوئی نہیں ہوگا۔

تبصرے بند ہیں.