پنجاب میں ضمنی انتخابات میں نون لیگ فاتح قرار پائی، ہمارے میڈیا خصوصاً ہمارے کچھ اخبارات نے اپنی شہ سرخیوں میں نون لیگ کو کچھ اس انداز میں فاتح قرار دیا جیسے یہ فتح نون لیگ سے زیادہ ہمارے کچھ چینلز یا اخبارات کی ہے، ضمنی انتخابات میں نون لیگ نے زیادہ تر تو اپنی ہی جیتی ہوئی نشستیں دوبارہ حاصل کیں، مگر وزیر آباد سے ایک سیٹ پی ٹی آئی کی بھی چھین لی، ضمنی انتخابات کی روایت یہ ہے زیادہ تر حکومتی اْمیدواران ہی جیتتے ہیں، میں نے کئی بار حکمرانوں کو یہ تجویز پیش کی ضمنی انتخابات میں سرکار کا اتنا خرچا کروانے سے بہتر ہے پارلیمنٹ سے کوئی ایسا قانون پاس کروا لیا جائے جس کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلی کی جو نشستیں خالی ہوں وہ بغیر الیکشن کے حکومت وقت کے نامزد مرد و زن میں تقسیم کر دی جائیں، موجودہ حکمرانوں کو اصل حکمرانوں کی بظاہر اتنی اندھا دھند حمایت حاصل ہے وہ پارلیمنٹ سے کوئی بھی قانون بڑی آسانی سے پاس کروا سکتے ہیں، ایسے غیر آئینی اقدامات کے لئے ان کا صرف ایک اشارہ چاہئے، سو وہ اگر دل سے یہ اشارہ کر دیں پارلیمنٹ سے اس قانون یا بل کو پاس کروانے کے لئے بشمول پی ٹی آئی تقریباً ساری سیاسی جماعتوں کی وہ اسی طرح حمایت حاصل کر سکتے ہیں جس طرح اپنے ایک ہلکے سے اشارے پر آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے لئے تمام جماعتوں کی حمایت انہوں نے حاصل کر لی تھی، یہ مرحلہ یا المیہ آئندہ بھی دہرایا گیا آپ دیکھئے گا بوٹ چاٹنے میں پھر کوئی پیچھے نہیں رہے گا، ہماری کمزور سیاسی جماعتیں ہمیشہ یہ تاثر دیتی ہیں یہ کام وہ ملک و قوم کے مفاد میں کرتی ہیں، انہیں کون سمجھائے ملک و قوم کا اصل مفاد یہ ہے کوئی کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اسے ایکسٹینشن نہیں ملنی چاہئے، اس کی دیگر قباحتیں بھی ہوتی ہیں، سب سے بڑی قباحت یا خرابی یہ ہے ہم دنیا کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ہمارے پاس اہل لوگوں کی شدید ترین کمی ہے، یہ تاثر دیگر اداروں کے حوالے سے قائم ہو بھی جائے اس کا اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا نقصان افواج پاکستان کے حوالے سے قائم ہونے والے اس تاثر سے ہوتا ہے، پر مجھے نہیں لگتا یہ سلسلہ کبھی رکے گا کیونکہ پاکستان میں ایسی فضاء ایسا ماحول قائم ہو گیا ہے جہاں ملکی نقصان کا سوچنے والے کم ذاتی فائدے کا سوچنے والے زیادہ ہیں، حالات اب یہ ہوگئے ہیں ممکن ہے کل کلاں یہ قانوں یا بل بھی مشترکہ طور پر پاس کروا لیا جائے آئندہ کسی آرمی چیف کو ایکسٹینشن نہیں دی جائے گی بلکہ یہ عہدہ تاحیات انہیں بخش دیا جائے گا، جہاں تک ضمنی انتخابات میں نون لیگ کی فتح کا تعلق ہے سب جانتے ہیں یہ فتح اصل میں کس کی ہے ؟ جب پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھی لوریاں لے رہی تھی ایسی ہی فتح اس کے کھاتے میں بھی ڈال دی جاتی تھی، سو پی ٹی آئی اب یہ شکایت کرنے کی پوزیشن میں نہیں کہ حالیہ ضمنی الیکشن میں اس کی فتح کسی اور کے کھاتے میں ڈال دی گئی ہے، یہ سلسلہ پاکستان میں اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک ایک بددیانت مجرمانہ نظام سے پاکستان کو مکمل طور پر نجات نہیں مل جاتی، اس کے امکانات اس لئے کم ہیں اس بددیانت مجرمانہ نظام کے بینیفشری صرف سیاسی و اصلی حکمران نہیں عوام بھی ہیں، آج اگر کوئی انسان کا بچہ اس ملک کا والی وارث بن جائے، وہ اس ملک کا کرپٹ و کریمینل سسٹم تبدیل کرنے کی عملی طور پر کوشش کرے اور اس میں کامیاب بھی ہو جائے مجھے یقین ہے لوگ اْس کے خلاف سڑکوں پر دھرنے دینا شروع کر دیں گے کہ ہمارا سابقہ بددیانت مجرمانہ نظام ہمیں واپس کرو، پاکستان اس وقت ہر قسم کی تباہی کے آخری دہانے پر کھڑا ہے، کرپشن پاکستان میں ہمیشہ سے تھی، مگر یہ شخصیات تک محدود تھی، اب پورے پورے ادارے اس کی لپیٹ میں ہیں، کوئی دولت مند شخص کسی کا ضمیر خریدنا چاہے حتی کہ کسی کا ایمان خریدنا چاہے اسے زیادہ مشکل پیش نہیں آتی، اب تو ہمارے کچھ ارکان پارلیمنٹ بھی کھلے عام یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ اپنی سیٹ انہوں نے کتنے میں یا اتنے میں خریدی ہے، اسی طرح ایک زمانے میں یہ تصور بھی نہیں ہوتا تھا کہ سی ایس ایس یا دیگر مقابلے کے امتخانات کوئی بھاری رقوم دے کے پاس کر لے، اب اپنے اس ”اعزاز“ کو بھی بتاتے ہوئے لوگ شاید اس لئے شرم محسوس نہیں کرتے کہ پورا معاشرہ بے شرم ہو چکا ہے، پرانے وقتوں میں ”جنا اچا اوہنا لچا“ کی مثالیں ہم سنتے تھے، اس کی عملی شکل اب دیکھنے کو ملی ہے، ضمنی انتخابات میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الہٰی، اوار ان کے صاحبزادے مونس الٰہی کو بھی ہروا دیا گیا، اْنہیں چاہئے اب اس وقت تک کبھی الیکشن نہ لڑیں جب تک اپنی اس ”پارٹی‘‘ سے دوبارہ اْن کی صلح نہیں ہو جاتی جس کے پاس کسی کو الیکشن جتوانے یا ہروانے کا تاحیات و واہیات ٹھیکہ ہے، ویسے یہ صلح وہ پی ٹی آئی میں رہ کر بھی کر سکتے ہیں، میں حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے کامیاب ہونے والے کچھ ایسے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو جانتا ہوں جنہوں نے اپنی سیٹیں خریدی ہیں یا وہ یہ معاملہ طے کر کے اسمبلیوں میں آئے ہیں کہ مقتدرہ جب چاہے پس پردہ وہ اْس کی خدمت کے لئے حاضر ہوں گے، بظاہر یہ خان صاحب کے بندے ہیں مگر اصل میں وہ انہی کے بندے ہیں جن کے بندے خان صاحب خود بھی رہے ہیں، یہاں ہم سب کسی نہ کسی ’’بندے کے بندے“ ہیں ، جس روز اس ملک کا نظام ”اللہ کے بندوں‘‘ کے ہاتھ میں چلا گیا عزت و تکریم کے حوالے سے ہم بلند ترین مقام پر ہوں گے ، پنجاب کی حکمران اعلیٰ اور اْن کے آٹھ آٹھ سو روپے والے بہت سے وزیر مشیر یہ دعوے کر رہے ہیں”انہوں نے ضمنی الیکشن اپنی دو ماہ کی کارکردگی کی بنیاد پر جیتا ہے“، ہمیں ان کے اس دعوے پر آنکھیں، منہ و دیگر اعضاء بند کر کے یقین کر لینا چاہئیے ورنہ وہ اْن لوگوں سے ہمیں بڑی مار پڑوائیں گے جن سے اکثر اوقات وہ خود بھی مار کھاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں مار کھا کے مال اگر بنتا ہے اس میں حرج کیا ہے ؟
تبصرے بند ہیں.