گزشتہ تین دہائیوں کی پاکستانی سیاست میں اخلاقی سیاست کا کتنا حصہ تھا تحمل بردباری خاندانی وقار صبر اور معاملہ فہمی کے اثاثہ دار میاں محمد نوازشریف کو اگر باہر کرکے دیکھیں تو باقی گالی گلوچ تلخ کلامی بڑھکیں جھوٹے وعدے توڑ پھوڑ لاقانونیت اور ثقافتی اقدار کی دھجیاں اڑاتے لیڈران ہی رہ جاتے ہیں وہ جنہوں نے ایک نسل کی اخلاقی تباہی کو شعور کا نام دیا دھرنے گالیاں نقلیں پاکستانی کلچر میں داخل کیا گانے ڈیک ہیوی ساؤنڈ سسٹم بچے بچیاں تعلیم کی بجائے کبھی غلامی کبھی امریکی سازش کبھی امپورٹڈ حکومت کے بے معنی نعرے لگاتے رہے انہیں اس حد تک اکسایا گیا کہ وہ نظریہ پاکستان کے امین کے گھر پر ٹوٹ پڑے سرحدوں پر کھڑے محافظوں کا لحاظ نہ کیا شہیدوں کی یادگاروں کو توڑ ڈالا افسوس یہ طوفان بدتمیزی ذرا دیر سے تھما جبکہ پہلے ہی لگام ڈالنے کی ضرورت تھی…
اب آجاتے ہیں میاں نوازشریف کی گہری پر سوز اور سنجیدہ شخصیت کی طرف ایسا کون سا ستم ہے جو اس شخص پر نہیں توڑا گیا فواد چودھری کے متکبرنعرے کہ میاں نوازشریف کا مستقبل ختم ہوگیا ہے شیخ رشید کے نخوت بھرے جملے خان کے تمسخر چور چور ڈاکو ڈاکو کے پھکٹری خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی عشق میں لبریز فضاؤں میں انسانیت سے گری ہوئی نعرہ بازی بلاناغہ میاں نوازشریف کی لندن میں رہائش گاہ کے نیچے طوفان بدتمیزی تارکین وطن کی برین واشنگ کے نتیجے میں غلیظ گالی گلوچ شاید یہ سب PTI کلچر کیلئے تو معمول ہو مگر نوازشریف جیسے نفیس نازک طبع انسان کیلئے انتہائی تکلیف دہ تھا مگر وہ شخص جو بدترین حالات میں بھی اف نہیں کرتا اسے نواز شریف کہتے ہیں ذاتی غموں کابھی یہی زمانہ تھا جب ان کی رفیق کار دست اجل کا شکار ہوگئی وہ اپنی والدہ اور بیگم کو لحد میں نہ اتار سکے مرتی ہوئی بیوی کے مذاق اڑاتے میم دیکھتے اور سہتے رہے ان سب عوام کے ساتھ خان کے غنڈوں نے انہیں تنہائی میں دھکیلنا چاہا بھاگنے کا الزام لگایا تو وہ بیٹی کے ہمراہ آگئے یہ جانتے ہوئے بھی کہ قید کر لیا جائے گا یعنی وہ قید سے نہیں گھبرائے مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایسی قید نہیں تھی جیسی خان بھگت رہا وہ تو مارڈالنے کی ایک قبیح حدتک سوچ تھی قید نوازشریف نے کاٹ لینی تھی مگر یہ سیاسی اسیری نہیں تھی …میاں شہباز شریف نے جب معاملات کو بھانپ لیا تو میاں نوازشریف کی واپسی لندن ہوئی اس پر بھی سوکہانیاں میاں شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کی پیش گوئیاں میاں نوازشریف کو منظر سے باہر کرنے کی منصوبہ سازی اور پھر جیسے تیسے انتخابات اور لوٹ بینک کیلئے میاں نوازشریف کو واپس لانے کی کہانی اور حسب توقع انتخابی نتائج کی بجائے نوازشریف کیلئے ایک ایسی مشکل صورتحال کا تخلیق کیے جانا کہ وہ خود ہی انکار کردیں اور اگر بھائی کو وزیراعظم نہ بننے کا عندیہ دیں تو پھر دوبارہ سے مقدمے انکوائریاں جے آئی ٹی کے دس صندوق (کھودا پہاڑ نکلا چوہا) کہاں گئے وہ سیاسی جہیز کے دس صندوق اور اگر وہ ڈرامہ اتنا ہی سچ تھا تو پھر اس پر اب خاموشی کیوں ؟
اس حدتک ایک بندے کے گرد سازش کا جال …یہ طے ہے کہ حقیقی بادشاہ ہمیشہ تنہا ہوتا ہے حقیقی بادشاہ درحقیقت شہرت کامیابی اور بلندی چوٹی پر کھڑے شخص کو کہہ سکتے ہیں۔ کون کون کتنا مطلبی ہے سب جانتے بوجھتے اس کی خاموشی نہیں ٹوٹتی …
گہرے ملال اور گہرے وقار میں بہت کچھ مماثل ہے جس کا نتیجہ وہ متانت ہے جو اس وقت میاں نوازشریف کے چہرے کا خاصہ ہے۔ سب جانتے بوجھتے چپ رہنا کسی بڑے دل گردے والے ہی کا کام ہے وہ خان کی طرح شیرازہ بکھیرنے والوں میں سے نہیں ہیں جس نے پہلے اپنی زندگی کا شیرازہ بکھیرا پھر ملک کا اور پھر لوگوں کے گھروں میں پھوٹ ڈال کر بھائی سے بھائی جدا کردیئے…
مسلم لیگ ن اگر آج اسیمبلڈ ہے تو صرف میاں نوازشریف اور ان کے سچے دوایک دوستوں کی وجہ سے کہ وہ بھی سیاسی میدان سے فارغ ہی ہیں۔
نوازشریف برج کے لحاظ سے جدی ہیں 25دسمبر قائداعظم والا گہرا استدلال اور وقار شخصیت کا خاصہ ہے۔
سیاست کو حقیقی معنوں میں سمجھنے والے جانتے ہیں کہ کیا گیم ہوئی ہے گیم کرنے والے یہ نہیں جانتے کہ آگے نہایت صابر اور متین انسان ہے جو سازشیوں کو مطلوبہ نتائج فراہم نہیں کرے گا۔
کیپری کارن ہمیشہ اپنی جان پر کھیل جاتے ہیں مگر اپنی شہرت کو داغدار نہیں ہونے دیتے۔ کیچڑ کا کیا ہے وہ اچھالے جانے ہی کے لیے ہوتا ہے اس سے کسی کا مقدر نہیں لکھا جاسکتا …
اب آتے ہیں میاں نوازشریف کی باڈی لینگویج پر بہت سے سطحی لوگ یہ اندازے لگانے بیٹھ جاتے ہیں کہ میاں نوازشریف کے ساتھ ہاتھ ہو گیا لہٰذا وہ ملول ہیں ایسا ہرگز نہیں اولذکرسے انکار نہیں کہ وطن عزیزمیں ہم سب کے ساتھ ہاتھ ہی ہوتا ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ فوری ری ایکشن دینے والوں میں سے نہیں ہیں۔ وہ اب بھی چاہتی تو کانٹ چھانٹ سے لبریز قطع برید والی جمہوریت میں سیٹ لے سکتے تھے مگر انہوں نے اپنے وقار کے منافی جانتے ہوئے اور بہت سی مصلحت آمیز خاموشی کو بھانپتے ہوئے اپنا راستہ الگ رکھا ہے۔
بڑے بندے کی نشانی ہوتی ہے کہ لوگ اندازے لگاتے رہتے ہیں مگر وہ آسانی سے نہیں کھلتا … وارث شاہ نے کیا خوب کہا تھا )
وارث شاہ نہ بھیت صندوق کھلے
بھانویں جان دا جندرہ ٹٹ جاوے
انہوں نے صدارت زرداری وزارت عظمیٰ شہباز شریف وزارت اعلیٰ مریم نوازشریف کے حوالے کرکے اپنے قدوقامت کو اس کھیل سے دور رکھا ہے وہ ایسے شخص نہیں کہ ٹرک پر کھڑے ہوکر واویلا شروع کردیں انہوں نے ہمیشہ اپنے وقار کی حفاظت کی ہے۔ لوگوں کو اگر موٹروے سستی بجلی سستا پٹرول اور سستی سبزیاں نہیں یاد رہیں تو نوازشریف نے بھی یاد دلانے کی گردان نہیں کی ذرا سوچئے اگر یہی موٹروے خان نے بنائی ہوتی 60 روپے لیٹر پٹرول اور ڈالر 108 پر رکھا ہوتا تو اب کیا کیا نہ طعنہ زنی کرتا جاننے والے جانتے ہیں کہ میاں نوازشریف کو تاریخ شیر شاہ سوری کے نام سے لکھے گی اگر لوگوں کے حافظے بے معنی تقاریر سن سن کر خراب ہوگئے ہیں تو نوازشریف وہ نہیں جو احسان جتا جتا کر مار ڈالتے ہیں۔
اس ووٹر قوم کا حال بھی اپنے ہی ہاتھوں اس مقام پر پہنچا ہے کہ نہ ہی یہ ترقیاتی کاموں کی وجہ سے ووٹ دیتے ہیں اور نہ ہی مہنگائی پٹرول پانی سستا کرنے کی وجہ سے برادری کی وجہ بھی اب برائے نام رہ گئی ہے۔ پھر سوچنے والی بات ہے کہ لوگ کس باعث ووٹ دیتے ہیں ۔تو سچ یہی ہے کہ گزشتہ دہائی سے صرف ’’گپوں‘‘ پر ووٹ دیتے ہیں یہ ہی کڑواسچ ہے کہ اخلاق سے گری ہوئی گفتگو بزرگوں اور علماء کو ڈیزل کہنا نقلیں اتارنا مذاق اڑانا گپوڑی ہونا دن رات کامیاب لوگوں کو گالیاں کو سنے دینا اپنی ناکامیوں کی وجہ کامیاب لوگوں کو گرداننا آسان ترین حل ہے خود محنت نہ کرنا مگر محنت سے کسی مقام پر پہنچے لوگوں کو نشانہ بناکر اپنی ناکامیوں سے روگردانی کرنا ایسے ایسے ضمیر کی تشفی کے سلیقے ہیں کہ عوام ان پر ہمخیال ہوکر کیسے ووٹ نہ دے؟
ایک رویہ تھا بھٹو صاحب کا کہ انہوں نے غریب کا نعرہ لگا کر فیکٹری مل میں بیٹھے مالکان پر مزدوروں کے دھاوے بلوادیئے مزدوروں نے دفتروں میں بیٹھے مالکان کے گلے سے ٹائیاں کھینچ لیں۔ ملیں بے کار ہو گئیں صنعت کا پہیہ جام ہو گیا فیکٹریاں تباہ ہو گئیں مگر بھٹو پارٹی کو ووٹ مل گئے دوسرے یہ سیاست کی راہ میں طبعی یا غیرطبعی موت مرجانے والوں کے لواحقین کیلئے بھی یہ جیتنے کا کارڈ ہے۔
لہٰذا بھٹو صاحب کا اسلامی سوشل ازم جاکر ٹرالے پر ختم ہوا ہے۔ انتہائی برے ریپلیکا کی صورت میں وہ کچھ نہ کچھ وژن والا چھوٹا موٹا ادھورا انقلاب تھا اس کا ریپلیکا محض انقلاب کا میلا لباس تھا جو نومئی کو جاکر اختتام پذیر ہوا ہماری طرح میاں نواز شریف نے بھی یہ سب سفر دیکھا ہے پاکستان کی سلامتی ان کے نزدیک زیادہ اہم ہے اپنی وزیراعظم کی تعیناتی نہیں۔
تبصرے بند ہیں.