قومی مفاد کی فکر کریں!!

11

اعلیٰ تعلیم سے متعلق کچھ نہایت تشویشناک خبریں میری نگاہ سے گزری ہیں۔ ایک خبر تو یہ ہے کہ خیبر پختونخواہ کی سرکاری جامعات کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے۔ جامعات کا خسارہ 1 ارب 77 کروڑ سے بڑھ گیا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظرا نتظامیہ جامعات کے معاملات چلانے میں بے بس ہے۔ حالات اس قدر بگڑ گئے ہیں کہ 20 سرکاری جامعات کی بندش کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ ارادہ تھا کہ یہ اور شعبہ تعلیم سے جڑی دیگر اہم خبروں پر کالم لکھوں گی۔ تاہم ٹیلی ویژن آن کیا تو صدر آصف زرداری پارلیمان میں خطاب کرتے دکھائی دئیے۔ خطاب تو خیر سنائی نہیں دے رہا تھا، ایک ہیجان تھا جو تمام چینلوں کی اسکرینوں پر برپا تھا۔ ٹی۔وی اسکرین کے مناظر دیکھ کر خیال آیا کہ جامعات کو درپیش مالی بحران پر کالم کو کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔ فی الحال اس سیاسی بحران پر بات کرتے ہیں، جو ہمیں درپیش ہے۔

ملک کا سیاسی منظر نامہ دیکھ کر اکثر ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ ہمارا رویہ کب تبدیل ہو گا؟ کب وہ وقت آئے گا جب ہم اپنے شخصی، گروہی اور سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھ کر اپنے ملک اور قوم کے بارے میں سوچیں گے؟ کب ہماری سیاسی جماعتیں تدبر اور بردباری کا مظاہرہ کریں گی؟ پیپلز پارٹی اور صدر آصف علی زرداری کی سیاست اور طرز سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ان کی سیاست سے قطع نظر، اپنے خطاب میں انہوں نے نہایت اچھی باتیں کیں۔ مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے لوگوں کی زندگی میں در آنے والی مشکلات کا ذکر کیا۔ ملک کو درپیش مسائل کا تذکرہ کیا۔ ماحولیاتی مسائل پر بات کی۔ خواتین کے حقوق کا ذکر کیا۔ وغیرہ وغیرہ۔ سب سے عمدہ بات جو انہوں نے کی وہ یہ تھی کہ ملکی مسائل کے پیش نظر تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے باہمی اختلاف کو بالائے طاق رکھ دینا چاہیے۔ مل بیٹھ کر جمہوریت کو مضبوط اور قومی مسائل حل کر نا چاہیے۔ لیکن جب زرداری صاحب یہ خطاب فرما رہے تھے، اپوزیشن (یعنی سنی اتحاد کونسل یا تحریک انصاف) اراکین پارلیمان شدید نعرے بازی میں مصروف تھے۔ گو زرداری گو کی آوازیں کسی جا رہی تھیں۔ سیٹیاں اور باجے بجائے جا رہے تھے۔ اس افراتفری اور شور و غل میں یہ خطاب اختتام پذیر ہو گیا۔ میرا نہیں خیال کہ اس ہنگامے میں کسی نے پورا خطاب ٹھیک سے سنا ہو۔روایت ہے کہ صدر کے خطاب کے موقع پر غیرملکی سفیروں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ اندازہ کیجئے کہ مہمان سفیر اس صورتحال کے بارے میں کیا تاثر ساتھ لے گئے ہوں گے۔

پارلیمان میں یہ ہنگامہ آرائی اور نعرے بازی پہلی بار نہیں ہوئی۔ ہم پہلے بھی پارلیمنٹ میں یہ مناظر دیکھتے رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ ہمیشہ اسی طرح جاری رہے گا؟ اس سب کا کوئی اختتام ہے بھی یا نہیں؟ ملک کو درپیش مسائل کے تناظر میں یہ منفی سیاسی رویے تبدیل ہونے چاہئیں۔ کون نہیں جانتا کہ ہمارا ملک اس وقت کن مشکلات کا شکار ہے۔ مسائل کا ایک انبوہ کثیر موجود ہے، جس کے لئے واقعتا سب اسٹیک ہولڈروں کو مل بیٹھنا چاہیے۔ پہاڑ جیسے معاشی مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں۔کئی برس ہو چلے ہیں، لیکن تمام تر کاوشوں کے باوجود معاشی حالات سنبھلنے میں نہیں آ رہے ہیں۔ گزشتہ حکومتوں نے کئی کوششیں کر دیکھیں، لیکن ہم آئی۔ ایم۔ ایف کے پنجے سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ عوام مہنگائی کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے ہلکان ہو گئے ہیں۔ گرمی کی آمد کے ساتھ ہی یہ خبر ان کی جان نکالنے کے لئے کافی ہے کہ بجلی یونٹ کے نرخ میں اضافہ ہونے والا ہے۔ تعلیم، صحت، کی سہولیات انہیں میسر نہیں ہیں۔ پٹرول، سوئی گیس، اشیائے خورد و نوش وغیرہ کی قیمتوں نے ان کی زندگی کو مشکل بنا رکھا ہے۔ ان حالات میں کسی بھی سیاسی جماعت کو ذاتی مفادات کی سیاست کرنا زیب نہیں دیتا۔

اس وقت آئی۔ایم۔ایف سے ہمارے مذاکرات جاری ہیں۔وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب اپنے وفد کے ہمراہ امریکہ میں موجود ہیں۔ حکومتی کوشش کا نتیجہ ہے کہ چند دن پہلے عالمی مالیاتی ادارے اور بلوم برگ نے پاکستان میں مہنگائی اور بیروزگاری میں کمی کی پیشن گوئی کی ہے۔ دوست ملک سعودی عرب سے بھی مالی امداد ملنے کی امید بندھی ہے۔سعودی عرب کے بزنس مینوں کا ایک اہم وفد پاکستان میں موجود ہے۔ ان حالات میں کبھی امریکہ اور امریکی صدر بائیڈن کو تحریک انصاف کی حکومت گرانے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ کبھی سعودی عرب کو امریکہ کا بغل بچہ کہہ کر اس کے خلاف بیانات داغے جاتے ہیں۔ اس طرح کے بیانات سے یقینا پاکستان کے ان ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہوتے ہوں گے۔ کیا سیاست اس قدر اہم ہے کہ اس کے لئے قومی مفاد کو داو پر لگا دیا جائے؟

غیر جانبداری سے غور کیجئے کہ پانامہ لیکس کے کھیل نے اس ملک کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے۔ دھرنوں، جلسوں اور احتجاج کی سیاست نے معیشت کی کمر توڑ ڈالی ۔ 2017 کے بعد ہمارا ملک اب تک نہیں سنبھل سکا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو سوچنا چاہیے کہ پاکستان کے عوام کو ابھی تک ان سے بہت سی توقعات ہیں۔ نوجوان نسل کی حالت یہ ہے کہ وہ ملکی حالات سے مایوس ہوتی جا رہی ہے۔ جس سے پوچھو وہ اس ملک سے نکلنا چاہتا ہے۔ پڑھے لکھوں اور ہنر مندوں کی ایک بڑی تعداد اس ملک کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا بسی ہے۔ یہاں پر خواتین اور بچوں کے مسائل کم ہونے میں نہیں آ رہے ہیں۔ امن عامہ کی صورتحال ہماری توجہ کی متقاضی ہے۔ بیروزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔ دنیا میں ہماری کوئی ساکھ باقی نہیں رہی۔ ہمارا پاسپورٹ بے توقیر ہو کر رہ گیا ہے۔ ہماری کرنسی کی کوئی قدرنہیں بچی۔ ہماری مصنوعات کو کوئی پوچھتا تک نہیں ہے۔ کیا اب بھی ہم ان لڑائی جھگڑوں کے متحمل ہو سکتے ہیں؟۔ نہایت ضروری ہے کہ ہم اپنی ذاتی رنجشوں کو بھلا کر اس ملک کے بارے میں سوچیں۔ سیاست ضرور کریں۔ مخالفین کو ہدف تنقید بھی بنائیں۔ لیکن جب قومی اور ملکی مفاد کا معاملہ آئے تو سیاست کو بالائے طاق رکھ دینا چاہیے۔ سچ یہ ہے کہ موجودہ ملکی حالات سے اب ہم جیسوں کو بھی مایوسی ہونے لگی ہے۔ اندازہ کیجئے کہ نوجوانوں کی ذہنی کیفیت کیا ہو گی جنہوں نے ابھی تعلیم مکمل کر کے مستقبل میں قدم رکھنا ہے۔ کاش جمہوریت کی مضبوطی کی خاطر، عوام الناس کی خاطر اور قومی مفاد کی خاطر ہماری قومی قیادت مل بیٹھے اور مسائل کے حل کی منصوبہ بندی کرئے۔

تبصرے بند ہیں.