9 اپریل، اپوزیشن تحریک، عید بعد کا منظر نامہ

36

عید آئی اور گزر بھی گئی، 9 اپریل یاد رہا۔ یوم چپیڑ (تھپڑ) اب تک ذہنوں میں محفوظ، دو سال پہلے فرد واحد کی ایک غلطی نے ادارے تباہ کر دیئے اس دوران ملک میں کیا ہوا؟ جمہوریت تباہ، برہنہ سر ماتم کناں، اداروں کی کیا حالت بنی۔ پی ٹی آئی کا اپنا براحال غلطی کرنے والا بد ترین صورتحال سے دوچار، ایک غلطی نے سیاست و جمہوریت سمیت ملک کو کئی دہائیوں پیچھے دھکیل دیا، مگر ”وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا، کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا“ اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد روکنے کی غلطی، خلاف آئین اقدامات، نتائج نہ صرف بانی پی ٹی آئی بلکہ پوری قوم بھگت رہی ہے، ملک جوں توں چل رہا ہے، عدالتیں اپنی بساط سے بڑھ کر سیاسی مقدمات نمٹا رہی ہیں، گڈ ٹو سی کہنے والے رخصت ہوئے بچ جانے والوں نے خطوط نویسی شروع کردی لیکن جمہوریت نہیں سنبھل پائی، الیکشن وقت پر نہ ہوسکے جو ہوئے وہ ہونے کے باوجود اب تک تنازعات کے غلاف میں لپٹے ہوئے ہیں۔ ہارنے والے اپنے اور غیر سب غیر مطمئن، جیتنے والے دوبارہ گنتی سے خوفزدہ، بلا شبہ حکومت بن گئی چل نہیں پا رہی، وزارتوں میں ”قبائل“ کا جھگڑا۔ رانا ثناء اللہ اور سعد رفیع سمیت مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کے بیانات سیاسی بے چینی کے مظہر، چپیڑ کسی ایک کے نہیں پوری قوم کے منہ پر لگی، ”گالوں کی سرخی بتا رہی ہے کہ کچھ ہوا تھا“ کاش خان صاحب تحریک عدم اعتماد منظور ہونے کے بعد اقتدار کا بھوت سر سے اتار کر وزیر اعظم کے ساتھ والی کرسی پر اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے بیٹھ جاتے اور سیاسی تدبر سے 16 ماہ تک رہنے والی حکومت کا ناطقہ بند کردیتے۔ ایوان معمول کے مطابق چلتے رہتے الیکشن وقت پر ہوتے اور عوام ان کے چار سالہ دور حکومت اور اس سے پہلے کے ملکی حالات کے تناظر میں فیصلہ دیتے۔ ممکن تھا عوام پی ٹی آئی کا سر منہ چوم کر دوبارہ برسر اقتدار  لے آتے ”مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے“ کہ مستقبل کا پورا سیاسی منظر نامہ امکانات اور خدشات کے اندھیروں میں گم دکھائی دیتا ہے۔ آئین اور جمہوریت کو اپنی مرضی سے نافذ العمل کرنے کی ”حماقتوں“ نے یہ دن دکھائے خان اپنے ”سرپرستوں“ کے خلاف بیانئے بنانے کے بجائے تحمل سے کام لیتے، آئین اور قانون کا بازو نہ مروڑتے تو جمہوریت زخم زخم نہ ہوتی۔ خان جیل کی ہَوا نہ کھاتے اور شاید معیشت کا بھی برا حال نہ ہوتا۔ ایک جھوٹ نبھانے کے لیے سو جھوٹ بولے گئے۔ ایک غلطی کے بعد کئی غلطیاں کی گئیں۔ جن کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ خان صاحب کیوں نہیں مانتے کہ قومی اسمبلی سے استعفے ان کی جذباتی اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل ان کی سوچی سمجھی حماقت تھی جس کا مقصد ایوانوں سے باہر نکلنا تھا۔ مرکزی محاذ سے سرنڈر مہنگا پڑا۔ انہیں عوام میں مقبولیت اور جلسے جلوسوں کی افادیت پر ناز تھا مگر وہ ناتجربہ کاری کا شکار ہوئے مقبولیت اور قبولیت کا فرق نہ سمجھ سکے، چوہدری پرویز الٰہی چیختے چلاتے رہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ہمارے لیے کہیں جائے پناہ نہ ہوگی۔ تجربہ کار سیاستدان کی بات سچ نکلی صنم اپنے ساتھ انہیں بھی لے ڈوبے ان کی ”عزت سادات“ بھی خاک میں ملا دی۔ ”خدا ہی ملا نہ وصال صنم“ مینڈیٹ چھن گیا۔ انتخابی نشان سے محروم پارٹی شناخت کھو بیٹھی۔ ایک بے نام سی غیر پارلیمانی پارٹی سے وابستگی پر مجبور، مخصوص نشستیں بھی نہ مل سکیں۔ پارٹی گروپوں میں تقسیم، خیمہ میں غیر سیاسی لوگ گھس آئے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کو کچھ نہ مل سکا حتیٰ کہ وہ حکومت مخالف تحریک چلانے کے لیے بھی چھوٹی پارٹیوں کی محتاج ہوگئی۔ دیگر جماعتوں نے فہم و فراست سے کام لیا اور سیاسی اکھاڑے میں دھول اڑانے کے بجائے اتحاد قائم کر کے حکومت بنالی، حقیقت یہی ہے کہ آج خان کے بد ترین دشمن حکومت میں بیٹھے ہیں جبکہ خان غرور اور انا کی چادر اوڑھے منہ کی بکل مارے ڈٹ کر کھڑے کھڑے اکڑ گئے ہیں۔ مذاکرات کی منت سماجت بھی کام نہیں آئی ان کی بے تدبیرانہ سیاست سے اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل بڑھ گیا۔ خان اپنی ہٹ دھرمی کے باعث سسٹم سے ہی نکل گئے۔ بد قسمتی ہے کہ وہ اب تک اپنے آپ کو فاتح قرار دے رہے ہیں حالانکہ وہ خسارے میں ہیں اور قرائن بتاتے ہیں کہ وہ آئندہ دو سال خسارے میں ہی رہیں گے۔ خان کو جو بقول بی بی سی ماحول بدلنے کا انتظار کر رہے ہیں کچھ نہیں ملے گا۔ ماحول بدلے گا نہ ماحول بنانے والے، سیانے کہتے ہیں کہ ان کی سیاست کا چیپٹر کلوز ہوگیا تمت بالخیر، پارٹی کو ”مخالف سمت“ سے آنے والوں نے سنبھال لیا خان مخالفین کو نشان عبرت بنانا چاہتے تھے خود نشان عبرت بن گئے۔ عوام کی مقبولیت کہاں گئی؟ انہوں نے 9 اپریل (چاند رات) کو سڑکوں پر مظاہروں کی کال دی تھی۔ کراچی اور لاہور میں درجن سے زیادہ عوام نہ نکل سکے۔ پولیس لاٹھی چارج کے لیے مظاہرین کا انتظار کرتی رہی اڈیالہ جیل کے باہر مظاہرین کی تعداد 35 سے زیادہ نہ تھی جو ”خان تیرے جاں نثار بے شمار بے شمار“ کے نعرے لگا رہے تھے۔ یہاں بھی پولیس بے شماروں کا انتظار کرتی رہی مظاہرہ کرنے والے کسی شمار و قطار میں نہ آئے۔ خان یوم چپیڑ بھول گئے چپیڑیں مارنے والے نہیں بھولے۔ چاند رات کو البتہ ایک اور حادثہ بلکہ سانحہ پیش آگیا۔ ”دو اداروں کا زمیں پر ہوا ملن چاند کی رات“ تحمل اور رواداری کا فقدان، کس کے کیا اختیارات تھے کس نے اختیارات سے تجاوز کیا جے آئی ٹی فیصلہ کرے گی۔ جو ہوا اچھا نہیں ہوا بلکہ اکثر و بیشتر انفرادی افعال اداروں کے اجتماعی اعمال کا حصہ بنا دیے جاتے ہیں اور بد نامی کا باعث بنتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے بدنام زمانہ سوشل میڈیا نے اس پر جو پراپیگنڈہ کیا اس سے اداروں کی عزت و توقیر پر حرف آیا۔ جھوٹے ویلاگ بے بنیاد ٹوئٹس قابل مذمت، مشرف دور سے خان کے دور حکومت تک ایسے کئی واقعات پیش آئے جنہیں سانحات کی شکل اختیار کرنے سے پہلے گمنام فائلوں میں دفن کردیا گیا اب کیا بے چینی ہے۔ ملک کو بدنام کرنے سے گریز اولین ترجیح ہے ادارے فیصلے کرنے میں دیر نہیں کریں گے۔

عید بعد کچھ بڑا ہونے والا ہے؟ لڑائی براہ راست شروع ہو گئی۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ فرد واحد کی حماقتیں دوسروں کو سیز فائر پر صلح کے مذاکرات کی میز پر نہیں آنے دیں گی۔ درآمدی سوچ سے حالات کی تلخی بڑھ رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا پسندیدہ موضوع اِدھر کے تجزیہ کار لال پیلے ہو کر غلامی اور آزادی کے حوالے سے خان کی تعریف و توصیف کے پل باندھتے ہیں۔ لگتا ہے خان بھارت کی کسی جیل میں آزادی کے دن کے منتظر ہیں۔ اُدھر کے تجزیہ کار ڈانڈے بیرون ملک دشمن قوتوں سے جوڑتے اور ماضی و حال کی حماقتوں سے قید و بند کی ”صعوبتوں“ کو جوڑتے ہیں جبکہ خان 6 ماہ بعد بھی ہار مارننے کو تیار نہیں۔ وہ فائیو سٹار جیل میں بیٹھ کر اقتدار سے نکالنے والوں کو للکار رہے ہیں۔ ترلے تڑیاں ساتھ ساتھ، ایک ہی سانس میں دو باتیں۔ گزشتہ دنوں میڈیا سے 25 سے 30 منٹ تک بات چیت کرتے ہوئے کہا بیٹھا ہوں بات کرلیں اقتدار کی خواہش نہیں قائل کر لیں۔ غلامی نہیں کروں گا۔ وقفہ کے بعد کہا مجھے یا میری بیوی کو کچھ ہوا تو آرمی چیف ذمہ دار ہوں گے۔ ”کیا مطلب دوبدو لڑائی، ماضی میں اپنی شکستوں اور محرومیوں کا بہتوں کو ذمہ دار ٹھہرا چکے حالانکہ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ذمہ دار خود بھی ہیں۔ لڑائی کا لب لباب ایک طرف سے پیش کش، درخواست، عرضی، ہاتھ پکڑے اب بھی تیرا ہو سکتا ہوں۔ جواب ملا ”تو کسی اور سے نہ ہارے گا، تجھ کو تیرا غرور مارے گا“ بانی پی ٹی آئی کو بارہا مشورہ دیا گیا کہ پیچھے مڑ کر دیکھیں حالات کا بغور جائزہ لیں مگر وہ پورے منظر نامہ کو ایک آنکھ سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ شنید ہے مبینہ طور پر سرمہ بھی ایک آنکھ میں لگاتے رہے۔ بات اتنی سی تھی سیاست میں نیا تجربہ کیا گیا خام مال صحیح نہ نکلا۔ تجربہ پر سبھی پچھتائے ”ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ، دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا“ ہر چمکدار چیز سونا نہیں ہوتی، تنازع یہیں سے شروع ہوا، گالیاں کھا کر بے مزہ نہ ہونے والوں نے نگاہیں کیا پھیریں خان کے برے دن شروع ہوگئے۔ اب تک جیل میں عیش کر رہے ہیں۔ سہولت کاروں سے کسی نے پوچھا (کوئی نہیں پوچھ سکتا، اللہ ہی پوچھے گا) کہ دنیا میں کون سی جیل کون سا لیڈر ہے جسے ہفتہ میں دو تین دن میڈیا کے سامنے دل کی بھڑاس نکالنے کی ”آسائش“ حاصل ہو۔ خان کا درد رکھنے والوں کی زبانوں اور قلم سے سہولتیں پھوٹتی ہیں۔ خیمہ میں موجود وکلا کا دعویٰ خان ایک ماہ بعد رہا ہونے والے ہیں۔ علی محمد خان نے 25 رمضان کی تاریخ دی تھی۔ عید گزر گئی آئندہ رمضان کی 25 کا انتظار کریں۔ لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے اپریل میں رہائی کی نوید سنائی کیسے کیونکر، پتا نہیں، جیل حکام خان کے غلام حالانکہ خان کو غلامی پسند نہیں، حکام سے بھی اللہ ہی پوچھے گا کہ دو تین مقدمات میں سزا یافتہ قیدی کو اتنی سہولتیں کون سے جیل مینوئل میں میسر ہیں۔ یہ وہی جیل حکام ہیں جنہوں نے نواز شریف کو بستر مرگ پر پڑی اپنی اہلیہ سے فون پر بات کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ خان نے چالوں کا حوالہ دیا، سب الٹی پڑ گئیں، اللہ کی مشیت غالب، اعتراف کرنا پڑا کہ ہماری پارٹی میں اسٹیبلشمنٹ کے لوگ بیٹھے ہیں۔ اندازہ ہوا کس کی چالیں کامیاب رہیں؟ وکلا کو لانے کا شوق پورا ہوگیا؟ شہر یار آفریدی نے انہیں آستین کے سانپ قرار دے دیا۔ طاقت ور لوگ بہت سی غلطیاں معاف کرسکتے ہیں لیکن خان کا مسئلہ ہے کہ انہوں نے 9 اپریل کے بعد 9 مئی کے بم کو بھی لات ماری کوئی تو پھوڑے گا۔ چالان پیش ہونا باقی ہے۔ سپریم کورٹ میں اعتراف کرچکے دوبارہ گرفتار کرو گے تو یہی رد عمل ہوگا۔ اعتراف سے انحراف نا ممکن، تیر کمان سے نکل گیا خان کے اعصاب مضبوط جن سے لڑ رہے ہیں اعصاب کی مضبوطی ان کی تربیت کا حصہ ہے۔ اب ٹاک ٹاک نہیں فائٹ فائٹ کا ماحول بن رہا ہے۔ عید بعد حکومت مخالف تحریک شروع ہوگئی، مولانا فضل الرحمان سے امید و فارمولا گیلی زمین پر پاؤں رکھنے سے گریزاں جنہوں نے خیبر پختونخوا میں پندرہ سیٹوں پر مینڈیٹ چوری کیا ان سے کیسے گلے ملیں، تین جلسے دھرنے ہونے دیں حالات کنٹرول میں ہیں کوہاٹ سے کیل بردار دستہ اسلام آباد پر دھاوا بولنے کو تیار، اٹک پل پر محسن نقوی کھڑے مل گئے تو کیا کریں گے؟ تحریک انصاف میں باہمی کھینچا تانی، قیادت کا فقدان، خان کی دلی خواہش کے باوجود تحریک کی کامیابی کے امکانات نہیں، وجہ؟ فیول میسر نہیں قیادت کمپرومائزڈ دکھائی دیتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.