وزیر اعظم صاحب! پی ٹی وی کا جگا ٹیکس ختم کرائیں

58

میرے پاکستان اور میرے پاکستان کے عوام یعنی دونوں مظلوم ہیں اور میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ دونوں کیوں مظلوم ہیں؟ اور وہ کون ظالم ہیں جنہوں نے ان دونوں کو مظلوم بنا دیا اور اب تو ہم اپنی آزادی کی پہلی صدی میں داخل ہونے والے ہیں اور مظلومیت کے رونے ہیں وہ 76 برسوں سے ختم ہی نہیں ہو رہے۔ یہاں تو عدالتیں بھی مظلوم، حکومتیں بھی مظلوم، قانون بھی مظلوم، ادارے بھی مظلوم۔ یعنی جس چیز پر نظر ڈالیں، وہاں مظلومیت ہی نظر آتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سب مظلوم ہیں تو پھر ظلم کس نے کیا؟ آخر کسی نے ظلم کیا ہے تو ہم مظلوم ہیں۔ دیکھا جائے تو دہائیوں سے ہم ظلم سہتے آ رہے ہیں لیکن ابھی تک اس ظالم تک نہیں پہنچ سکے جو ہم پر ظلم کے پہاڑ گرا رہا ہے۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کہ ہمارے درمیان ظالم کون ہے۔ اس کے باوجود ہم اسے پکڑ نہیں پا رہے۔ چلیں ہم مظلومیت کی زیادہ بات نہیں کرتے صرف ایک بات کرتے ہیں وہ ہے مظلوم عوام پر ٹیکسوں کا بھاری بوجھ۔ یعنی ٹیکس چوری کرنے والے ہی الزام لگاتے ہیں کہ عوام ٹیکس چور ہیں۔ دراصل ٹیکس چوری کے کئی راستے نکال لئے گئے ہیں اور یہ چوری اب مختلف طبقات میں تقسیم کر دی گئی ہے۔

بنانے والوں نے یہ ملک اس نظریئے کے تحت آزاد کرایا کہ ہندوؤں اور انگریزوں کی حکمرانی سے نجات حاصل کرنے کرکے مسلمانوں کو الگ پاکستان کے نام پر دنیا کے نقشے پر لایا جائے۔ یوں تو ہماری آزادی کی کہانی بہت لمبی ہے۔ اسے بدقسمتی کہہ لیں کہ قائداعظمؒ کی وفات کے فوراً بعد پاکستان کے سسٹم کو ان لوگوں کے حوالے کر دیا گیا جو اس کو چلانے کے اہل نہیں تھے۔ لیکن اللہ اس کو چلاتا رہا اور اللہ ہی اس کو چلاتا رہے گا۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ اس کو کسی نہ کسی طرح سے تباہ و برباد کر دیا جائے اور اس کا عملی مظاہرہ کئی دہائیوں سے کسی نہ کسی شکل میں کبھی کسی نظریے، کبھی کسی غلط قانون، کبھی ذاتی انا، کبھی مفادات یعنی کہ ہم نے شیطانیت کے وہ تمام کام کر ڈالے کہ جس سے کہ پاکستان اور پاکستان کے عوام کو زیادہ نقصان ہو۔

پوری دنیا میں کوئی بھی نظام چلانے کے لئے ٹیکسوں کا حصول بہت ضروری ہے مگر صد افسوس کہ پاکستان میں دو تین طبقات ایسے ہیں جو کہ ٹیکس نہیں دیتے، اور اس کا سارا نزلہ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ان کے بدلے میں ہر سال کھربوں روپے عوام کی جیبوں سے نکالے جاتے ہیں۔ جب کہ مراعات یافتہ طبقہ اربوں کماتا ہے اور ٹیکس لاکھوں میں بھی نہیں دیتا۔ یوں تو پاکستان کے ہر سسٹم میں چوری ایک وطیرہ بلکہ قانون بن گیا ہے۔ بجلی، گیس، پانی اور ٹیکس چوری سے کھربوں روپے اِدھر اُدھر کر دیئے جاتے ہیں۔ یہاں اگر ہم صرف موجودہ نئی حکومت کی بات کریں تو اس نے آتے ہی تین چار بڑے اہم اعلانات کئے، فیصلے نہیں۔ اعلانات وہ ہوتے ہیں جو ذاتی مفادات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ فیصلے ہوتے ہیں اور جب ان کئے گئے فیصلوں پر پریشر پڑتا ہے تو فیصلے واپس لے لئے جاتے ہیں۔ یہی ایک ایسا فرق ہے جس کو آج تک مٹایا نہیں جا سکا اور اگر یہی فرق مٹ جائے تو پاکستان کے حالات کبھی بھی نہ بگڑیں۔ کہا جاتا ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے۔ عوام ٹیکس دیتے ہیں، بلکہ آپ عوام کی جیبوں سے ٹیکس نکلوانے کے بڑے ہنر جانتے ہیں اور اگر آج ملک چل رہا ہے تو وہ عوام ہی کے ٹیکسوں سے چل رہا ہے۔ حکومت عوام کی جیبوں سے کیسے ٹیکس نکلواتی ہے؟ ٹول پلازے سے شناختی کارڈ کی فیس تک، پاسپورٹ سے ہوٹل کے 22% کھاتے تک اور ایک سب سے بڑا ٹیکس جو آج سے پچاس سال پہلے لگایا گیا تھا وہ ٹی وی ٹیکس تھا۔ الیکٹرانک میڈیا کے آنے سے پہلے صرف پاکستان ٹیلیویژن ہی واحد چینل تھا۔ اس دور میں فیصلہ کیا گیا کہ جس گھر میں ٹی وی ہوگا اس سے 30 روپے ماہانہ فیس لی جائے گی۔ پہلے یہ سلسلہ براہ راست تھا پھر اس کو واپڈا کے بلوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا اور پی ٹی وی اربوں سے کھرب پتی ہو گیا اور وہ ٹیکس آج بھی جاری ہے جبکہ شاید ہی سو میں سے دس آدمی دیکھتے ہوں گے اس طرح کے جگا ٹیکس بند کرنا ہوں گے کیونکہ آج گھروں میں ٹی وی کی جگہ ایل ای ڈی سکرینوں نے لے لی ہے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سب سے پہلے پی ٹی وی کا جگا ٹیکس عوام پر ڈالا جا رہا ہے اس کو ختم کیا جاتا، کیا حکومت بتائے کہ کیا یہ ٹیکس نہیں ہے۔ گاڑی کی خریدو فروخت سے لے کر پراپرٹی خریدنے تک گھروں میں پئے جانے والی پانی سے لے کر ہر مشروب تک ٹیکس لیا جاتا ہے۔ بلوں میں اقراء ٹیکس سے لے کر بے تحاشا دوسرے ٹیکسز ملا کر روزانہ عوام کو نچوڑا جاتا ہے۔ یعنی کہ کوئی بھی سرکاری یا پرائیویٹ ادارے ہیں جس چیز کا تعلق عوام کے ساتھ ہو اس پر ٹیکس ہی ٹیکس ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ آپ ٹول ٹیکس کی شکل میں اربوں روپے عوام سے نچوڑتے ہیں۔

اور آخری بات……!

جناب وزیراعظم صاحب عوام تو ٹیکس ہی ٹیکس دے رہے ہیں بلکہ کم از کم بجلی کے بلوں میں سے پی ٹی وی کا جگا ٹیکس فی الفور ختم کیا جائے۔ یہ بہت بڑا ظلم ہے اور اس ظلم کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔

تبصرے بند ہیں.