بھٹو کا قتل اور پسپائی کی تاریخ

40

یہ4 اپریل 1979ء تھا۔ میرا میٹرک کے امتحان کا جنرل سائنس کا آخری پیپر تھا۔ صبح سویر ے تیار ہو کر امتحانی مرکز جانے کیلئے گھر سے نکلا تو لوہاری دروازے کے بالکل سامنے انارکلی کے داخلی راستے پر اخبار فروش کے سٹال پر خلافِ توقع ہجوم دیکھ کر حیرت ہوئی کیونکہ اُن دنوں اخبارات کے فرنٹ پیجز پر ایک، دو، تین اورچار کالمی خبروں کی جگہ پر سفید خانہ بنا ہوتا تھا یعنی خبر ہٹا دی جاتی تھی سو لوگوں کا اخبارات پڑھنے کے حوالے سے بھی وہ رجحان نہیں رہا تھا جو اِس سے پہلے ہوا کرتا تھا لیکن اُس دن رش دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی۔ اُس زمانے میں چونکہ پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان ہی تیز ترین خبر کا سب سے معتبر ذریعہ تھا سو رات خبرنامہ میں بھی کچھ ایسا نہیں تھا جو قابلِ تفتیش ہوتا۔ نزدیک جا کر دیکھا تو اخبار نہیں ضمیمہ تھا جس پر منحوس الفاظ میں لکھا تھا ”ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دید ی گئی“۔میرے لئے لوہاری گیٹ سے ناصر باغ کے سامنے اسلامیہ ہائی سکول خزانہ گیٹ کے امتحانی مرکز تک پہنچنا عذاب بن گیا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے میری ٹانگوں سے جان نکل گئی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ میں چونکہ آرٹس کا طالبعلم تھا اس لئے سوکس(سیاسیات) اور تاریخ میرے سبجیکٹ تھے۔مطالعہ پاکستان اور اسلامیات خود ذوالفقار علی بھٹو 1974 ء کی ایجوکیشن پالیسی میں لازمی قرار دے چکے تھے جو بعد ازاں جنرل ضیاء الحق کے کام آئے اور اُس نے من مرضی کی اسلامیات اور مطالعہ پاکستان پڑھا کر ”جہادِ افغانستان“ کیلئے پاکستان کے سکولوں، کالجوں اور مدرسوں میں مجاہدین اور ایک مخصوص مائنڈ سیٹ پیدا کرلیا۔ اُس زمانے میں میٹرک کے طالبعلم کا سیاست سے اِس طرح تعلق نہیں ہوا کرتا تھا جیسے آج سوشل میڈیا کے دور میں ہے لیکن میرے اوپر قسمت کی دو دیویاں بیک وقت مہربان ہوئیں۔ ایک تو سوکس میرا نویں جماعت سے سبجیکٹ قرار پایا جس کی وجہ سے حکومت، ریاست، طرز حکومت، جمہوریت، آمریت، بنیادی حقوق اور اپنے حکمرانوں کے طرز سیاست، زندگی کے ابتدائی ایام میں ہی سمجھ آ گیا اور دوسرے میرے کلاس ٹیچر جناب ریاض منیر صاحب، جو بھٹو کے عاشق اور کافر قسم کے ”جمہوریت پرست“ تھے۔ جب تک ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ چلتا رہا سر ریاض منیر نے روزانہ کی بنیاد پر مقدمہ کے بارے میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں جماعت کو بتانا اور ضیاء الحق کی نا جائز حکمرانی، آئین توڑنے اور آرٹیکل 6 اے اور بی کے اطلاق کی باتوں نے ہمیں بہت کچھ سمجھا دیا تھا۔ امتحانی مرکز میں بیٹھا سوچتا رہا کہ ابھی کوئی ہجوم آئے گا اورسارا امتحانی مرکز الٹا پلٹا کر رکھ دے گا لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ پیپر ختم ہونے کے بعد پیدل چلتا ہوا مسلم ماڈل ہائی سکول اردو بازار پہنچا تاکہ سر ریاض منیر کو پُرسہ دے سکوں، وہ کلاس روم میں اکیلے بیٹھے تھے اور اُن کی سرخ آنکھیں دیکھ کر یوں محسوس ہوا کہ وہ میرے آنے سے پہلے گریہ و ماتم سے فارغ ہو چکے ہیں لیکن جب الفاظ اُن کی زبان سے ادا ہوئے تو لفظوں میں ابھی تک آنسوؤں کی آمیزش موجود تھی۔ سر ریاض منیر کا ایک جملہ مجھے آج تک یاد ہے کہ جب میں نے اُن سے پوچھا کہ ”اب پاکستان کا مستقبل کیا ہے؟“ تو انہوں نے ایک لمحے کیلئے اپنا سر جھکا لیا اور مراقبے جیسی حالت میں چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد اُنہوں نے سر اٹھایا تو اُن کی آنکھیں پھر آنسوؤں سے لبریز ہو چکی تھیں، وہ راز دارانہ لہجے میں گویا ہوئے:”سنو! اب اِس ملک میں قتل کی روایت چلے گی اور جو بھی اِس تحت پربیٹھے گا وہ اپنے مستقبل کا مقتول ہو گا“۔ میں ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ موری گیٹ سے ہوتا ہوا گھر روانہ ہوا۔ صبح ناشتے کے بغیر گیا تھا سو بھوک سے چکر آ رہے تھے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی والدہ محترمہ کو آوازیں دینا شروع کردیں۔۔۔امی۔۔۔امی۔۔۔ امی لیکن والدہ کی آواز کہیں سے نہیں آئی۔ میں مختلف کمروں سے ہوتا ہوا گھر کے آخری کمرے میں پہنچا تو والدہ محترمہ کمرے میں تنہا بیٹھی تھیں اُن کی آنکھیں بھی رونے سے سرخ ہو چکی تھیں۔ میری سمجھ سے باہر تھا کہ جس عورت کو میں نے زندگی میں کبھی بھٹو یا ملکی سیاست کے بارے میں ایک لفظ بولتے نہیں سنا اُن کا بھٹو سے کیا تعلق ہے۔ میں نے اپنی ماں سے پوچھا کہ ہمارا بھٹو سے کیا رشتہ تھا، آپ کیوں رو رہی ہیں لیکن میری ماں خاموش رہی۔ بھٹو بھی خاموش کردیا گیا اور ضیا الحق نے پاکستانی قوم کو اُس کی موت پر آنسو بہانے کی اجازت بھی نہیں دی۔ بند کمروں سے آہوں اور ہچکیوں کی آوازیں آتی رہیں۔ بھٹو کے قتل کے بعد اِس سماج میں ہر وہ اقدام کیا جس سے آزاد سوچ کا دم گھٹتا رہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ معاشرہ عجیب و غریب رنگ اختیار کر گیا جس کی ایک شکل آپ کے سامنے ہے۔ کل اِس ریاست نے بھٹو کو پھانسی دی تھی لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے جمہوریت پسند وں نے کسی قومی سلامتی کے ادارے پر حملے نہیں کیے۔ کسی ادارے کو میر جعفر اور میر صادق نہیں کہا، کسی کو ہیری یا غدار کے نام سے منسوب نہیں کیا۔ بھٹو کے بیٹوں نے تشدد کا رستہ اختیار کیا تو اُس نے بیٹوں سے لا تعلقی اختیار کر لی۔ میں آج بھی اپنے اُس عظیم استاد کا شکر گزار ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں تادیر ہمارے سروں پر سلامت رکھے کہ اُن کی رہنمائی نے زندگی میں بددیانت نہیں ہونے دیا۔

آج ریاست کے سامنے انارکسٹوں کی ایک فوج ہے جنہوں نے ہر وہ کام کیا جو اگر ضیاء الحق کے دور میں ہوا ہوتا تو اِن کے خاندانوں کا پتہ بھی نہ چلتا لیکن آپ اُن انارکسٹوں کے سربراہ کو دیسی گھی، دیسی مرغے اور بکروں کے گوشت کے علاوہ اُس کے پسندیدہ پرندے بھی فراہم کرنے پر مجبور ہیں۔ آپ نئی تاریخ لکھ رہے ہیں ”ریاست کی پسپائی کی تاریخ“ کہ ایک سزا یافتہ شخص جیل سپرنٹنڈنٹ سے معاہدہ کر رہا ہے یہ معاہدہ کسی جیل سپرنٹنڈنٹ سے نہیں ریاست پاکستان سے ہے۔ یہ سب کچھ کسی جادو کے زیر اثر معلوم ہوتا ہے کیوں کہ ریاستیں ایسے نہیں کرتیں یا پھر کعبے کو صنم خانے سے ہی پاسباں مل چکے ہیں۔ آج ججز خط لکھ رہے ہیں کہ اُن پر دباؤ ہے لیکن جس بھٹو کا قتل دباؤ کا نتیجہ ثابت ہو چکا ہے کیا کسی نے اُس کے ملزمان کے بارے میں سوچا ہے؟ تو یہ خیال فیصلہ دینے والے ججوں کو آیا ہے اور نہ ہی خط لکھنے والوں کو توفیق ہو ئی ہے کہ اپنے خط میں بھٹو کے قتل کا ہی ذکر کردیتے۔ وقت گزرتا رہا لیکن میں استادِ محترم ریاض منیر کے الفاظ کبھی نہیں بھولا: ”سنو! اب اِس ملک میں قتل کی روایت چلے گی اور جو بھی اِس تخت پر بیٹھے گا وہ اپنے مستقبل کا مقتول ہو گا“۔ بھٹو کے بعد جنرل ضیاء الحق کا اپنے جرنیلوں سمیت طیارہ زمین اور آسمان کے درمیان آگ کا گولا بنا دیا گیا لیکن کوئی تحقیق اور تفتیش آج تک عوام کے سامنے نہیں آئی۔ نواز شریف کے کان کے پاس سے مشرف گزر گیا اور پھر 27 دسمبر 2007ء کی وہ خونی شام جب محترمہ کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں قتل کردیا گیا۔ میں رات دیر سے گھر پہنچا تو میری بیوی رو رہی تھی۔ سارا پاکستان رو رہا تھا لیکن میں نے اُس دن اپنی بیوی سے نہیں پوچھا کہ ہمارا بی بی سے کیا رشتہ تھا؟ کہ کچھ رشتوں کو ہم کوئی بھی نام نہیں دے سکتے۔ ضیاء الحق نے بھٹو کی موت پر کسی کو آنسو بہانے کی اجازت بھی نہیں دی تھی لیکن مشرف اِس حوالے سے فراخ دل ثابت ہوا کہ اُس نے لوگوں کو کھل کر رونے دیا اور لوگوں  نے بھی بی بی اور بھٹو کا اجتماعی سوگ منا لیا۔ شاید ہم پھر ایک نئے سوگ کی تیاری کر رہے ہیں، دیکھیں اس بار کس کا ہوتا ہے؟؟؟

تبصرے بند ہیں.