بستی ارائیاں ، جہاں سب گونگے ہیں

26

ایک پوری بستی ایسی ہے جہاں کوئی بول اور سن نہیں سکتا۔ یہ بستی کسی دور دیس کی ریاست میں قائم نہیں بلکہ ملتان کی نواحی یونین کونسل تاج پورہ بستی آرائیاں ہے۔ آرائیں برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد قدرتی طور پر قوت گویائی اور سماعت سے محروم ہے۔ یہ برادری یہاں 1947 سے قبل کی آباد ہے۔

2016 میں حکومت کے خدمت کارڈ پروگرام کے تحت محکمہ سوشل ویلفیئر میں 75 بالغ معذور افراد کو رجسٹر کرایا گیا جن کی معذوری کے سرکاری سرٹیفکیٹ بھی جاری ہوچکے ہیں لیکن خدمت کارڈ صرف دوافراد کوہی مل سکے۔

گونگے اور سماعت سے محروم ان افراد کی تعلیم و تربیت پر ایسی توجہ نہیں دی گئی جو سرکار کی ذمہ داری تھی۔ بنیادی سہولتوں کی فراہمی بھی باقی پسماندہ علاقوں جیسی ہے۔ ان کے علاج و خوراک پر توجہ دی جانی چاہئے۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ یہاں سماعت اور گویائی سے محروم افراد کی ایک ہی برادری میں اتنی بڑی تعداد ہے تو میڈیکل بورڈ تشکیل دے کر وجوہات معلوم کی جائیں تاکہ آنے والی نسلوں کو اس سے بچایا جا سکے۔

انہوں نے بتایا کہ گونگے اور بہرے بچے بچیوں کے بڑے ہونے پر آپس میں رشتے کر دیے جاتے ہیں اور ان کے بچے بھی معذور ہی پید اہوتے ہیں۔ ’یوں یہ معذوری پروان چڑھتی جارہی ہے اس پندرہ سو آبادی کے علاقہ میں چھوٹے، بڑے اورخواتین کی کل تعدادایک سو 30 سے تجاوز کرچکی ہے۔ طاہرہ بی بی نے بتایا کہ ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدائشی طور پر قوت سماعت اور گویائی سے محروم ہیں جس پر وہ بہت پریشان ہیں کہ ان کی تعلیم وتریبت اور شادیاں کیسے کریں گی جبکہ وسائل اتنے ہیں کہ دو وقت کی روٹی مشکل سے پکتی ہے۔ ایسے میں وہ معذور بچوں کے مستقبل پر دکھی ہیں۔ جب معذور بچوں کے رشتے باہر کی برادر یوں میں نہیں ہوتے تو انہیں آپس میں ہی شادی کرنا پڑتی ہے جس کے نتیجہ میں آئندہ نسل بھی معذور پیدا ہوتی ہے۔ یہی سلسلہ ہے جو معذوری کو ختم نہیں ہونے دیتا۔

افضل نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ اس علاقے پر توجہ دے، یہاں ماہرین کی ٹیم سے تحقیق کرائی جائے کہ جس کی وجہ سے ایک ہی برادری کے افراد معذور پیدا ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ خونی رشتوں کی باہمی شادی کی وجہ سے ہوتا ہے۔‘

بستی آرائیاں کا علاقہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا حلقہ انتخاب ہے اور اب ان کا بیٹا علی حیدر گیلانی اس علاقے سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوا مگر معذور لوگ شائد کسی کی توجہ اور ہمدردی حاصل نہیں کر سکے۔ معذوروں کے لئے مختص فنڈز اور عالمی این جی اوز کی توجہ میسر ہو تو خصوصی تعلیم کے ادارے انہیں کارآمد بنا سکتے ہیں۔ حکومتی رکن اسمبلی عامر ڈوگر نے اس بستی کے نصف درجن افراد کو مختلف اداروں میں مخصوص کوٹہ پر ملازمتیں لے کر دی ہیں اور مذکورہ خاندانوں کو عزت کی روٹی نصیب ہوئی ہے۔ قوت سماعت اور گویائی سے محروم ہونے کا دکھ پوری بستی کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اس بدقسمت بستی کے 95 بچے بڑے ، مرد و خواتین گونگے بہرے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں گونگے بہرے افراد کی موجودگی کے باوجود اس بستی میں سپیشل ایجوکیشن کے لئے کوئی سرکاری سکول قائم نہیں کیا گیا۔ انتظامیہ کی مزید ستم ظریفی تو دیکھئے آج تک کسی نے بیت المال کے ذریعے بھی ان افراد کی داد رسی کرنا گوارا نہیں کیا ۔ معذوری کے سرکاری سرٹیفکیٹ بھی سرکار کو ان کی مدد پر آمادہ نہ کر سکے۔

حیران ہوں کہ ایسی بستی جہاں کوئی سن نہیں سکتا اور بول بھی نہیں سکتا ، وہ مہذب دنیا اور اس کی تحقیق سے اوجھل کیوں ہے۔ میڈیکل سائنس جب معجزوں پر قادر ہونے کا دعویدار ہے تو پھر یہ بے بسی اور لاچارگی کیوں ؟ انسان جیسی چیز نسل در نسل معذور ہوئی جاتی ہے اور مداوا کرنے والا کوئی نہیں۔

تبصرے بند ہیں.