اِسلام کے قلعے میں بجھے ہوئے چہرے

38

آپ میں سے جو لوگ ملک سے باہر گئے ہیں انہوں نے یہ بات محسوس کی ہو گی کہ وہاں لوگوں کے چہروں پر رونق اَور تازگی ہے۔ لوگ بنیادی طور پر خوش ہیں۔ اِس میں اِس بات کی تخصیص نہیں ہے کہ وہ ملک اِسلامی ہے یا غیر اِسلامی۔ ہوائی جہاز سے باہر نکلتے ہی آپ یہ بات محسوس کرنے لگتے ہیں کہ لوگ تیزتیز کام کررہے ہیں، آپ سے خوش اخلاقی سے پیش آرہے ہیں، ہر چیز، ہر کام ایک نظام یا سسٹم کے تحت چل رہا ہے۔ ہوائی اڈّے سے باہر نکل کر آپ دیکھتے ہیں کہ لوگ صرف خوش حال نہیں ہیں بلکہ حقیقت میں خوش ہیں۔ وہاں جگہ جگہ لڑائی جھگڑے نہیں ہوتے۔ لوگ ایک دوسرے سے تمیز سے بات کرتے ہیں۔ ہر طرف ایک بے ہنگم شور برپا نہیں ہے۔ لوگ اَپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ آپ کو خواہ مخواہ میں نہیں گھورتے۔ اگر آپ خاتون ہیں تو آپ یہ ضرور محسوس کریں گی کہ پاکستان کے مقابلے میں یہاں خواتین کو گھورنا تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔

یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کس چیز نے ہم سے ہماری خوشی چھین لی ہے۔ ہم ویسے کیوں ہیں جیسے کہ اَب نظر آتے ہیں۔ اِس کا جواب آپ کو اس دعا میں مل جائے گا جو حضرت اِبراہیم علیہ السلام نے مانگی تھی اَور وہ قرآنِ حکیم کی سورۃ اِبراہیم میں مذکور ہے۔ آیت کا ترجمہ ہے: اَور (یاد کرو) جب اِبراہیم نے دعا کی’’اَے میرے رَبّ! اِس شہر کو اَمن والا بنا دے اَور مجھے اَور میری اَولاد کو اِس سے بچا کہ ہم بت پرستی کرنے لگیں۔‘‘(آیت 35)۔ گویا جو چیز حضرت اِبراہیم علیہ السلام کے نزدِیک سب سے زیادہ اَہم ہے وہ اَمن ہے۔ یہ اَمن ہوتو باقی کے کام ٹھیک ہوتے ہیں۔ اَمن سے مراد صرف جانی خطرے سے نجات نہیں ہے۔ مالی سکون، عزت، عدل، ترقی کرنے کے مساوی مواقع، تعلیم حاصل کرنے کے بہترین مواقع وغیرہ سب اِس میں شامل ہیں۔ اِن میں سے ایک بھی نہ ہوتو ملک میں بے چینی پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہے اَور بے چینی کا اَنجام بداَمنی ہے۔ یہی بے چینی ہمارے چہروں سے اِطمینان، خوشی، رونق اَور تازگی چھین لیتی ہے۔

اَب آپ پاکستان کے حالات پر غور کریں۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ یہاں جو چیز تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے وہ اَمن ہی ہے۔ ہمارا دِین جس چیز کو سب سے زیادہ اَہمیت دے رہا ہے وہی ہمارے یہاں غائب ہے۔ جب جان، مال، عزت، اِطمینان سلامت نہ ہو تو مساجد میں ہونے والی اذانیں، باجماعت نمازیں اَور درود و سلام کی محفلیں کسی طرح لوگوں کو خوشی نہیں دے سکتیں۔ چنانچہ آپ دیکھیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اَور خلفائے راشدین نے جس چیز کو سب سے زیادہ اَہمیت دی وہ اَمن ہی تھا۔ جب اِس اَمن میں دراڑیں آئیں، تب امت میں بے چینی، بیقراری، اِنتشاراَور نتیجتاً غم پھیل گئے۔ سورۃ قریش میں اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کے قریش قبیلے پر اَپنا اِحسان جتلایا ہے کہ اس نے ان کو بھوک میں کھلایا اَور خوف سے اَمن عطاء فرمایا۔ گویا اَمن ان پر اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا اِحسان ہے۔

آپ دیکھیں گے کہ پاکستانی نوجوان اِس خواہش یا کوشش میں ہے کہ وہ اِس ملک سے نکل جائے۔ وہ کسی اَیسی جگہ جانا چاہتا ہے جہاں اسے اَمن حاصل ہو۔ روز روز کی مصیبتوں سے اسے چھٹکارا مل جائے۔ وہ معاشی طور پر ترقی کرسکے۔ اچھی تعلیم کے دروازے اس کے لیے بند نہ ہوں۔ اگر اس میں کوئی صلاحیت ہے تو آگے بڑھنے کے لیے اسے سفارِش کی ضرورت نہ ہو۔ نظام خودبخود اس کی صلاحیت سے فائدہ اٹھائے۔ چنانچہ وہ دوسرے ملکوں کی جانب دیکھتاہے۔ جن اِسلامی ممالک میں جان و مال کا تحفظ موجود ہے وہاں مساوی مواقع نہیں ہیں۔ وہاں اَپنے شہریوں کو فوقیت دی جاتی ہے۔ پاکستانی نوجوان اگر اس اِسلامی ملک میں بیس سال بھی نوکری کرتا رہے تو اسے شہریت نہیں ملے گی۔ اگر شہریت مل بھی جائے تو بھی اسے دوسرے درجے کا شہری سمجھا جائے گا کیونکہ وہ اس نسل سے تعلق نہیں رکھتا۔ اِس کے مقابلے میں یورپ، امریکہ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا وغیرہ میں جانے والا پاکستانی نوجوان نہ صرف شہریت حاصل کرلیتا ہے بلکہ اسے ہرجگہ برابر کے مواقع ملتے ہیں۔ برطانیہ جیسے متعصب ملک میں بھی اب ایک بھارتی نژاد شخص وزیراعظم ہے۔ امریکہ میں حبشی نسل سے تعلق رکھنے والا صدر اَور چیف آف آرمی اسٹاف رہ چکے ہیں۔ اِسلامی ممالک میں اِس چیز کا کوئی تصور نہیں ہے۔

اگر ایک شخص بھوکا ہو، اس کے تن پر کپڑے نہ ہوں، اس کے لیے رہنے کو چھت نہ ہو تو اسے کلمہ نہیں پڑھایا جاسکتا۔ اسے نماز میں سکون حاصل کرنے کی ترغیب دینا عبث ہے۔ پہلے اسے کھانا کھلائیں، اس کے روزگار کا بندوبست کریں پھر اسے دِین کی تبلیغ کریں۔ ہم نے الٹا راستہ چن لیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ لوگ زبردستی سختی سہیں، عذاب میں زندگی بسر کریں لیکن اَمن والی جگہ کے خواب نہ دیکھیں۔ اگر ہم واقعی لوگوں کو اَپنے ملک میں رکھنا چاہتے ہیں اَور ہمارا خیال ہے کہ یورپ اَور امریکہ جاکر وہ گمراہ ہوجائیں گے تو ضروری ہے کہ پہلے اَپنے ملک کے حالات درست کریں۔ جب تک یہ نہیں ہوگا ان ممالک کو گالیاں نکالنے، ان کے یہاں موجود بے حیائی کا ڈھنڈورا پیٹنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ لوگ پھر بھی یہاں سے نکلتے رہیں گے اَور وہیں جاکر رہیں گے جہاں اَمن ہو۔

پاکستان کو اِسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے۔ لیکن اِس قلعے کا حال یہ ہے کہ یہاںموجود ہر شخص بے چین اَور ناخوش ہے۔ یہاں عدل نام کی چیز ملنا ایک خواب بن گیا ہے۔ ہر طرف رِشوت، سفارِش اَور اقرباء پروری کا رواج ہے۔ اِدارے اِسی لیے تیزی سے تباہی کی طرف جارہے ہیں۔ نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بھی بیروزگار ہیں۔ ان کی تعلیم کا معیار یہ ہے کہ جب وہ کسی اَیسے اِمتحان میں بیٹھتے ہیں جہاں سخت مقابلہ ہو تو اْن میں سے زیادہ تر مقابلہ نہیں کرپاتے کیونکہ وہ ہر مضمون میں کمزور ہیں۔ میٹرک اَور اِنٹرمیڈیٹ کے اِمتحانوںمیں لوگوں کے سو فیصد نمبر آنے لگے ہیں اَور اگر آپ ان سے ایک صفحہ اردو یا انگریزی میں لکھنے کے لیے کہہ دیں تو وہ چیز لکھ کر لائیں گے کہ اْسے پڑھ کر صرف سر پیٹا جاسکتا ہے۔ یہی حال دِیگر مضامین کا بھی ہے۔ یہاں جان و مال کے تحفظ کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ خالص چیز ملنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ بجلی، پانی، گیس کے آنے اَور آتے رہنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ اَیسے قلعے کی دِیواریں نہایت کمزور ہوتی ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں لوگوں کے چہرے افسردہ، پریشان، بے چین اَور غم زدہ ہیں۔ نفسیاتی بیماریاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ قتل و غارت گری عام ہے۔ آپ اپنی کوئی چیز رکھ کر دوسری طرف دیکھیں تو کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ جب واپس مڑیں گے تو آپ کی چیز موجود ہوگی۔ چوری چکاری دِن دہاڑے ہوتی ہے۔ ڈاکے روزانہ کی بنیاد پر ڈالے جاتے ہیں۔ فراڈ کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔ آپ کسی اجنبی کو کار یا موٹر سائیکل پر لفٹ نہیں دے سکتے۔ اِن حالات میں کون یہ مانے گا کہ ہمارا ملک اِسلام کا قلعہ ہے؟ اِسے اِسلام کا قلعہ کہنا دراصل اِسلام کی توہین ہے۔ اِسلام جیسا خوبصورت اَور اَمن کا دِین اَیسے ملک پیدا نہیں کرتا۔ اَیسے لوگ بھی پیدا نہیں کرتا جن کے چہرے بجھے ہوئے ہوں۔ جن سے زندگی کی ہر رونق، ہر امید چھین لی گئی ہو۔ ہر طرف ایک ہاہاکار مچی ہو۔ لوگ چھیننے جھپٹنے پر لگے ہوں کیونکہ وہ جانتے ہوں کہ سیدھے طریقے سے ہمیں ہمارا حق نہیں ملے گا۔

تبصرے بند ہیں.