ابنِ مریم ہوا کرے کوئی

64

حضرت آدمؑ کے زمین پر نزول کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے زمین پر انسانیت کی رہنمائی کے لیے انبیاء کرامؑ کے سلسلے کا آغاز فرمایا۔ انبیاء اور رسول تشریف لاتے رہے اور آسمانی ہدایت کے نور سے بنی نوع انسان کو ہدایت و رہنمائی فراہم کرتے رہے۔ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کے بعد سلسلہ نبوت کا اختتام ذاتِ محمدﷺ پر ہوا، جس کے ساتھ ہی آسمانی ہدایت کے سلسلے کا بھی اختتام آخری کتاب قرآن کریم پر ہوا۔ ربِ دو جہاں نے ہر نبی کو اس کے زمانے کے حالات و مشاہدات کے مطابق معجزات عطا فرمائے تاکہ ان کی صداقت، فضیلت اور برتری نمایاں رہے۔ اسی طرح، اللہ رب العزت نے حضرت عیسیٰ ابنِ مریمؑ کو بھی معجزے اور فضیلتیں عطا فرمائیں جیسے ان کا والد کے بغیر پیدا ہونا، آغوشِ مادر میں کلام کر کے اپنی والدہ کی پاکیزگی اور صداقت کی گواہی دینا، مٹی کا پرندہ بناتے اور اس پر پھونک مارتے، تو وہ اللہ کے حکم سے زندہ ہو جاتا، نابینا کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتے تو اس کی بینائی ایسے آ جاتی جیسے کبھی نابینا نہ ہوا ہو۔ برص، جذام اور کوڑھ کے مریضوں کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب کرتے، مردوں کو زندہ کر دیتے۔ ان معجزات کی وجہ سے بھی بہت سے لوگ آپؑ کی شخصیت کے بارے میں تذبذب کا شکار ہوئے اور انہوں نے حضرت عیسیٰؑ  کی شخصیت کے حوالے سے غلو کا راستہ اختیار کیا۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اے اہلِ کتاب حد سے تجاوز مت کرو اپنے دین میں اور مت کہو اللہ کے بارے میں سوائے حق، حقیقت میں عیسیٰ ابن مریم اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ (بشارت) تھے ڈال دیا اسے مریم کی طرف اور اس کی طرف سے روح تھے تو ایمان لائو اللہ پر اور اللہ کے رسولوں (پر) اور مت کہو (کہ الہٰ) تین ہیں باز آ جائو (اس اعتقاد سے) بہتر ہو گا تمہارے لیے حقیت میں اللہ اکیلا معبود ہے پاک ہے وہ (اس بات سے) کہ ہو اس کی اولاد‘‘۔
جب بنی اسرائیل صراطِ مستقیم سے ہٹ گئے اور اس کی تعلیمات سے دور ہو گئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز اور انحراف کیا اور ظلم و ستم کرنے لگے اور زمین میں فساد برپا کر نے لگے اور ان میں سے ایک گروہ نے حشر و نشر، روزِ قیامت اور حساب و کتاب سے انکار کر دیا، دنیاوی لذتوں میں ڈوب کر حساب و کتاب اور جزا و سزا کو بھول گئے تو پھر اس وقت اللہ سبحانہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کو اپنا رسول بنا کر مبعوث کیا۔ حضرت عیسیٰ ابنِ مریمؑ کو تورات سکھائی گئی اور آپؑ پر انجیل نازل فرمائی گئی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور ہم نے ان پیغمبروں کے بعد عیسیٰ ابنِ مریمؑ کو اپنے سے پہلی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والا بنا کر بھیجا اور ہم نے انجیل عطا کی۔ جس میں نور اور ہدایت تھی، اور وہ اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والی اور متقی اور پرہیزگار لوگوں کے لیے سراسر ہدایت و نصیحت تھی‘‘۔(سورۃ المائدہ 46)۔ حضرت عیسیٰؑ بنی اسرائیل میں معبوث ہونے والے آخری نبی تھے۔ آپؑ نے اپنی قوم کو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی آمد کی خوشخبری سنائی۔ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اور جب عیسیٰ ابنِ مریمؑ نے کہا ’اے بنی اسرائیل! میں تمہارے پاس اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں میں اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور میں اپنے بعد آنے والے ایک پیغمبر کی جو میرے بعد آئیں گے خوشخبری دینے والا ہوں، جن کا نام احمد ہو گا‘‘ (سورۃ الصف 6)۔ عیسیٰؑ نے بنو اسرائیل کو اللہ لاشریک کی عبادت اور تورات و انجیل کے احکام پر عمل کرنے کی دعوت کا فریضہ انجام دیا اور ان سے اچھے طریقے کے ساتھ جدال کیا، ان کے مسلک کا فساد بیان کیا، لیکن جب انہوں نے بنو اسرائیل کا فساد اورکفر و عناد دیکھا تو یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف میری مدد کون کرے گا؟ تو بارہ حواری ایمان لے آئے۔ جب بنی اسرائیل نے دیکھا کے غریب، فقراء اور کمزور لوگ عیسیٰؑ پر ایمان لانے اور ان کے گرد جمع ہونے لگے ہیں تو آپؑ کے خلاف اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے لگے تا کہ عیسیٰ ؑ کو قتل کر دیں تو رومانیوںکو آپؑ کے خلاف اس بات پر اکسایا کہ عیسیٰ ابنِ مریم کی دعوت ِ دین سے رومانی حاکم کی حکومت کو خطرہ لاحق ہے تو حاکمِ وقت نے ان کے جھانسے میں آ کر عیسیٰؑ کو گرفتار کر کے سولی پر چڑھانے کا حکم جاری کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک منافق جس نے آپؑ کی چغلی کی تھی پر عیسیٰؑ کی مشاہبت ڈال دی تو فوج نے اسے ہی پکڑ لیا اور سولی پر لٹکا دیا۔ ان کے بعد تقریباً چھ سو سال تک کوئی نبی نہیں آیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سرکارِ دو عالمﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا اور ان پر آخری آسمانی کتاب نازل فرمائی۔ حضرت عیسیٰؑ پر جب انجیل نازل ہوئی تو آپ کی عمر تیس سال تھی اور نبوت کے تیس سال بعد اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو آسمان پر اٹھا لیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ کو یہود و نصاریٰ کی پھانسی سے بچا کر زندہ سلامت آسمانوں پر اٹھایا آپ قیامت کے قریب دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے اور لوگوں سے کلام کریں گے، جس کا اشارہ سورۂ آلِ عمران میں ہے کہ ’ماں کی گود میں بھی اور ادھیڑ عمرمیں بھی کلام کریں گے‘ جب آپؑ کو دنیا میں واپس بھیجا جائے گا تو آپؑ امتِ محمدیہ کی قیادت کے لیے بہ حیثیت خلیفۃ الرسول اور امتی تشریف لائیں گے۔ آپؑ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں گے، دجال اور خنزیر کو قتل کریں گے، صلیب کو توڑ ڈالیں گے، روئے زمین میں امن اور برکت ہو گی اور دنیا میں صرف دینِ اسلام رہ جائے گا۔ احادیث مبارکہ میں حضرت عیسیٰؑ کی قربِ قیامت دمشق کی جامع مسجد کے شرقی مینار پر نزول کا ذکر ہے اور آپ کے ہاتھوں دجال کے قتل اور آپؑ کے کارہائے نمایاں کی خبر بھی دی گئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ (قدرت) میں میری جان ہے! وہ وقت ضرور آئے گا کہ جب (اے امتِ محمدیہ !) تم میں ابنِ مریمؑ ایک عادل حکمران کی حیثیت سے نازل ہو کر صلیب توڑ (کر اس کی تعظیم کے نصرانی عقیدہ کو باطل قرار دے) دیں گے۔ خنزیر کو قتل کریں گے (یعنی اسے تلف کر کے اس کی حرمت کے احکام نافذ کریں گے) اور (بطورِ احسان غیر مسلم شہریوں سے) ریاستی حفاظت کا ٹیکس (جو عسکری خدمات سے استثنا کی صورت میں وصول کیا جاتا ہے) معاف کر دیں گے۔ اس وقت مال و دولت کی ایسی فراوانی ہو گی کہ اسے کوئی قبول نہ کرے گا اور (لوگ ایسے عبادت گزار ہو جائیں گے کہ ان کے نزدیک) ایک سجدہ دنیا و مافیا سے بہتر ہو گا۔ احادیث کی روشنی سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسیٰ ابنِ مریمؑ ایک عادل حکمران اور منصف امام کی حیثیت سے ضرور تشریف لائیں گے۔

تبصرے بند ہیں.