انجام تو واضح ہے

36

گھر کا دروازہ کھٹکے تو خیال آتا ہے کوئی ملنے آیا ہے کوئی سائل ہے۔ پاکستان کے دروازے پر دستک ہو تو یقین ہوتا ہے کوئی بحران آیا ہے۔ ایک طرف اسے مختلف سرحدوں پر تخریب کاری کا سامنا ہے تو دوسری طرف ملک کے اندر بیٹھے تخریب کار دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ کہیں یہ کھیل آزادی تحریر و تقریر کے پر دے میں ہے تو کہیں ملک کے عظیم تر مفاد میں۔ دشمنوں کا ہدف پاک چین تعلقات ہیں۔ گذشتہ حکومت کے دور میں تیس ہزار افراد کو افغانستان سے لا کر صوبہ خیبر میں بسایا گیا۔ کہانی یہ گھڑی گئی کہ یہ ہمارے لوگ ہیں، ناراض ہو کر سرحد پار کر گئے تھے۔ سرکار کے کاغذوں میں یہ تخریب کار تھے، تخریبی کارروائیوں میں ملوث تھے انکے خلاف ثبوت موجود تھے انکے خلاف آپریشن شروع ہوا تو فرار ہو گئے۔ انہیں ایک شخص کی خواہش پر واپس لایا گیا، اب پوری قوم اسے بھگت رہی ہے۔ آئے دن وہ کوئی نہ کوئی واردات کرتے ہیں اور روپوش ہو جاتے میں۔ ان کے سہولت کار بھی یہیں موجود ہیں۔ ایک جیسی شکل، ایک جیسا لباس اور ایک زبان کے پردے میں یہ پاکستان کا کھاتے ہیں اور اس پر غراتے ہیں، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر کلپ دستیاب ہیں۔ انہیں اپنا کہنے والا جو نصف سے زائد عمر برطانیہ میں گزار کر آیا تھا اور کہتا تھا وہ یورپ کو یورپ سے زیادہ جانتا ہے، صوبہ خیبر میں اپنی انتخابی مہم کیلئے نکلا تو دانستہ پندرہ روز کی شیو بڑھا رکھی تھی، سر پر وہ وگ پہن رکھی تھی جس میں پٹے شانوں کو چھو رہے تھے اور خاص طور پر وہ ٹوپی پہن کر ملاقاتیں کی گئیں جو طالبان پہنتے ہیں پہنانے والے تو اسے پگڑی بھی پہن کر گھومنے کا مشورہ دے رہے تھے لیکن اسے خیال آیا یوں بھانڈا جلد پھوٹ جائے گا۔ ایک طرف تخریب کار اپنی کارروائیوں میں مصروف تھے دوسری طرف یہ شخص راگ الاپ رہا تھا کہ یہ ہمارے اپنے لوگ ہیں ان سے بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔ وقت نے ثابت کیا کہ ناراض ہونے والے گھر چھوڑ کر دشمن ملک میں پناہ نہیں لیتے پھر اسکے ایما پر اپنے ہی گھر کو آگ نہیں لگاتے اور جو ایسا کرتے ہیں وہ اپنے نہیں ہوتے صرف اور صرف تخریب کار ہوتے ہیں وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہوتے وہ بندوق کی زبان سمجھتے ہیں انکا علاج صرف گولی ہے اور کچھ نہیں۔ بلوچستان کے معاملے میں ہتھیار ڈالنے والوں کے ساتھ پیار محبت کی پالیسی اور انہیں نقد رقوم دینے کا خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا، اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس پالیسی کو اب وزیرستان اور دیگر سرحدی علاقوں میں دوہرانے کی ضرورت نہیں، دنیا کے کسی ملک کے بسنے والے بلا سفری دستاویزات پاسپورٹ کسی غیر ملک نہیں جا سکتے۔ ہم نے افغانوں کو ستر برس تک یہ سہولت دیئے رکھی اسکا نا جائز فائدہ اٹھایا گیا۔ ہم نے پچاس لاکھ انسانوں کو چالیس برس تک مہمان بنائے رکھاانہیں وہ تمام سہولتیں دیں جو عام پاکستانی کو حاصل ہوتی ہیں۔ وہ کراچی سے خیبر تک آزادانہ آتے جاتے کاروبار کرتے رہے پھر جرائم میں ملوث ہو گئے، حکومت نے آنکھیں موندے رکھیں۔ اب وہ ہر غلط کام کو اپنا حق سمجھنے لگے ہیں۔ انہیں اسلحہ سرحد پار سے ہمارا دشمن نمبر ایک ملک سپلائی کرتا ہے۔ صرف اس پر بس نہیں بلکہ تخریب کاروں کو مالی امداد بھی مہیا کرتا ہے، اس دشمن ملک کیساتھ سرحد کھولنے اور تعلقات بڑھانے کے ایجنڈے پر نہایت تیز رفتاری سے کام ہو رہا ہے جو ہمارے مسائل میں اضافہ کرے گا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے بعد اب تیسرا بارڈر کھولنا دانشمندی کا فیصلہ نہ ہو گا۔ امریکہ اور یورپ ہم پر اس حوالے سے دباؤ ڈال رہے ہیں لیکن ہمیں خود یہ فیصلہ کرنا ہے جدھر سے ہمیشہ تیروں کی برسات ہوتی ہے وہ ہمارے دوست کیسے ہو سکتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ بارڈر کھولنا اور تجارت شروع کرنا کبھی ہمارے مفاد میں نہیں رہا۔ بھارتی کرنسی ہمارے مقابلے میںطاقتور ہے وہاں کا سستا مال خرید کر پاکستان میں مہنگا بیچ کر کاروباری گھرانوں کو تو فائدہ ہو گا عام پاکستانی کو نہیں ہو گا کیونکہ وہاں سے ہر وہ چیز منگوائی جائے گی جو پاکستان خود تیار کرتا ہے یوں زرمبادلہ کے زخائر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بھارت پرواز کرنا شروع کر جائیں گے، ہماری بھارت نواز پالیسی اسکی راہ ہموار کرے گی۔ ہماری تجارتی پالیسی میں سائیکل، موٹر سائیکل یا چھوٹی گاڑی بھارت سے نہیں منگوائی جائیگی۔ ہمارے مقدر میں اس کاروبار سے منسلک مافیا نے دس ہزار روپے کی سائیکل سوا لاکھ روپے کی موٹر سائیکل اور پچیس لاکھ روپے کی چھوٹی ترین گاڑی لکھ دی ہے جس میں جست کی چادر کے بجائے ری سائیکل شدہ ٹین ڈبہ استعمال ہوتا ہے، اسکا کوئی معیار نہیں، البتہ لوٹ مار خوب ہے۔ بھارت میں آج بہترین کوالٹی کا سائیکل دو ہزار روپے، موٹر سائیکل تیس ہزار روپے اور چھوٹی گاڑی چھ لاکھ روپے میں دستیاب ہے۔ جاپان کے ہاتھوں لٹنے میں مافیا کا فائدہ ہے۔ پاکستان کے زرعی سائنسدانوں نے وطن کی مٹی کا حق ادا کر دیا گندم کا بہترین بیج تیار کر دیا۔کسان نے مہنگی ترین اور بلیک میں ملنے والی کھاد بہ امر مجبوری خرید کر اس مرتبہ گندم کی بہترین فصل دے دی ہے یہ بھر پور فصل اب حکومت پاکستان سے سنبھالی نہ جائیگی۔ پنجاب میں پیدا ہونیوالی گندم دو کروڑ نوے لاکھ ٹن کے قریب ہے، ابھی تک صرف پندرہ سے بیس لاکھ ٹن کی خریداری کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ انتظامات کا یہی عالم رہا تو گندم مافیا ہاتھ رنگنے کیلئے تیار بیٹھا ہے، بھارت کے ساتھ بارڈر کھلنے کی دیر ہے نصف سے زائد گندم بھارت سمگل ہو جائیگی۔ اس سے بہتر ہو گا کہ حکومت خریداری کے بروقت انتظامات کرے، اپنی ضرورت کے مطابق گندم محفوظ کرے اورزائد گندم افغانستان ایکسپورٹ کر دے جہاں اسے مناسب قیمت مل سکتی ہے کیونکہ افغانستان کے پاس اس وقت زر مبادلہ موجود ہے، اسے دنیا سے امداد بھی مل رہی ہے، اسکی کرنسی پاکستانی کرنسی کی نسبت زیادہ مضبوط ہو چکی ہے۔ اگر ہم نے سمگلنگ پر قابو نہ پایا، اس کڑے وقت میں بھارتی بارڈر کھول دیا تو مالی نقصان کے ساتھ ساتھ تخریب کاروں کی آمد کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ بھارت نے آج تک جو بھی گھناؤنا کھیل کھیلا وہ تجارت ٹورازم اور کرکٹ و ثقافتی وفود کے تبادلوں کی آڑ میں کھیلا۔ ہمارے عقل سے عاری فیصلہ ساز ہمیں ہر مرتبہ میچ ہار کر دل جیتنے کا مشورہ دیتے رہے وہ خود اور انکے اہل خاندان مال بناتے رہے اور سیر سپاٹے کرتے رہے۔ سرحدوں پر خلفشار بڑھ رہا ہے جبکہ ملک کے اندر سیاسی خلفشار بھی قابو میں نہیں آ رہا جنہیں ہر پاکستانی کی شکایت سننا اور اسکا مداوا کرنا ہے وہ آج اپنی شکایات کا پلندہ لیکر بیٹھ گئے ہیں، اس معاملے کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔چینی انجینئر کے قافلے پر دہشت گردوں کے حملے کے حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ انکی سکیورٹی کے انتظامات فول پروف تھے، کیا فول پروف انتظامات میں بھی حملہ آور گھس آتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن بعد از عید اپنی احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کر چکے ہیں، انہیں فول پروف سکیورٹی میسر نہیں ہو گی اگر ہوئی بھی تو فول پروف سکیورٹی انتظامات اور ان کا انجام متعدد مرتبہ سامنے آ چکا ہے۔ سرحدیں بند کرنے سے دہشت گردی بند ہو گی سرحدیں کھولنے سے نہیں، چومکھی لڑائی شروع ہو چکی ہے انجام واضح ہے۔

تبصرے بند ہیں.