’’اکھاں جدوں میٹیاں زمانہ مینوں روئے گا ‘‘

81

دنیا سے جانے والے چلے جاتے ہیں اور جب تک وہ اپنے وجود میں زندہ رہتے ہیں، ان کے کئے کام ہماری آنے والی زندگیوں کے ساتھ جڑ جاتے ہیں اور ان کے چلے جانے کے بعد اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ کیا ایسے انسان بھی مر جاتے ہیں جن کو شہریار خان کہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ اور کرکٹ کنٹرول بورڈ کے سابق چیئرمین شہریار خان 89 برس کی عمر میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ نواب گھرانے سے تعلق رکھنے والے اس خوبصورت انسان نے اپنی زندگی کی تمام بہاریں بڑی خوبصورت گزاریں اور جن شعبہ جات کے ساتھ ان کی زندگی منسلک رہی وہ آج بھی ان کے کئے کاموں کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ میرے نزدیک وہ کیا شخص تھا، وہ کیا روح تھی، وہ کتنا کھرا انسان تھا اور وہ کتنا بڑا بیوروکریٹ تھا؟ وزارت خارجہ ہو یا کرکٹ کے امور، انہوں نے ہمیشہ دوٹوک نظریئے کے تحت خود کو ہمیشہ منوایا اور وہ کام کیا جوکہ پاکستان کے مفاد میں تھا۔ 2017ء میں وہ باقاعدہ 3 سال کے لئے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے۔ اس کے ساتھ وہ ایشین کرکٹ کونسل کے سربراہ بھی رہے۔

میرا بحیثیت صحافی ان سے پہلا واسطہ 1999ء میں پڑا جب وہ کرکٹ کنٹرول بورڈ کے چیئرمین بنے۔ ایک دن میں نے ان سے قذافی سٹیڈیم کی گرائونڈ میں انٹرویو کی درخواست کی تو انہوں نے بلا جھجک کہا ’’آ جائیں اوپر کمرے میں بیٹھتے ہیں‘‘ (یعنی چیئرمین کے کمرے میں) اچانک یہ جواب میرے لئے بہت حیران کن تھا کہ اکثر بڑے عہدیداران سے جب ہم انٹرویو کی بات کرتے ہیں تو کئی مصروفیات کے بہانے ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے ’’ابھی میں مصروف ہوں، پھر کبھی ملتے ہیں۔‘‘ لیکن شہریار خان نے جس شائستگی کے ساتھ مجھے جواب دیا تو یوں لگا کہ ایسے انسان بہت کم ہوتے ہیں جو انکساری اور عاجزی کے ساتھ مصروفیات کا بہانہ نہیں کرتے۔ حالانکہ یہ میری ان کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ شہریار خان کے اندر سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کسی بھی جھوٹ کا سہارا لئے بغیر ہر بات صاف طور منہ پر کہہ دیتے تھے لہٰذا ان کے ساتھ آفس گیا اور بیٹھتے ہی جب میں نے ان سے پہلا سوال کیا کہ آپ نے کرکٹ تو کبھی کھیلی نہیں اور بحیثیت چیئرمین کرکٹ بورڈ کے معاملات کو کس طرح چلائیں گے۔ تو وہ بولے کہ آپ کو کس نے خبر دے دی کہ میں نے کرکٹ نہیں کھیلی۔ ہندوستان میں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل کر آیا ہوں یہ میں آزادی سے پہلے کی بات بتا رہا ہوں۔ نواب پٹودی کو آپ جانتے ہیں… یقینا جانتے ہوں گے۔ وہ میرے فرسٹ کزن ہیں، ان کے ساتھ بہت کرکٹ کھیلی۔ پھر انہوں نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں کرکٹ کے امور کو نہ صرف سمجھتا ہوں بلکہ میرے نزدیک کسی چیز کو سمجھنے سے پہلے آپ کا جو تجربہ ہے وہ آپ کو بہت سے معاملات میں بہتری کے راستے خود ہی دکھا دیتا ہے لہٰذا میری کوشش ہوگی کہ میں پاکستان کی کرکٹ کے معاملات سے لے کر میدان میں کرکٹ ٹیم کو کھلانے تک کسی کو مایوس نہیں کروں گا۔ میں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ شہریار خان حافظ قرآن بھی تھے۔ گو انہوں نے بھارتی کرکٹ بورڈ کے سابق کپتان نواب پٹودی کے ساتھ بھارت میں کرکٹ کھیلی لہٰذا کیونکہ ڑی کرکٹ میں آنے سے پہلے وہ پاکستان کی بیوروکریسی کو جوائن کر چکے تھے پھر انہوں نے کرکٹ کی طرف بھرپور توجہ نہ دی۔ یہاں پڑھنے والوں کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ وہ پائلٹ بھی تھے، یہ شوق انہوں نے صرف اپنی ذات کے لئے پالا تھا۔ اس کے علاوہ جب فرصت ملتی تو شکار پر بھی چلے جاتے۔ ان کے رفقاء کار کہتے تھے کہ وہ بہترین شکاری تھے اور ان کا نشانہ کبھی ضائع نہیں گیا۔

شہریار خان کی مزید تاریخ کو پڑھتا ہوں تو وہاں ریاست کوروائی کے نواب محمد سرور علی خان کے فرزند اور ریاست بھوپال کے نواب حمید اللہ کے نواسے جبکہ نواب منصور علی خان پٹودی ان کے فرسٹ کزن بھی تھے۔

شہریار خان کے بارے میں، میں نے بہت لکھا، ان کے انٹرویوز کئے۔ میں نے ان کی زندگی کے حوالے سے جو بات سب سے زیادہ محسوس کی کہ وہ کبھی کسی کو مایوس نہیں کرتے تھے۔ جب بھی کسی نے ملاقات کے لئے وقت مانگا انہوں نے نہ صرف وقت دیا بلکہ دوران گفتگو وہ ہمیشہ ایک بات کہا کرتے تھے کہ میری کوشش ہوتی ہے کہ مجھ سے کوئی ناراض نہ ہو جائے۔ گو میڈیا میرے بارے میں ادھر ادھر کی ہانکتا رہتا ہے لیکن مجھے وہ کرنا ہے جو کھیل کی ڈیمانڈ ہے۔ میں سیکنڈلائز نہیں ہوتا نہ مجھے ایسی چیزوں کی طرف توجہ دینا ہوتی ہے کہ کون میرے بارے کیا لکھ رہا ہے۔

اور آخری بات…

شہریار کون تھے، ان کی زندگی کے بارے میں ایک اہم واقعہ درج ذیل ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہو گا کہ وہ کتنا بڑا انسان تھا کہ وہ کیوں پاکستان آیا تھا۔

اپنی والدہ کے ساتھ سنہ 1948 میں انڈیا کی ریاست بھوپال کی وارث نے بانی پاکستان محمد علی جناحؒ کو آگاہ کیا کہ وہ اپنے تخت کی طرف لوٹنے کے بجائے پاکستان آنا چاہتی ہیں۔ جناحؒ یہ سُن کر پھولے نہ سمائے اور کہا ’’آخرکار! اب ہمارے پاس مسز پنڈت کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی تو ہو گا۔‘‘ مسز پنڈت جواہر لعل نہرو کی بہن تھیں اور اس وقت اقوامِ متحدہ میں انڈیا کی نمائندگی کر رہی تھیں۔ یہ شخصیت شہزادی گوہر تاج، بیا حضور عابدہ سلطان تھیں۔ اُن کے اکلوتے فرزند شہریار محمد خان کی یاد کے مطابق جب ان کی والدہ پاکستانی سفارتخانے سے اپنا پاسپورٹ لینے پہنچیں تو انہیں خبر ملی کہ جناحؒ کی وفات ہو گئی ہے۔ اس سے خاصی تاخیر پیدا ہوئی اور آخر میں وہ محض دو سوٹ کیسوں کے ساتھ پاکستان آ گئیں تو ہندوستان کی دو ریاستوں کی وارث اور شاہی خاندانوں میں پلی بڑھی اس شہزادی نے پاکستان کی خاطر اپنی یہ وراثت چھوڑ کر کراچی آ گئیں۔

تبصرے بند ہیں.