غم کا عارضی منظر

33

اہلِ غزہ پر سلگتے ضمیر نے دنیا بھر میں تمام ’زندہ‘، حساس انسانوں کو تڑپایا۔ بے قرار ہوکر آواز اٹھانے کو طرح طرح کے طریقے آزمائے گئے۔ مقصد ایک ہی تھا کہ گونگی بہری اندھی عفریت اسرائیل اور اسے جنم دے کر غزہ میں قتلِ عام کی پشت پناہی کرنے والے امریکا کو متوجہ کیا جاسکے۔ اس پر دباؤ ڈالا جاسکے تاکہ معصوم عورتوں بچوں اور بے گناہ انسانوں کے لیے امن اور تحفظ ممکن بنایا جائے۔ پانچ ماہ، ہر حربہ آزمایا گیا۔ اب تازہ ترین ردعمل امریکی ایئرفورس کے حاضر سروس افسر 25سالہ ایرون بشنیل کا تھا۔ واشنگٹن ڈی سی میں اسرائیلی سفارتخانے کے سامنے سوشل میڈیا پر براہِ راست بات کرتے ہوئے ایرون نے غزہ پر اسرائیل کی طرف سے تباہ کن جنگ مسلط کرنے پر شدید دکھ کا اظہار کیا۔ اس نے کہا کہ میں اس جنگ میں ہونے والے قتلِ عام کا حصہ نہیں بنوں گا۔ جو میں کرنے چلا ہوں فلسطینی جو کچھ برداشت کر رہے ہیں یہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ یہ کہہ کر اس نے خود پر آتش گیر مادہ چھڑکا اور اسے آگ لگا دی۔ اونچے شعلوں میں گھرا ’فلسطین کو آزاد کرو‘ Free Free Palestine کا عالمی نعرہ لگاتے لگاتے گر گیا۔ فوری ہسپتال پہنچایا گیا مگر انتقال کرگیا۔ وہ یونیفارم میں تھا۔ غلط پالیسی پر احتجاج میں امریکی وردی بھی جلا ڈالی! امریکی میڈیا دم سادھے رہا مگر سوشل میڈیااور دنیابھر نے بھرپور خراج تحسین پیش کیا! جوانی، ایئرفورس کا شاندار کیریئر، امنگیں، آرزوئیں ایک اجنبی مظلوم قوم کی خاطر اپنی جان تک داؤ پر لگا دینا پوری ا مت کی سردمہری، بے حسی کے خلاف بھاری گواہی، اور دلیل ہے۔ اگرچہ امریکی حکومت یا اسرائیل کے کان پر جوں تک نہ رینگے گی۔ نہ ہی مسلم دنیا کے بے حس حکمران کوئی اثر قبول کریں گے مگر یہ تاریخ میں ثبت رہے گا۔اللہ ایسے ہر باضمیر انسان کو ایمان کی دولت سے نوازے (آمین)۔ اسی دوران نیویارک کی خون جما دینے والی سردی میں ہزاروں مظاہرین، اسرائیل نواز، (امریکن اسرائیل پبلک افیرز کمیٹی) وکالتی گروپ کے خلاف نعرے لگاتے اس کے مقامی دفتر کے باہر احتجاج کرتے رہے۔ علاقہ آزاد فلسطین، غزہ کو جینے دو اور فوری جنگ بندی کے نعروں سے گونجتا رہا۔ ایک شخص اسرائیلی جھنڈا جوتوں تلے روند رہا ہے، یہودیوں کی بڑی آبادی کے اس شہر میں!
سوچنے کی بات ہے کہ سارے عالمی دباؤ، اسرائیل پر بے پناہ لعن طعن، امریکا پر قہر وغضب کی بوچھاڑ کے باوجود نیتن یاہو یا بائیڈن ٹس سے مس کیوں نہیں ہو رہے؟ یہ 4دسمبر 2023ء کی ایک رپورٹ ہے۔1984ء میں ایک بہت بڑے یہودی پیشوا (مناہم مینڈل) نے پیشن گوئی کی تھی جب نیتن یاہو بطور اسرائیلی سفیر یو این (نیویارک) میں تعینات ہوا کہ وہ اسرائیلی وزیراعظم بنے گا۔ وہ اسرائیل کا آخری لیڈر ہوگا۔ نتین یاہو سے عصائے سلطانی (یا شیطانی) مسیح (الدجال) کو ملے گا۔ یہ یہودی پیشوا 40سال تک یہودی تحریک ’خباد‘ کا سربراہ رہا جو ہر امریکی ریاست اور دنیا بھر میں 100ممالک میں موجود ہے۔ اس کے متبعین لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ بے پناہ اثر ورسوخ کا حامل تھا۔ اسی بنا پر امریکی صدور خراج عقیدت پیش کرنے اس کے پاس جاتے رہے۔ (یہودی پیسہ اور ووٹ بھی ان کی ہمیشہ مجبوری رہی۔) جب
نیتن یاہو پارلیمنٹ میں داخل ہوا تو سب سے پہلے نیویارک، اسی کے در پر حاضری دی۔ اس نے شاباش دی۔ یقین دہانی کروائی کہ ’خدا‘ تمہارے ساتھ ہے۔ ’مسیحا‘ اب تک نہیں آیا۔ کچھ کرو تاکہ وہ جلد آئے! (اب کر رہا ہے!)
1996ء میں نیتن یاہو وزیراعظم بنا مگر 1999ء میں یہ حکومت ختم ہوگئی۔ 2009ء میں دوبارہ وزیراعظم بنا مگر ’مسیحا‘ کے آنے سے پہلے ہی 2021ء میں پھر کرسی چھن گئی۔ 2022ء میں کٹر صہیونی پارٹی کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت میں آگیا۔ (پیشوا تو 1994ء میں مرگیا۔) اب کچھ کر دکھانے کو بین الاقوامی قوانین توڑتے ہوئے مغربی کنارے پر فلسطینیوں سے گھر، زمینیں چھین کر یہودی نوآبادکاری تیزی سے شروع کی۔ یہاں تک کہ حماس حملے نے ہلا مارا۔ (اکتوبر 2023ء) نتین یاہو کو سیکورٹی کی کمزوری کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ اسرائیل میں اس کے خلاف شدید مخالفت پائی جاتی ہے۔ پہلے بھی پرائم منسٹر کی جگہ اس کے لیے مظاہروں میں ’کرائم (جرائم) منسٹر‘ کے بینر لہرائے جاتے رہے۔ کرپشن کے الزامات کا سامنا رہا۔ اب بھی اسرائیل میں یرغمالیوں کی واپسی اور جنگ بندی کے مطالبے مظاہرے شدت پکڑتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ وہ سیکولر ہے مگر کٹر صہیونی۔ لہٰذا غزہ پر حملے کے لیے مذہبیت کا سہارا لیا اور کہا: ’بائیبل کہتی ہے کہ ایک وقت جنگ کا ہوتا ہے اور ایک امن کا۔ اب یہ جنگ کا وقت ہے۔ ہم اپنے دشمن پر بے مثل قوت کے ساتھ حملہ آور ہیں۔ میں تاکیداً کہتا ہوں کہ یہ صرف ابتداء ہے۔ جو سزا ہم دیں گے وہ تادیر یاد رکھی جائے گی۔‘ اسے امریکا کی مضبوط پشت پناہی اور اثر ورسوخ کا یقین تھا۔ بلنکن (امریکی یہودی وزیر خارجہ) نے فوراً پہنچ کر، لامنتہا اسلحہ ہتھیاروں، فوج اور بحری، ہوائی جہازوں سے مدد بہم پہنچاکر ’پیشوا‘ کی پیشن گوئیوں میں رنگ بھرنے کا اہتمام کردیا۔ سیاسی سطح پر اقوامِ عالم کے سامنے پوری ڈھٹائی سے ویٹو کرتا، قتلِ عام کا اصل ذمہ دار امریکا ہی ہے۔ سیکولر نیتن یاہو ’مسیحا‘ کے انتظار میں انہی مغربی حکمرانوں کے ہمراہ تباہی اور قتل تیز ترین رفتار پر کیے چلا جا رہا ہے۔ عقیدہ یہی ہے (شیطانی) کہ جتنا خون بہے گا، بربادی ہوگی اتنی جلد مراد بر آئے گی۔ یاد رہے کہ شیاطین مناصب اور مرادوں کے وعدے پورا ہونے کے لیے انسانوں کو بھاری گناہوں پر آمادہ کرتے ہیں۔
کالے جادو (کبالہ) میں یہودی مہارت تامہ کے حامل ہیں۔ یہ شیطانی جنگ دجالی انتہاؤں پر معصوم بچوں، کمزور عورتوں کو خصوصی نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ لاشوں کی خوفناک بے حرمتی۔ اعضاء کا عالمی کاروبار، چوریاں ڈاکے، قیدیوں پر بہیمانہ مظالم، خواتین قیدیوں کی بے حرمتی کے واقعات کا تسلسل۔ یہ سب شیطانیت بلاسبب نہیں۔ امریکا اس فسادِ عظیم کا شراکت کار، سہولت کار بلکہ اصل ذمہ دار ہے۔ بظاہر سیکولر دکھائی دینے والا (پوری مسلم دنیاسے مذہبیت ختم کرنے پر کمربستہ) مغرب خود کیسا ہے؟ ایک وڈیو پے درپے تمام امریکی برطانوی یورپی صدور، وزرائے اعظم اور نامور شخصیات کو یہودی ٹوپیاں پہنے اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) میں دیوارِ گریہ پر عقیدت سے سر جھکائے دکھاتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے یہود کے نزدیک جو ’خدا‘ کے ساتھ براہ راست دعاؤں کی وصولیابی، رابطے کا ذریعہ ہے۔ سو یہ یہودی، صہیونی جنگ ہے اور نیتن یاہو ’عصائے سلطانی‘ آگے تھمانے کو مسجد اقصیٰ اور فلسطینیوں کے درپے ہے۔ حالانکہ پہلے دو دفعہ وہ وزارت عظمیٰ کی کرسی سے اتارا گیا اور دوبارہ براجمان ہوا۔ اب دنیا کو ایک مزید وقفے کی ضرورت ہے۔ باشعور یہودی اسے اتارکر دنیا کو سکھ کا سانس لینے دیں۔ اگلے پھیرے میں عصائے سلطانی شیطانی، بے ایمانی کا خواب پورا کرلے۔فلسطینی شہریوں کو امن سے رہنے دے اور جیسا حماس نے کہا: ’مرد بن کر حماس کا مقابلہ کرو ان سے لڑو۔‘ (بجائے عورتوں بچوں کے قتل، ہسپتال تاراج کرکے زخمی اٹھانے اور لاشیں چرانے کے!)
اہل غزہ نے عالمی طور پر جو فضا اپنے بے مثل کردار سے بنائی ہے وہ ہر سطح پر اسلام کی راہ دنیا کو دکھا رہی ہے۔فٹ بال کے مایہ ناز شہرت کے حامل بین الاقوامی نومسلم کھلاڑیوں کی طویل فہرست میں نیا اضافہ ہوا۔ 2021ء میں ریٹائر ہونے والا اسپین کا اسٹار کھلاڑی مسلمان ہوا ہے۔ اپنے کویتی دوست کی دعوت پر۔ قبول اسلام کی گھڑی کو زندگی کا بہترین لمحہ قرار دیتا بے انتہا خوشی کا اظہار کرتا ہے۔ اسرائیل کی محنت رائیگاں نہیں گئی۔ دنیا نے حق وباطل بچشمِ سر دیکھ لیا۔ حق اپنے پورے جلال وجمال کے ساتھ ہے۔ باطل، جہنم کی تاریک گھاٹیوں کی تمامتر سیاہی منہ پر ملے دنیا میں اپنے کریہہ کردار کی نحوست کے ہاتھوں ذلیل ورسوا ہو رہا ہے!
کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے
ہے بھروسا اپنی ملت کے مقدر پر مجھے

تبصرے بند ہیں.