”غنیمت جان لو مل بیٹھنے کو، قیامت کی گھڑی سر پر کھڑی ہے“ برے حالات دستک دے رہے ہیں۔ ہفتہ دس دن کی بات، بحران نوشتہئ دیوار، کیا آنکھیں اور کان بند ہیں؟ نہیں تو ”کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں“ ریاست اور جمہوریت امڈتے طوفانوں کی زد میں ”جمہوریت تیرے انجام پہ رونا آیا“ کشتی ڈانواں ڈول گڑ گڑ غوطے کھا رہی ہے۔ خیر گزری 23 فروری بروز جمعہ پنجاب اسمبلی کے 321 ارکان نے حلف اٹھا لیا، ایک واجبی سا عمل، ہمیشہ اٹھاتے ہیں اور دوسرے دن سے ہی اس کی خلاف ورزی پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں۔ ”آپ کا اعتبار کون کرے“ ن لیگ اور اتحادیوں کے 221 اور سنی اتحاد کونسل (دراصل پی ٹی آئی) کے 96 ارکان اجلاس میں شریک ہوئے۔ باقی کہاں گئے؟ مفرور، روپوش، اشتہاری، بچ گئے تو حلف اٹھالیں گے۔ بانی پی ٹی آئی نے میاں اسلم اقبال کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا امیدوار نامزد کیا۔ بدقسمتی سے سانحہ 9 مئی میں ملوث نکلے، راہداری ضمانت کے لیے پشاور ہائی کورٹ گئے تھے۔ ایک ماہ کی ضمانت مل گئی۔ باہر نکلے تو پنجاب پولیس دبوچنے کے لیے تیار کھڑی تھی۔ پشاور پولیس آڑے آئی کہا دس منٹ میں پیچھے ہٹ جاؤ، یہ بھی دن دیکھنے تھے کہ دو صوبوں کی پولیس آمنے سامنے، بیچ بچاؤ ہوگیا مگر میاں اسلم اقبال لاہور نہیں پہنچے، پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کو خواتین کی 36 اور اقلیتوں کی 5 مخصوص نشستیں مل گئیں۔ ہینگ لگی نہ پھٹکری رنگ چوکھا، پی پی کو تین نشستیں ملیں، سنی اتحاد کونسل اب تک بانجھ، قانونی و آئینی عمل سے گزری ہی نہیں گود کیسے ہری ہوگی، 86 آزاد ارکان (پی ٹی آئی والے) نے اسی گود میں پناہ لی گویا ”بندگی میں میرا بھلا نہ ہوا“ عقل کے پیچھے لٹھ لیے دوڑ رہے ہیں کیا نہیں جانتے تھے کہ سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا نے خود آزاد حیثیت میں مینار کے نشان پر الیکشن میں حصہ لیا جبکہ پارٹی کا انتخابی نشان گھوڑا تھا۔ آزاد رکن 86 آزادوں کی پرورش کیسے کرے گا۔ انتخابات کا عمل مکمل ہوا پنجاب میں ن لیگ کو دو تہائی اکثریت حاصل، مریم نواز پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ نامزد ہو گئیں۔ ملک احمد خان اسپیکر منتخب، سندھ میں مراد علی شاہ تیسری بار وزیر اعلیٰ بن جائیں گے۔ ”باپوں“ سے آزادی مانگنے والے اب تک ”نک دا کوکا“ (اقتدار) ڈھونڈ رہے ہیں جو ”مرشد“ کے جیل جانے کے بعد سے ”رتوکا“ کہیں گم ہوگیا اور اچھل کود کے باوجود نہیں رہا۔ حامد رضا کے ہاتھ پر ”بیعت“ اسی تلاش کا حصہ ”خدا ہی ملا نہ وصال صنم“ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔ مرشد اور مرید ہوئے فتنوں کو ہَوا دے رہے ہیں۔ شیر خان مروت نے دھمکی دی ہمارا مینڈیٹ (189 سیٹیں) واپس نہ کیا گیا تو چین سے حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ دھمکی کے ساتھ ہی انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست لے کر سپریم کورٹ جا پہنچے۔ اللہ کرم کرے علی امین گنڈا پور خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ نامزد کیے گئے ہیں۔ صوبہ میں کیا حالات ہوں گے۔ دل میں ہول اٹھ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی ساری سیاست وکلاء کے گرد گھوم رہی ہے۔ وکالت رہی نہ سیاست بانی پی ٹی آئی نے بیرسٹر گوہر کو خراب کارکردگی پر نا اہل قرار دے دیا۔ بقول شیر افضل مروت علی ظفر آگے آگئے۔ انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا اعلان۔ ”عید بعد ٹرکے مترادف، اب پچھتائے کیا ہووت“ انتخابی عمل مکمل ہوگیا مگر دھمکی اٹل، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں سر پھٹول تو ہو گی۔ اسمبلیوں کے احاطوں میں ڈسپنسریاں قائم کرنی ہوں گی۔ برے حالات ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کر نے آرہے ہیں۔ 86 ارکان قومی اسمبلی میں 169 سے زائد کی مخلوط حکومت چلنے نہیں دیں گے خان جیل میں بیٹھے امڈتے طوفانوں کو ہَوا دے رہے ہیں۔ دوبار قوم (مراد قوم یوتھ) کو سڑکوں پر آنے کی کال ناکام رہی کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ کے ذریعے دھاندلی کے اعتراضات بھی کام نہ آئے کچا چٹھا سامنے آگیا پیچھے پی ٹی آئی کے لیڈر 65 لاکھ ڈالر امریکا میں عالیشان بنگلہ کی پیشکش سب خواب بکھر گئے۔ لیاقت چٹھہ نے معافی مانگ لی۔ بات نہ بن سکی لیکن بے چین لوگ چین سے بیٹھیں گے نہ بیٹھنے دیں گے۔ چیف جسٹس کے خلاف مہم شروع کردی گئی ایک یوٹیوبر عبدالواسع گرفتار، عمران ریاض کی زبان چل نکلی توتلا پن ختم ہوا تو شعلے برسانے لگی انہیں بھی اٹھا لیا گیا۔ لوگ کہتے ہیں چھترول لترول سے سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوجائے گا۔ مشکل ہے فطرت ناری ہے کیسے بدلے گی خان کی ریاست دشمنی کی چوتھی کوشش، آئی ایم ایف کو قرضہ نہ دینے کا خط لکھ دیا۔ یادش بخیر، تحریک عدم اعتماد کے بعد خان کے وزیر خزانہ شوکت ترین اور تیمور جھگڑا نے اسی قسم کی حرکت کی تھی جس پر 16 ماہ کی حکومت کو قرضے کے لیے ناک سے لکیریں نکالنی پڑیں۔ اسی وقت نتھ ڈال دی جاتی تو دوبارہ ایسی جرأت نہ ہوتی کچھ نہیں کیا گیا بے نتھے بیل ٹکریں مارتے پھر رہے ہیں۔ پل صراط سے ادھر کھڑے لوگوں نے اسے ملک دشمنی قرار دیا۔ 6 ارب ڈالر قرضہ نہ ملا تو معاشی بحران سے قوم یوتھ سمیت 25 کروڑ عوام متاثر ہوں گے۔
کچھ باتیں حکومت سازی کے بارے میں چھتری تلے وفاق اور صوبوں میں حکومتیں قائم ہونے جا رہی ہیں۔ دور اندیشی یا ڈنڈے کا جادو، مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی،ایم کیو ایم اور دو تین چھوٹی جماعتیں اتحاد کے بندھن میں بندھ گئیں۔ شہباز شریف وزیراعظم، آصف زرداری صدر، قومی اسمبلی کا اسپیکر ن لیگ چیئرمین سینیٹ پیپلز پارٹی اتحاد کے لیے مذاکرات کے 6 دور ہوئے۔ نوجوان بلاول بھٹو اور ان کے ساتھی 28 شرائط کے ساتھ راستے میں آن کھڑے ہوئے۔ وزارتیں لینے سے انکار لیکن تمام آئینی عہدوں کے لیے بضد، میاں نواز شریف نے اتحاد سے منع کردیا، پھر ایسا ہوا اندرونی کہانیاں طلبی ہوگئی کہا گیا مل بیٹھو طے کرلو ورنہ بلوچستان سے ایک اور وزیر اعظم آجائے گا جس کے بعد اقتدار کے دروازوں پر دستک دیتے رہو گے کھڑکیاں نہیں کھلیں گی۔ پیغام ملنے پر بھاگم بھاگ مشترکہ پریس کانفرنس میں اتحاد کا اعلان کردیا گیا۔ بہت سے معاملات طے بہت سے ڈانواں ڈول، مخلوط قومی حکومت 5 سال قائم رہی تو اسی طرح ڈولتی رہے گی۔ سیاست ممکنات، نا ممکنات کا کھیل کہا جاتا تھا سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، محترم عرفان صدیقی کے بقول حیا بھی نہیں ہوتی شہباز حکومت کب تک چلے گی؟ اہم سوال بہتوں کی رائے انہیں 16 ماہ کا تجربہ ہے۔ سرتسلیم کیے رہے خم میں دم نہیں آیا، بہترین ایڈمنسٹریٹر ہوتے ہوئے بھی دم خم نہ لاسکے، اب بھی جب تک سر تسلیم خم رہا حکومت میں دم رہے گا۔ دم خم دکھایا تو حکومت بے دم ہوجائے گی۔ خم میں دم آنے سے محبت کم ہوگی اور پیچ و خم بڑھنے لگیں گے ”نک دا کوکا“ ڈھونڈنے والے پارلیمنٹ میں پہنچ کر دم خم دکھانے کی کوشش کریں گے مگر سب کچھ ان کے ہمدم کے جیل سے باہر آنے پر منحصر ہوگا جو ابھی تک سر تسلیم خم کرنے اور اپنی خونہ بدلنے پر بضد ہیں۔ بے یقینی سی بے یقینی ہے۔ بادل کب چھٹیں گے کچھ بڑے فیصلے آنے والے ہیں اس کے بعد پتا چل سکے گا۔
تبصرے بند ہیں.