کالم کی تلاش میں!

106

پتا نہیں دیگر کالم نگاروں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے یا نہیں لیکن میرے ساتھ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کالم لکھنے بیٹھوں تو باوجود کوشش کے کچھ نہیں لکھا جاتا۔ خیالات پر جیسے کوئی تالا سالگ جاتا ہے ذہن ایسے تاریک ہو جاتا ہے جیسے کسی زمانے میں نشریات شروع ہونے سے پہلے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کی سکرین پر کالے کالے دھبے دکھائی دیتے تھے۔ ایسے میں خود پر جبر کرکے خیالات پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کروں تو پہلا مسئلہ موضوع کے انتخاب کا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اوکھے سوکھے اگرکو ئی مناسب موضوع ذہن میں آ بھی جائے تو سو طرح کے اندیشے یا مصلحتیں آڑے جاتی ہیں۔ اگلامرحلہ اس سے بھی دشوار ہے میں کوئی ایسا بڑاکالم نگار تو ہوں نہیں کہ لفظ میرے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجائیں۔اس کے برعکس ہوتا یہ ہے کہ لفظ میرے سامنے اور میں لفظوں کے سامنے کتنی دیر تک ہاتھ جوڑ کر کھڑے رہتے ہیں۔ اس ”ہتھ جوڑی“میں کبھی لفظ جیت جاتے ہیں اور کبھی میں ہار جاتا ہوں۔ گویا شاعری ہی نہیں کالم نگاری بھی مرصع سازی کا کام ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ شاعری کے ساتھ کالم نگاری کے شعبے میں بھی اب ایسے ایسے فنکار اور ہنر مند آگئے ہیں جن کی شاعری اور کالموں میں مرصع سازی کی بجائے ملمع سازی دکھائی دیتی ہے۔ویسے تو یہ ملمع سازی آجکل ہمارے ہاں زندگی کے ہر شعبے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے مگر صحافت اور سیاست جیسے اہم شعبوں میں تو یہ باقاعدہ ایک”ہنر“ کے طور پر اس کی جڑوں تک سرایت کر چکی ہے۔ ممکن ہے میری اس بات سے آپ کا دھیان خواہ مخواہ صابر شاکر،عارف حمید بھٹی، چوہدری غلام حسین، فواد چوہدری، فردوس عاشق اعوان اور فیاض الحسن چوہان جیسے صحافتی اور سیاسی کرداروں کی طرف چلا جائے حالانکہ میرا اشارہ قطعی طور پر ان میں سے کسی کی ایک کی طرف بھی نہیں ہے۔اس لئے کہ ہمارے موجودہ صحافتی اور سیاسی منظر نامے میں ان سے بڑے بڑے کاریگر موجود ہیں۔ یہ ”مشوم“ تو ان کے سامنے دودھ پیتے بچے ہیں۔ خیر آج کے کالم کے لئے یہ میراموضوع نہیں ہے کہنا میں یہ چاہ رہا تھا کہ الیکشن کے بعد اس وقت تیزی سے بدلتی ہوئی جو سیاسی صورتحال ہے۔اس میں ہر بدلتے لمحے کے ساتھ کوئی نہ کوئی ایسی پیش رفت ہو رہی ہے جو کالم کے لئے بہترین موضوع ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر بانی پی ٹی آئی کا ایک طویل عرصے کے بعد بغیر ”حلالے“ کے اپنے ”جانی“ سیاسی حریف مولانا فضل الرحمن کی طرف دوبارہ ”رجوع“۔مولانا فضل الرحمن کا حکومت سازی میں شامل نہ کیے جانے پر اسٹیبلشمنٹ،نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف انکشافات سے بھرپور حملہ۔پنڈی کے سابق کمشنر لیاقت علی چٹھہ کا اچانک ضمیر جاگنے پر الیکشن میں دھاندلی کے الزمات اور پھر دوبارہ ضمیرسونے یا سلانے پر ان الزمات کی خود ہی تردید جیسی دھماکے دار خبروں میں کالم کے لئے خاصا مواد موجود ہے۔ان کے علاوہ عوامی دلچسپی کا ایک اہم موضوع گندے انڈوں کے بعد نقلی انڈوں کی خرید و فروخت کا کاروبار بھی ہے جو اس وقت لاہور اور کراچی میں اپنے عروج پر ہے۔ اسلام آباد اور پنڈی جیسے اہم شہروں میں بھی ایک عرصے سے گندے اور نقلی انڈوں کی خرید و فروخت کی سنی سنائی خبریں ہیں مگر یہ ایک نازک اور حساس موضوع ہے جس پر کالم لکھنا خواہ مخواہ خود کو ”چلے“ یا”چھلے“میں ڈالنے والی بات بھی ہوسکتی ہے۔ تحریک انصاف کے بانی رہنماعمران خان کا آئی ایم ایف کوآنے والی حکومت کو قرض نہ دینے کے لئے خط لکھنا بھی ایک اہم خبر ہے جس پر کالم لکھا جاسکتا ہے۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ اپنے سیاسی مفادات کے لئے خان صاحب اس سے پہلے چین کے صدر کا اہم دورہ پاکستان ملتوی کرانے اور عوام کو سول نافرمانی پر اکسانے سمیت 9مئی جیسے خوفناک واقعات کا ارتکاب کرواچکے ہیں۔ مگر ان سب باتوں پرلکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اس لئے کہ خان صاحب کے ماننے والے ان کے عشق میں اس بری طرح مبتلا ہیں کہ ان کی نظروں سے ریاست کا مفاد بھی اوجھل ہوگیا ہے۔حالانکہ یہ سیدھی اور صاف بات ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے اس نوعیت کے تمام تر اقدامات سراسر ریاست کے خلاف اور عوام دشمنی پر مبنی ہیں۔ جب کہ سوچنے اور سمجھنے والی بات یہ ہے کہ آجکل خان صاحب جن حالات سے گزر رہے ہیں اُن سے پہلے بلکہ انہی کے حکم پر ان ساری صعوبتوں اور آزمائشوں سے نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز شریف کے ساتھ مسلم لیگ نون کی دیگر مرکزی قیادت بھی گزرچکی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان مشکل ترین حالات میں بھی نون لیگی قیادت کی طرف سے کوئی ایسا غیر ذمہ داربیان یا عمل دیکھنے میں نہیں آیا جس سے ریاست کے مفاد کو کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق ہو۔ اس سے بھی پہلے جب ذوالفقار علی بھٹو اور اس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا پیپلزپارٹی کی قیادت نے بھی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اتنے بڑے نقصان کے باوجود ”پاکستان کھپے“ کا نعرہ لگا کر پاکستان کی سالمیت کی حفاظت کی تھی۔ کسی سیاسی پارٹی کی طرف سے ریاست اور اداروں کے خلاف ایسا غیر ذمہ دار اور جارحانہ رویہ پہلی بار دیکھنے میں آرہا ہے جس پر تحریک انصاف کی قیادت مسلسل عمل پیرا ہے جس کی کوئی توجیہہ پیش نہیں کی جاسکتی۔لیکن اس طرح کے موضوعات پر لکھنے کے لئے ضروری ہے کہ لکھنے والا اس پارٹی کے حمایتوں کی نفرت سہنے اور گالیاں سننے کا حوصلہ بھی رکھتا ہو۔ ایک موضوع گڑھی شاہو میں واقع حافظ جوس کارنر کے ایم ڈی اور شاعر حافظ عذیر احمد گڑھی شاہوی کے فن و شخصیت کا بھی ہے جس کے انعام میں پینا کلاڈا کے دو تین مفت جوس مل سکتے ہیں لیکن اس”ڈیل“ میں کسی ”گارنٹر“ کی موجودگی ضروری ہے جو فی الحال میسر نہیں ہے۔ آخر میں نہتی فلسطینی عوام پراسرائیلی جارحیت کا موضوع ہی بچتا ہے لیکن میرے خیال میں پچھلے کچھ عرصے سے اب اس موضوع میں بھی زیادہ جان نہیں رہی۔نیوز چینلز اور اخبارات کو دیکھیں تو سمجھ آتی ہے کہ اسرائیلی کی خوفناک بمباری سے صرف غزہ ہی نہیں ہمارے جیسے ملکوں میں یہ موضوع بھی اب ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے۔ ویسے بھی اس مسئلے پر جہاں اتنی بڑے بڑے اسلامی ممالک اور نام نہاد جہادی تنظیمیں کوئی عملی قدم اٹھانے کی بجائے صرف زبانی جمع خرچ کر رہے ہیں وہاں میرے ایک کالم لکھنے سے کیا فرق پڑے گا۔ سو اس موضوع کو بھی رہنے دیں اور آپ ہی بتائیں کہ”اتنے ڈھیر سارے موضوعات میں سے میں کس موضوع پر کالم لکھوں؟“۔

تبصرے بند ہیں.