حکومت سازی۔۔اتفاق رائے خوش آئند۔۔۔!

96

ملک میں نا امیدی، مایوسی، افرا تفری اور غیر یقینی صورتِ حال سے عبارت سیاسی فضا میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان وفاقی اور تین صوبوں پنجاب، بلوچستان اور سندھ میں حکومت سازی کے معاملات طے پانا اور اس حوالے سے اتفاقِ رائے کا سامنے آنا حوصلہ افزاء پیش رفت سمجھی جا سکتی ہے۔ یوں تو 8 فروری کے ابتدائی انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد جن کے تحت مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی اور پنجاب صوبائی اسمبلی میں بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی، مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں جماعتوں کے درمیان حکومت سازی کے معاملات پر مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چئیر مین آصف علی زرداری کے درمیان ملاقات ہوئی اور حکومت سازی کے معاملات طے کرنے کے لیے دونوں سیاسی جماعتوں میں مذاکراتی ٹیمیں تشکیل دینے پر اتفاق ہوا۔ ان مذاکراتی ٹیموں کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے جن میں باہمی اتفاقِ رائے کے اظہار کے ساتھ مذاکرات میں تعطل اور ڈیڈ لاک کا تاثربھی سامنے آتا رہا۔ عام خیال یہی تھا کہ پیر 19 فروری کو اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات میں بہت معاملات طے پا جائیں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا بلکہ اس کے بر عکس فریقین کی طرف سے کچھ مایوسی اور متضاد آراء کا اظہار سامنے آیا۔ منگل کو پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری کی میڈیا کے نمائیندوں سے گفتگو نے اس مایوسی میں مزید اضافہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں ڈیڈ لاک کی ذمہ دار مسلم لیگ (ن) ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ ووٹ بھی لیں اور شرائط بھی پیش کریں۔ صورتِ حال کے اس تناظر میں بظاہر یہی لگ رہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان حکومت سازی کے معاملات پر تعطل جاری رہے گا اور ملک کی بحرانی کیفیت میں مزید اضافہ ہو گا۔ اچھا ہوا کہ حالات میں اچانک ڈرامائی تبدیلی آئی اور دونوں جماعتوں کے درمیان حکومت سازی پر اتفاقِ رائے سامنے آ گیا ہے۔ ایک قومی معاصر کی رپورٹ کے مطابق منگل کو مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف ہنگامی طور پر لاہور سے اسلام آباد پہنچے ۔ جہاں پیپلز پارٹی سے
مذاکرات کی رابطہ کمیٹی کے سربراہ سینٹر اسحاق ڈار نے انہیں مذاکرات کے بارے میں بریفنگ دی۔ مری میں موجود مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف سے بھی مشاورت ہوئی۔ ان کی مشاورت اور رہنمائی کو سامنے رکھتے ہوئے میاں شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری سے منسٹر کالونی میں سینٹر اسحاق ڈار کی رہائش گاہ پر ملاقات کی جس میں حل طلب معاملات بالخصوص حکومتی، انتظامی اور پارلیمانی مناصب کی تقسیم کے حوالے سے ہونے والی گفتگو ـ بریک تھرو ثابت ہوئی اور تمام معاملات پر اتفاقِ رائے ہوا اور دونوں جماعتوں کے بڑوں کے درمیان شراکت ِ اقتدار کا فارمولا طے پا گیااور بعد میں پریس کانفرنس میں اس کا اعلان بھی سامنے آ گیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان حکومت سازی اور شراکتِ اقتدار کے لیے جو نکات طے پائے ہیں ان کی مکمل تفصیلات تو ابھی تک سامنے نہیں آئی ہیں۔ تاہم کچھ نکات کا اظہار چئیر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف کی پریس کانفرنس میں سامنے آچکا ہے۔ یہ پریس کانفرنس جو زرداری ہائوس اسلام آباد میں منعقد ہوئی اور جس میں پیپلز پارٹی کے شریک چئیر مین آصف علی زرداری موجود تھے، بلاول بھٹو زرداری کا کہناتھا کہ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ نے حکومت سازی کے لیے اپنے نمبر پورے کر لیے ہیں۔ پاکستان کو مشکلات، بحران سے نکالنے اور معاشرے میں پھیلی تقسیم ختم کرنے کے لیے مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی مل کر حکومت بنانے جا رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم کے لیے شہباز شریف دونوں جماعتوں کے متفقہ امیدوار ہوں گے جبکہ آصف علی زرداری صدر کے لیے مشترکہ امیدوار ہوں گے۔ ہماری دعا ہے کہ ملک کامیاب ہو اور ہماری مشکلات ختم ہوں ۔ اس موقع پر میاں محمد شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے پاس حکومت بنانے کے لیے نمبر پورے ہیں۔ ہم نئی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں ۔ آصف علی زرداری کو پانچ سال کے لیے صدرِ مملکت منتخب کروائیں گے۔ ہم مشاورت سے آگے بڑھیں گے۔ یہ باریاں لینے کی بات نہیں۔ ہمیں پاکستان کو مشکلات سے نکالنا ہے۔ ہمارے اتحاد میں بزرگ بھی ہیں اور جوان بھی۔ دونوں مل جائیں تو بڑی طاقت بنتے ہیں۔ اس اتحاد نے مہنگائی کے خلاف جنگ کرنی ہے اور معیشت کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کرنا ہے۔ آصف علی زرداری نے بھی اس موقع پر خیر مقدمی کلمات کہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پرنس چارمنگ (بلاول بھٹو زرداری) اور بھائی (شہباز شریف) کو ویلکم کرتے ہیں۔ ہمارا اتحاد پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے ہے۔
مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان حکومت سازی اور شراکت ِ اقتدار کے فارمولے کے بارے میں معتبر ذرائع کے حوالے سے بھی کچھ تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ ان کے مطابق پیپلز پارٹی پنجاب کابینہ کا حصہ نہیں ہو گی۔ چئیر مین سینٹ اور گورنر پنجاب پیپلز پارٹی سے ہوں گے۔ سپیکر قومی اسمبلی اور سندھ و بلوچستان کے گورنر (ن) لیگ نامزد کریگی جبکہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ مل کر حکومت بنائیں گی۔ دیکھا جائے تو مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان شراکت ِ اقتدار کے یہ نکات بڑی حد تک قابلِ عمل اور زمینی حقائق سے مطابقت رکھنے والے دکھائی دیتے ہیں تاہم پیپلز پارٹی کا وفاقی کابینہ میں شامل ہونا یا نہ ہونا ایک ایسا پہلو ہے جس پر میاں شہباز شریف کی متوقع وزارتِ عظمیٰ کی کامیابی اور ناکامی کا بڑی حد تک انحصار ہے۔ یہ تو نہیں ہو گا کہ پاکستان پیپلز پارٹی صدرِمملکت چئیر مین سینٹ اور صوبوں کے گورنر جیسے آئینی عہدے حاصل کرنے کے بعد کہیں مسلم لیگ (ن) کی حمایت سے دست کش نہ ہو جائے اور ملک کو بحرانی کیفیت سے دو چار ہونا پڑے یا پھر وفاقی حکومت کی طرف سے ملکی معیشیت کو پٹڑی پر چڑھانے کے لیے کیے جانے والے مشکل فیصلوں کا سارا بوجھ اکیلے مسلم لیگ (ن) کے کندھوں پر آن پڑے۔ یقیناً یہ صورتِ حال مسلم لیگ (ن) کے لیے کسی بھی صورت میں خوش کُن نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ بھی مسلم لیگ (ن) کو حکومت سازی کے لیے ایم کیوایم اور پاکستان مسلم لیگ (ق) اور دوسری چھوٹی جماعتوں کی حمایت بھی درکار ہے۔ ان کے علاوہ بالخصوص ایم کیو ایم جومانی ہوئی سودا کار (بار گینر ) ہے کے مطالبات پورا کرنا بھی مسلم لیگ (ن) کے لیے آسان نہیں ہو گا۔خیر حالات جیسے بھی سامنے آئیں۔ اللہ کریم سے یہی دعا کرنی چاہیے کہ ملک و قوم کے لیے بہتری کی صورتحال سامنے آ سکے۔

تبصرے بند ہیں.