عبدالعلیم خان کی جیت اور دُکھی پی ٹی آئی

37

تحریک انصاف کو لاہور سے الیکشن ہارنے کا اتنا دکھ نہیں ہوا جتنا عبد العلیم خان کی جیت نے انہیں دکھی کر دیا ہے کہ عمران نیازی اور اُس کی جماعت کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ لاہور سے ناقابلِ تسخیر رہا۔ اُس نے اپنا الیکشن انتہائی محنت اور اُس خدمت کی بنیاد پر جیتا ہے جو وہ سالہا سال سے عام آدمی کی کر رہا ہے۔ عبد العلیم خان کو اپنی کریکٹر بلڈنگ کی ہرگز ضرورت نہیں پڑی کیونکہ یہ کام اُس کے دونوں حلقوں میں عام آدمی خود کر رہا تھا۔ بے گناہ عبد العلیم خان کو عمران نیازی نے 106 دن جیل میں رکھا اورکس جرم میں رکھا یہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔ عبد العلیم خان لاہور کے این اے 117 اور صوبائی اسمبلی 149 سے اپنی نشستیں جیت چکا ہے جب کہ عمران نیازی جیل میں ہے اور نہ جانے کب تک جیل میں رہے گا۔ 2013ء میں عبد العلیم نے پی ٹی آئی کا حصہ ہوتے ہوئے صرف صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیتا تھا اور جب 22 جولائی 2013ء میں الیکشن کے دوران بانی چیئرمین تحریک انصاف، جمشید اقبال چیمہ کی الیکشن مہم کے جلسہ میں شالیمار باغ کے سامنے لگے سٹیج پر تشریف لائے تو میں اُن کے ساتھ ہی بیٹھا تھا۔ عمران نیازی نے لاہور کی صورت حال مجھ سے پوچھتے ہوئے ڈاکٹر یاسمین راشد کے الیکشن نتائج کا پوچھا تو میں نے کہا ”ڈاکٹر صاحبہ کی ہیٹ ٹرک ہو گی“۔ تو عمران نیازی نے حیرت سے پوچھا ”کیا مطلب ہے؟“ تو میں نے جواب دیا ”جناب کرکٹ آپ کھیلتے رہے ہیں سو ہیٹ ٹرک کا مطلب مجھ سے بہتر آپ جانتے ہیں یعنی تیسری بار ہاریں گی“۔ عمران نیازی نے کچھ سوچ کر پوچھا ”اور جمشید اقبال چیمہ کا کیا بنے گا؟‘‘ تو میں نے کہا ”یہ بھی ہار جائے گا اِس نے صرف آج آپ کی وجہ سے ورکروں کو ٹرانسپورٹ مہیا کی ہے“۔ ایک دو اور امیدواروں کے نتائج بارے مجھ سے دریافت کرنے کے بعد اُس نے عبد العلیم خان کے الیکشن کے بارے میں دریافت کیا: ”تو میں نے صاف جواب دیا کہ علیم خان اپنا این اے کا الیکشن ہار جائے گا“۔ عمران نیازی مجھ سے اس جواب کی توقع نہیں کر رہا تھا اُس کا خیال تھا کہ علیم خان کے قریب ہونے کی وجہ سے میں شاید اُس کی فتح کی خبر سناؤں گا لیکن جب اُس نے علیم خان کے الیکشن بارے میری زبان سے منفی نتائج سنے تو پوچھنے لگا: ”اورہارنے کی وجہ کیا ہے؟“ تو میں نے جواب دیا: ”چیئرمین صاحب! علیم کو آپ کی کمپین سے
ہی فرصت نہیں مل رہی اور اُس کے اپنے حلقہ کے لوگ اُس سے ناراض ہو رہے ہیں کیونکہ وہ ساری توجہ آپ کے الیکشن پر دے رہا ہے البتہ عبد العلیم خان کی وجہ سے آپ پہلی بار لاہور سے جیت جائیں گے“۔ اور پھر یہی ہوا عبد العلیم خان کے سرمائے اور کاوش سے عمران نیازی لاہور سے جیت گیا لیکن علیم خان اپنا قومی اسمبلی کا الیکشن ہار گئے لیکن اُس کے چہرے پر اپنے شکست کی کوئی مایوسی نہیں تھی بلکہ عمران نیازی کی جیت سے اُس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ عبد العلیم خان نے صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیت لیا اور یہی جیت ازاں بعد عمران نیازی نے اُس کیلئے وبالِ جان بنا دی۔ الیکشن کے فوری بعد علیم خان کو نیب سے نوٹس موصول ہونا شروع ہو گئے اور یہ سلسلہ اتنی دیر تک چلتا رہا جب تک بزدار وزیر اعلیٰ منتخب نہیں ہو گیا اور اُس کے بعد جب کبھی بزدار کی نالائقیوں کو تحفظ کی ضرورت پڑتی عبد العلیم خان کو نیب سے نوٹس موصول ہونا شروع ہو جاتے۔ عبد العلیم خان کی وفاداری اور بے لوث قربانی کے نتیجہ میں احسان فراموش عمران نیازی نے اُسے جیل پہنچا دیا اور بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی عمران نیازی کی خواہش تھی کہ عبد العلیم خان کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا جائے لیکن پاکستان کا نالائق وزیر اعظم یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ منتخب عوامی نمائندے کو بطور ملزم ہتھکڑی نہیں لگائی جا سکتی۔ علیم خان ایک غیرت مند آدمی ہے سو جب عمران نیازی کمینگی کی اِس حد تک اتر آیا کہ عبد العلیم خان کے بچوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے لگا تو اُس نے اِس سرد جنگ کا خاتمہ کر دیا اور تقریباً 11 سالہ یہ تعلق تلخ اور گرم مکالمے کے ساتھ ختم ہو گیا۔ عمران نیازی نے اُس کے بعد عبد العلیم خان پر نہ صرف الزامات کی برسات کر دی بلکہ پی ٹی آئی کا سارا سوشل میڈیا اور میاں اسلم اقبال جیسے بدنام لوگ اُس پر کھلے چھوڑ دیئے جنہوں نے بطور صوبائی وزیر ہر حد کو عبور کیا۔ گھر پر پولیس ریڈ کے علاوہ اُن کی ہاؤسنگ سوسائٹی کو مسمار کرنے کی کوشش اور دہشت گردی کی دفعات سب کچھ کر کے دیکھ لیا لیکن یہ لوگ نہیں جانتے تھے عزتوں اور ذلتوں کے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں جس کے بارے میں عمران نیازی تو مکمل لا علم تھا۔ عمران نیازی سے علیحدہ ہوتے وقت عبد العلیم خان نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا تھا: ”اللہ حق ہے وہ سب کو اسی دنیا میں سب کچھ دکھا کر اپنے پاس بلائے گا“۔ اور آج حالات آپ کے سامنے ہیں۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اسمبلی میں ہیں لیکن تحریک انصاف اسمبلی میں نہیں۔ عبد العلیم خان کے پاس اب چوائس ہے کہ وہ مرکز کی سیاست کرے یا صوبے کی لیکن عمران نیازی جیل میں ایک بارک سے دوسری بارک میں بھی اپنی مرضی سے نہیں جا سکتا۔ اُس کے آزاد امیدوار سیاسی غلامی کیلئے ترس رہے ہیں۔ وسیم قادر تحریک انصاف کا ووٹ لے کر میاں نواز شریف کے سیاسی قبلے کی طرف منہ کر چکا ہے اور ایک قطار اُس کے پیچھے ہے۔ اعتزاز احسن نے تو بلاول کے جلسے میں اعلان کر دیا ہے ”پیپلز پارٹی میرے خون میں دوڑتی ہے“ کیونکہ بیرسٹر گوہر کا دخول تحریک انصاف میں کرا کر اعتزاز احسن نے اپنا کام احسن طریقے سے مکمل کر دیا ہے اور بیرسٹر گوہر  نے بھی قانون دان ہو کر اپنی قانونی جنگ انتہائی مہارت، غیر محسوس اور احسن طریقے سے ہار کر تحریک انصاف کو پارلیمنٹ میں لاوارث کرا دیا ہے۔

مجھے تو اُن ذہنوں پر حیرت ہو رہی ہے جنہوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دیتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ اُن کا ووٹ حقیقت میں مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کے کام آ رہا ہے۔ چند دن اور ٹھہر جائیں، ابھرتے سورج کی طرح ہر شے مکمل آشکار ہو جائے گی۔ تحریک انصاف کے سابق ساتھی جہاں عبد العلیم خان کے جیتنے کی مبارک باد مجھے دے رہے ہیں وہیں یہ گلہ بھی کر رہے ہیں کہ عبدالعلیم خان کو ن لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اب کوئی پوچھے بھلے مانسو کیا علیم خان تم سے پوچھ کر اپنی زندگی کے فیصلے کرے گا؟ تمہارے ”مفید مشوروں“ اور کھلی بزدلی نے ہی عمران نیازی کو اِس حال تک پہنچایا ہے۔ بیرسٹر گوہر کو چاہیے تھا کہ اپنے جیتنے والے ساتھ اکٹھے کر کے اب تک اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا ٹاک کر لیتا تاکہ جیل کے اندر بیٹھے عمران نیازی کو یہ تو حوصلہ ہو جاتا کہ اُس کے فاتح ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد جیل کے باہر اُس کے ”نظریے“ اور ”موقف“ کے ساتھ کھڑی ہے لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کل عمران نیازی نے وحدت المسلمین یا مولانا شیرانی کی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی تو تحریک انصاف کا نیا بیانیہ کیا ہو گا؟ یاد رکھیں جو شخص اپنے سماج کو کچھ دیتا ہے سماج اُسے کبھی بے آبرو نہیں ہونے دیتا اور عبد العلیم خان نے عام آدمی کو اپنے دائرے میں رہتے ہوئے دکھی نہیں ہونے دیا۔

تبصرے بند ہیں.