مزہبی جماعتیں اپنا محاسبہ کریں

37

اس وقت الیکشن کے بعد کی صورت حال یہ ہے کہ آزاد اُمیدوار 97 سیٹیں لے چکے ہیں، پی ایم ایل این کی 79 ، پی پی پی کی چون ہیں، جے یو آئی کی 4، ایم کیو ایم پی کی سترہ، جماعت اسلامی کی صفر اور تحریک لبیک کی بھی صفر ہیں، بلا شبہ ابھی بہت سے اُمیدوار اور جماعتیں دھاندلی کا شک ظاہر کر رہے ہیں اور عدالتوں سے رجوع کر رہے ہیں لیکن مذہبی جماعتوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کریں کہ عوام انھیں پسند کیو ں نہیں کرتے اور کیوں انھیں ووٹ دینے کا اہل نہیں سمجھتے، میری نظر میں اسکی بہت سی وجوہات ہیں جس پر ہم بات کرتے ہیں، پاکستان میں عام طور پر لوگوں نے ووٹ دینے کیلئے بہت غلط معیارات بنا رکھے ہیں کچھ لوگ فرقہ پرستی، جماعت پرستی، لسانیت، ذات برادری، ا باء پرستی اور مفاد پرستی کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں مثلاً جو لیڈر نوکری دلا دے، بزنس کنٹرکٹ دلا دے یا اور کوئی کام کرا دے تو ووٹ اسی کی جماعت کو دے دیتے ہیں اور اگر کوئی بہت زیادہ ہی محب وطن ہوکر سوچے تو گلیاں، نالیاں، سڑکیں اور پل بنانے پر ووٹ دے دیتا ہے، یعنی کچھ لوگ ترقیاتی کام زیادہ ہو نے کی وجہ سے اس سیاسی جماعت کو ووٹ دے دیتے ہیں اور اسے دانشمندی سمجھتے ہیں، پھر کچھ لوگ جو مذہبی رجحان رکھتے ہیں وہ کسی سیاسی جماعت یا لیڈر کو اسلئے ووٹ دے دیتے ہیں کہ فلاں شخص یا جماعت اُ ن کی نظر میں زیادہ مذہب کے قریب ہے، یہی وہ وجو ہات ہیں کہ ہر شخص اپنی رائے خود بنا تا ہے اور اس پر ڈٹ جاتا ہے اسی وجہ سے اُسے کوئی بڑی سے بڑی دلیل، ثبوت یاشواہد متاثر نہیں کر تے اورکرپٹ سیاست دانوں کے اصلی چہرے ظاہر ہو جانے کے بعد بھی اُن کے ووٹر اپنی پارٹی کی اندھی حمایت کرتے ہیں اور انھیں ہی ووٹ دیتے ہیں ، اس اندھی محبت کی ایک جھلک آپ کو سوشل میڈیا پر نظر آتی ہیں جہاں مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان اپنے مخالفین کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف رہتے ہیں اور اس مہم میں وہ کسی بھی قسم کے جھوٹ اور بہتان سے بھی دریغ نہیں کرتے اور اسے ہی پھیلاتے رہتے ہیں۔

مذہبی سیاسی جماعتوں کی ناکامی کی سب سے پہلی وجہ میری نظر میں یہ ہے کہ عوام دین سے دور ہیں وہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ تک ہی دین کو سمجھتے ہیں اور اس سے زیادہ عملی زندگی میں، معاملات، معاشرت اور سیاست میں دین کی تعلیمات پر کم عمل کرتے ہیں اور اسکی بھی کچھ حد تک ذمہ داری علماء ، مذہبی جماعتوں اور طبقات ہی پر ہیں اسلئے کہ انھوں نے عوام کو فرقہ واریت اور اختلافی مسائل میں زیادہ اُلجھایا اسی لئے ایک مسلمان اپنی عملی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی زندگی میں دینی تعلیمات سے بہت دور ہیں اور اسی وجہ سے جب الیکشن کا وقت آتا ہے تو ایک طرف ایک مذہبی جماعت کا مذہبی اور با عمل آدمی الیکشن میں کھڑا ہوتا ہے لیکن وہ اپنی دینداری، ایمانداری اور شرافت کے باوجود ہار جاتا ہے اور دوسری طرف ایک کرپٹ شخص جس کا خراب ماضی بھی سامنے ہو لیکن وہ جیت جاتا ہے وجہ یہ ہے کہ عوام سمجھتے ہیں کہ دیندار شخص انکے ناجائز کام نہیں کرے گا اور ہر معاملے میں دینی احکامات کو مد نظر رکھے گا یعنی عوام خود چاہتے ہیں کہ الیکشن میں ایسا شخص منتخب ہو جو انکے ناجائز کاموں میں معاونت کرے۔ دوسری وجہ میری نظر میں مذہبی جماعتوں کی ناکامی کی یہ ہے کہ اس وقت جتنی بھی مذ ہبی جماعتوں نے الیکشن میں حصہ لیا اُنکا تعلق کسی خاص فرقہ یا مکتب فکر سے ہے اور عوام فرقہ وارانہ منافرت کے جذ بات کے تحت اپنے مخالف فرقہ سے تعلق رکھنے والے شخص کو ووٹ نہیں دیتے چاہے وہ کتنا با عمل مسلمان ہی کیوں نہ ہو اور عوام میں فرقہ وارانہ منافرت کے جذ بات پیدا کرنے کے ذمہ دار بھی علماء ہی ہیں اگر آپ ایک شہر کی ایک سو مساجد میں علماء کے جمعہ کے خطبات دیکھیں تو اکثریت کے موضوعات فرقہ وارانہ ہی ہوں گے، اسی طرح محرم آئے، ربیع الاول آئے، شب برأت آئے یا کوئی اور خاص مذہبی دن آئے تما م علماء اور اُن کے پیروی کرنے والو ں کا فوکس وہی موضوع ہوتا کوئی اس کی حمایت میں دلائل دے رہے ہوتے ہیں اور کوئی مخالفت میں یہی وجہ ہے کہ عوام فرقوں میں تقسیم ہے اور اس منافرت کا اثر پورے معاشرے میں نظر آتا ہے اور پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بے دین طبقہ ہر جگہ کامیاب ہو جاتا، میری نظر میں اسکی بھی کافی حد تک ذمہ داری علماء اور مذہبی طبقات ہی پر ہے۔ اس وقت اگر مذہبی سیاسی جماعتوں کو دیکھیں چاہے وہ جے یو آئی ہو یا جماعت اسلامی ہو یا تحریک لبیک سب میں اُنکا مسلکی رنگ واضح ہے یہی وجہ ہے کہ مخالف مسالک کے مذہبی لوگ انکو ووٹ نہیں دیتے ۔میری نظر میں ان بڑی مذہبی سیاسی جماعتوں کو اپنے اس طرز عمل پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

تیسری وجہ مذہبی سیاسی جماعتوں کی ناکامی کی میری نظر میں یہ ہے کہ کچھ ایسی جماعتیں یا افراد ہیں جن کا مقصد اسلام یا مسلمانوں کا مفاد نہیں ہے بلکہ عام سیاسی جماعت کی طرح اُنکے بھی ذاتی مفادات اُن کی ترجیحات ہیں اور انھوں نے مذہبی لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور عوام میں سے جو انکی اصلیت سمجھتے ہیں وہ اُن سے نفرت کرتے ہیں اور انکی وجہ سے اچھی اور مخلص مذہبی جماعتوں سے بھی لوگ متنفر ہو جاتے ہیں اور مذہبی جماعتوں پر اعتماد نہیں کرتے۔

میری رائے یہ ہے کہ اس وقت تمام مذہبی جماعتوں، علماء مشائخ، مزارات کے سجادہ نشین، سکالرز، با اثر شخصیات اور تمام مذہبی طقات کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ غور کریں اور اُن وجوہات کو سمجھنے کی کو شش کریں کہ عوام انھیں اقتدار کے لئے کیوں اہل نہیں سمجھتے اور کیوں اُن پر اعتماد نہیں کرتے اور عوام کو بھی سوچنا چاہے اور اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہئے کہ وہ اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیتے ہیں جو کرپٹ ہیں، بدیانت ہیں اور دین تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہیں اور مذہبی طبقات کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام میں یہ شعور پیدا کرنے کی بھرپور جدوجہد کریں تاکہ اقتدار دیندار ، ایماندار اور با عمل لوگوں کے ہاتھ میں آسکے۔

تبصرے بند ہیں.