الیکشن، جوڑ توڑ، مخلوط حکومت

43

الیکشن ہوگئے، کھیل ختم 47 ارب ہضم، لیکن ٹھہریے کھیل ختم نہیں شروع ہوا ہے۔ تمام تر دعوئوں اور اندازوں کے برعکس عوام گھروں سے نکلے ہیں اور انہوں نے سیاسی جماعتوں کے علاوہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ مختلف نشانات والے آزاد امیدواروں کی جھولیاں بھی ووٹوں سے بھردی ہیں۔ پنجاب میں شیر کی دہاڑ، سندھ میں تیروں کی بوچھاڑ کے پی کے میں کتاب اور سیکڑوں نشانات کی بھرمار، ووٹ شمار کیے جائیں تو تاج شاہی ان کے لیڈر حال مقیم اڈیالہ جیل کے سر پر رکھ دیا جائے لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ ارکان کو گننے کی بجائے تولا جائے گا۔ آزاد منتخب ارکان الیکشن کے 3 دن بعد تک کسی بھی سیاسی پارٹی میں شمولیت کا اعلان کریں گے ورنہ جس پارٹی کے حمایت یافتہ ہیں وہ مخصوص سیٹوں سے محروم ہوجائے گی۔ اطلاعات کے مطابق سارے آزاد پی ٹی آئی کے نہیں ہیں، ہاشم جواں بخت، عقیل ملک، حیات ہراج سمیت متعدد ایسے ارکان ہیں جنہوں نے ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا اور کامیاب ہوگئے، ایسے 14 ارکان کے مبینہ طور پر ن لیگ سے رابطے ہیں جبکہ فیصل واوڈا کے مطابق 35 ارکان پی ٹی آئی کے نہیں ہیں۔ کبھی ہوں گے 30 تو بیان حلفی دے چکے ہیں کہ ہم کپتان کی سپاہ میں شامل نہیں ہوں گے۔ کہاں جائیںگے؟ جوڑ توڑ ہوگا لوٹ سیل لگی ہے۔ شنید ہے کہ قومی اسمبلی کے 35 کروڑ جبکہ پنجاب اسمبلی کے لیے 15 کروڑ کی بولی لگی ہے۔ اپنی اپنی سیٹوں کی تعداد بڑھانے کے خواہش مند حضرات ’’برف کے باٹ لیے دھوپ میں آبیٹھے ہیں‘‘ آصف زرداری نواب شاہ سے الیکشن جیتنے کے بعد سپیشل طیارے پر اسلام آباد اور پھر لاہور پہنچ گئے۔ کیوں آئے ہیں؟ لیکن اس سے پہلے الیکشن کی بات ہوجائے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ الیکشن برحق، لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوئے تو اور بھی ایسا بہت کچھ ہو گا جو کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا۔ الیکشن میں ٹرن اوور فافن کے مطابق 48 فیصد رہا غیر ملکی مبصرین نے انتخابات کو شفاف قرار دیا۔ مجموعی طور پر پر امن رہے کہیں کہیں دنگا فساد کی خبریں ملیں۔ گویا سیاسی دنگل کے علاوہ اصلی دنگل بھی دیکھنے کو ملے۔

جن میں 30 کے لگ بھگ افراد زخمی ہوئے الیکشن سے ایک روز قبل بلوچستان کے علاقہ قلعہ سیف اللہ اور پشین میں دہشتگردوں کے بم حملوں میں 26 افراد شہید ہو گئے تاہم الیکشن ہو کے رہے عوام نے آزاد ارکان کو دل کھول کر ایک کروڑ 46 لاکھ جبکہ ن لیگ کو ایک کروڑ 6لاکھ ووٹ دیے 2018ء میں یہ تعداد بالترتیب ایک کروڑ 68 لاکھ اور ایک کروڑ 28 لاکھ تھی۔ گزشتہ دو تین ماہ سے سول میڈیا اور ٹی وی چینلز پر سنائی جانے والی جھوٹی کہانیاں اور تبصرے ہوا میں تحلیل ہو گئے سارے پلان، فارمولے ناکام، جھاگ کی طرح بیٹھ گئے الیکشن سے دو دن پہلے ایک ویلاگر کے مطابق سرکاری ادارے کی خفیہ سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ن لیگ 120 سے 132 نشتیں جیت لے گی۔ پیپلز پارٹی کی 35 سے 40 سیٹیں ہوں گی۔ پی ٹی آئی 23 سے 29، ایم کیو ایم 12 سے 14، جے یو آئی ف 6 سے 8، ق لیگ 2 سے 3 اور آئی پی پی 2 سے 3 سیٹیں لے سکے گی۔ 8 فروری کے الیکشن میں سب کچھ الٹ پلٹ، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے 97 نشستیں جیت لیں۔ خان نے واقعی سرپرائز دیا۔ عوام کو گھروں سے باہر نکالنے میں کامیاب رہے۔ خان کے پلان کے مطابق ہر حلقہ کے ووٹروں کو اپنے آزاد امیدوار کے نشان کا علم تھا۔ مسلم لیگ ن 72، پی پی 53، ایم کیو ایم 15 نشستوں پر کامیاب ہوئی۔ ق لیگ 3 اور جے یو آئی، آئی پی پی دو دو نشستیں حاصل کرسکیں۔ نواز شریف لاہور کی نشست سے کامیاب، مانسہرہ سے ہار گئے۔ بلاول بھٹو لاڑکانہ سے کامیاب لاہور سے ن لیگ کے عطا تارڑ سے شکست کھا گئے۔

شہباز شریف، مریم نواز، آصف زرداری، فضل الرحمان، بیرسٹر گوہر، لطیف کھوسہ، خالد مقبول صدیقی، فاروق ستار، ایاز صادق، خواجہ آصف، احسن اقبال، اسد قیصر، سردار اختر مینگل نے کامیابی حاصل کی۔ بڑے بڑے برج الٹ گئے۔ سراج الحق، جہانگیر ترین، پرویز الٰہی ان کی اہلیہ قیصرہ الٰہی، پرویز خٹک ان کے بھائی بھتیجے، شیخ رشید، راجہ بشارت، ایاز امیر، یاسمین راشد، ن لیگ کے میاں جاوید لطیف، خواجہ سعد رفیق، روحیل اصغر کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ انتخابات میں کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہ ہوسکی کہ وہ تن تنہا وفاق میں حکومت بنا سکے۔ سب سے زیادہ آزاد ارکان خیبر پختونخوا میں واضح اکثریت سے کامیاب ہوئے ہیں لیکن وہ کس پارٹی کا لیبل لگائے بغیر حکومت نہیں بنا سکیں گے۔ وفاق یعنی قومی اسمبلی میں اب تک ان کی تعداد 93 ہے ان کے لیڈرکا چور ڈاکو کا بیانیہ انہیں پی پی یا ن لیگ کی طرف جانے نہیں دے گا۔ خواتین اور اقلیتی مخصوص نشستوں سے محروم ہوچکے خیر سے خان صاحب اور ان کے با اعتماد صدر مملکت اب تک اسٹیبلشمنٹ سے تصادم کا رویہ ختم نہیں کر سکے جس کی بنا پر وہ اب تک مائنس ہیں۔ فرض کیجئے کہ وفاق کے لیے 97 آزاد ارکان پیپلز پارٹی میں شامل ہوجاتے ہیں تو وہ ’’موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں‘‘ کے اصول اپنا کر حکومت بنا لیتے ہیں تو وہ کس کے احکامات کی تعمیل کریں گے۔ یقینا آصف زرداری کی بجائے اپنے لیڈر کے ہیڈ کوارٹر اڈیالہ جیل کے احکامات کی تعمیل ان کی مجبوری ہوگی۔ بڑوں سے مخاصمت اور جلائو گھیرائو کے ٹوئٹس اور بیانئے ’’مفاہمت کا بادشاہ‘‘ کیسے قبول کرے گا۔ خاموشی پر بڑوں سے تصادم نا گزیر ایسے میں قومی سطح کی بھلی مانس پارٹی بھی زیر عتاب آجائے گی۔ کم و بیش یہی صورتحال مسلم لیگ ن کے ساتھ ہوگی۔ اسی لیے عرض کیا کہ کھیل ابھی شروع ہوا ہے۔ آزاد ارکان میں کچھ وہ ہیں جو سدا سے اپنے ہیں اور دیگر جماعتوں کی طرح کھوٹے سکوں کی مانند خان کی جیب میں ڈال دیے گئے تھے۔
اب کیا ہوگا؟ عام تجزیہ کاروں کی پریشانی بجا، گرگٹ کی طرح بدلتے ٹی وی چینلوں پر من پسند تبصرے کرنے والوںکا واویلا درست لیکن سیانوں کا کہنا ہے کہ سب کچھ پلان کے مطابق ہوا ہے۔ سیانے الیکشن سے بہت پہلے اس پلان سے متعلق انکشافات کر چکے، ملک میں دو تہائی اکثریت کے مواقع دیے گئے لیکن حکومتیں اپنی میعاد پوری نہ کر سکیں۔ اس بار کسی بھی پارٹی کو اتنی اکثریت حاصل نہیں کہ وہ وفاق میں بلا شرکت غیرے حکومت بنا سکے۔ یہ اسمارٹ گیم کا حصہ ہے۔ گیم کے سارے پتے شو کردیے گئے۔ پی ٹی آئی نے تصادم کا راستہ اختیار کیا۔ آزادی کے نعرے لگائے ’’تیرا باپ بھی دے گا آزادی‘‘ کے نعرے لگانے والے آزادی کی شکل دیکھنے کو ترس رہے ہیں۔ جلائو گھیرائو کا سبق پڑھانے والے اصلی نسلی شیخ رشید گمنامی کے گڑھے میںجا گرے، بلا شبہ خان کو عوام کی حمایت حاصل رہی لیکن انہوں نے اپنی منفی اور ریاست مخالف حکمت عملی سے جیتی ہوئی بازی ہار دی۔ انتخابات سے عوام کی بھڑاس نکل گئی۔ غور و خوض کے بعد یہی طے کیا گیا تھا کہ گلا دبایا جائے گھونٹا نہ جائے کہ بندہ غیر طبعی موت مر کر امر ہوجائے اور عوام کے دل و دماغ سے نہ نکل سکے۔ آزاد ارکان کب تک بے نام و نشان رہیں گے ’’تم کہاں جائو گے کچھ اپنا ٹھکانہ کرلو‘‘ کے مصداق کسی سیاسی جماعت کا سایہ دیوار ڈھونڈیں گے نہ ملا تو قومی اسمبلی میں آزاد گروپ کے نام سے نعرے لگایا کریں گے۔ بنگلہ دیشی ماڈل پر ہو بہو عمل کر کے پھانسیاں نہیں دی جاسکتیں۔

عوام کے جذبات میں تبدیلی کا انتظار کرنا ہوگا۔ جب انہیں یقین ہوجائے گا کہ سارے راستے بند ہوگئے خواب چکنا چور، جلائو گھیرائو کی سیاست ختم تو وہ مستقبل قریب میں اپنے راستے جدا کرلیں گے۔ اسمارٹ گیم کے تحت مین اسٹریم کی سیاسی پارٹیاں کم از کم آئندہ پانچ سال کے لیے اپنے ذاتی اختلافات اور ’’بلاولانہ نظریات‘‘ بھلا کر ایک قومی مخلوط حکومت بنائیں گی اور دس سالہ ترقیاتی پروگرام پر عملدرآمد شروع کریں گی۔ مسلم لیگ ن قومی اسمبلی میں سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر سامنے آئی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں اس کی 137 نشستیں ہیں، آزاد امیدوار خصوصی نشستوں سے محروم رہیں گے جس کے بعد یہ نشستیں (خواتین اور اقلیتی) دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہوجائیں گی۔ کڑی سے کڑی ملائیں تو 9 فروری کی صبح نواز شریف نے ایک اہم شخصیت کو اسلام آباد روانہ کر دیا۔ مثبت جواب ملنے پر اسی شام انہوں نے ماڈل ٹائون میں اپنے ’’عشاق‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہو کر حکومت بنانے کی دعوت دی۔ شہباز شریف کو پیپلز پارٹی کے سربراہ سمیت تمام رہنمائوں سے رابطہ کا ٹاسک دیا۔

آصف زرداری بلاول بھٹو کے ہمراہ لاہور پہنچ گئے نگراں وزیر اعلیٰ محسن نقوی کے گھر پر ملاقات میں قومی مخلوط حکومت پر اتفاق ہوگیا تاہم مزید مذاکرات کا راستہ کھلا رکھا گیا۔ ایم کیو ایم، جے یو آئی، ق لیگ اور دیگر جماعتوں کے اتحاد سے قومی اسمبلی میں 169 ارکان حکومت بنائیں گے۔ اب تک کے اندازوں کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف اور صدر آصف زرداری ہوں گے۔ فی الحال اختلافات موجود ہیں۔ آصف زرداری نواز شریف سے صدر بننے کو کہہ رہے ہیں تاکہ بلاول بھٹو کا راستہ صاف ہوسکے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس 29 فروری تک بلانا لازمی ہے۔ جس میں ارکان حلف اٹھائیں گے اسپیکر ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہوگا جس کے بعد وزیراعظم منتخب کیا جائے گا۔ پنجاب میں ن لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر کے ساتھ مل کر حکومت بنائے گی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اور بلوچستان میں وفاقی کی طرح مخلوط حکومت بنے گی۔ خدانخواستہ اتحاد نہ ہو سکا تو پھر بہت کچھ ہوگا۔

تبصرے بند ہیں.