سیاسی بخار اہم مراحل میں

56

بخار ماپنے کیلئے استعمال کیے جانے والے تھرما میٹر پر 110 درجے تک حرارت دیکھی جا سکتی ہے لیکن بخار اس درجے پر پہنچنے سے بہت پہلے انسان اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے۔ سیاسی بخار ماپنے کا آلہ ابھی ایجاد نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود اندازہ ہو جاتا ہے بخار کس درجہ تک چڑھ چکا ہے یا اتر چکا ہے۔ سیاسی بخار کی کئی قسمیں ہیں، الیکشنی بخار یعنی انتخابی بخار اسکے اترنے کے بعد حکومتی بخار ضرور چڑھتا ہے حکومت بننے کے ساتھ ہی یہ بخار بھی اتر جاتا ہے اسکے بعد انتشار بخار چڑھتا ہے اور اسوقت تک چڑھا رہتا ہے جب تک حکومت کمزور نہیں ہوتی، پھر حکومت ختم ہونے کے ساتھ ہی انتشار بخار ختم ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں پہلا بخار اپنا زور توڑ چکا ہے اب ملک دوسرے بخار کی زد میں ہے، مرکز اور صوبوں میں حکومت سازی کیلئے کوششوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ انتخابات میں شکست کھانے والے گھروں میں ڈیروں میں بیٹھ گئے ہیں جبکہ جیتنے والے فتح کے جشن منانے میں مصروف ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں ہمارے ایٹم بم کی طرح خوف دامن گیر ہے کہ انتخاب جیتنے کے بعد انہیں کوئی اغوا نہ کر لے پس وہ بھی کسی نامعلوم مقام پر منتقل ہو چکے ہیں لیکن یہ نامعلوم مقام بھی عجیب ہے جن سے چھپنے کیلئے وہ یہاں چھپتے ہیں انہیں سب سے پہلے اس مقام کی خبر ہو جاتی ہے یہ سب کچھ ٹیکنالوجی کی بدولت ہے اس حوالے سے انسان کا موبائل فون مخبر کا کردار ادا کرتا ہے اور بتا دیتا ہے کہ کون کہاں چھپا ہوا ہے اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وائرلیس فون یا سیٹلائٹ فون استعمال کر کے وہ نظروں سے اوجھل رہ سکتا ہے تو یہ اسکی بھول ہے وائر لیس میں بھی سگنل آتے ہیں اور خود اپنے استعمال کرنے والے کا پتہ دیتے ہیں۔ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے کچھ ممبران قومی و صوبائی اسمبلی نے اپنے پسندیدہ اغوا کنندگان سے خود رابطہ کر کے درخواست کی ہے کہ انہیں سایہ عاطفت میں جگہ دے دی جائے، وہ موج میلہ کر رہے ہیں اور سب سے زیادہ موج میں ہیں۔
حالیہ الیکشن بخار عجیب قسم کا تھا ایک مرتبہ 1970 میں ایسا بخار پھیلا تھا لیکن اس کے بعد ماہرین نے اس وبا پر قابو پا لیا، الیکشن بخار پر قابو پانے کے لیے ہر مرتبہ ریڈ الرٹ کی سی کیفیت ہوتی ہے لیکن الیکشن بخار کی تاریخ دیکھتے ہوئے خیال کیا جا رہا تھا کہ کوئی خاص مسئلہ درپیش نہیں ہو گا۔ اطمینان کی چادر اوڑھے سونے والے لمبی تان کر یوں سو گئے کہ انہوں
نے بخار پھیلنے سے قبل خوب خوب ویکسینیشن کی تھی لیکن اس مرتبہ بخار منہ زور تھا یا ویکسین کمزور تھی، معاملہ کچھ بھی ہو بخار نے اپنا کام دکھا دیا۔ بعض بخار جاتے جاتے اپنی نشانی چھوڑ جاتے ہیں، کسی کو چہرے پر کسی کو کہیں اور دانے نکل آتے ہیں کسی کو کہیں سوجن ہو جاتی ہے، الیکشن بخار بھی اپنی نشانیاں دے گیا ہے درجنوں افراد کے منہ سوجے ہوئے ہیں اور عرصہ دراز تک سوجے رہیں گے۔ ظالم بخار نے کئی سیاستدانوں کو میدان سیاست سے شاید ہمیشہ کیلئے باہر کر دیا ہے ان میں چودھری نثار علی خان اور سرور خان شامل ہیں، دونوں کو انکے ووٹرز نے انکی پرفارمنس کی سزا دی ہے۔ سرور خان پارٹیاں بدلنے کی شہرت رکھتے ہیں جبکہ چودھری نثار بعد از انتخاب گوشہ نشینی اختیار کر لیتے تھے لہٰذا دونوں کے ووٹرز نے درست فیصلہ کرتے ہوئے انہیں مکمل آرام کا موقع دیا ہے۔

سابق وزراء اعلیٰ صوبہ خیبر پرویز خٹک اور محمود خان بھی الیکشن میں شکست کھا گئے سینئر سیاستدان پرویز صالح حیات کو انکے حلقے کے عوام نے مسترد کر دیا۔ استحکام پاکستان پارٹی کے پیٹرن انچیف جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کی امیدیں خاک میں مل گئیں، بزرگ راولپندی شیخ رشید گذشتہ بیس برس سے کہتے نظر آئے کہ یہ الیکشن انکا آخری الیکشن ہو گا لیکن ہر مرتبہ وہ عہدے اور اقتدار کی محبت میں الیکشن کے میدان میں آ گئے اس مرتبہ وہ ہمیشہ کیلئے تائب ہونے کا اعلان کر دیتے تو انکی عزت بچ جاتی لیکن انہوں نے زندگی کا آخری جوا کھیلنا زیادہ مناسب سمجھا جس میں انہیں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ راولپنڈی نے انہیں ووٹ دے کر منتخب کرنے کے بجائے ٹھینگا دکھایا اور ہمیشہ کیلئے سیاست سے آؤٹ کر دیا۔ وہ جیل میں ہونے کے باعث اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کر سکے انہیں پوسٹل بیلٹ نہ مل سکا، الیکشن ختم ہوتے ہی انہیں رہائی مل گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن صوبہ خیبر سے اپنی نشست پر کامیاب نہ ہو سکے لیکن وہ بلوچستان میں پشین کی نشست سے کامیاب رہے۔ نواز شریف مانسہرہ کی نشست سے ہار گئے، انکے سمدھیانے نے انہیں ووٹ نہیں دیئے۔ اسی طرح بلاول بھٹو لاہور کے حلقے سے کامیاب نہ ہوئے لیکن سندھ سے منتخب ہو گئے، شریف خاندان کے تمام افراد جناب نواز، شہباز، مریم اور حمزہ کامیاب رہے، اسی طرح آصف زرداری صاحب، بلاول، فریال کامیاب رہے۔ ایک ہی خاندان کے سب سے زیادہ افراد کی کامیابی کا ریکارڈ لاہور کے کھوکھر خاندان کے ہاتھ آیا، انکے خاندان سے پانچ افراد کامیاب ہوئے ہیں حلقہ این اے 125 سے افضل کھوکھر اور سیف الملوک کھوکھر، فیصل ایوب عرفان شفیع کھوکھر اور محمد شہباز کھوکھر کامیاب رہے۔ ہمایوں اختر خان لاہور کا حلقہ چھوڑ کر تاندلیانوالہ کے حلقے سے الیکشن لڑ رہے تھے۔ مقامی ووٹرز نے انہیں مسترد کر دیا وہ شکست کھا گئے، مولانا فضل الرحمن کے ایک بیٹے اپنی نشست ہار گئے جبکہ انکے ایک بیٹے جیت گئے یوں خوشی اور غم ساتھ ساتھ انکے گھر داخل ہوئے۔

عام انتخابات میں ملک بھر سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کیلئے 13 خواجہ سرا امیدوار میدان میں تھے جن میں سے کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ خیال تھا کہ صوبہ خیبر کے دیہاتی حلقے سے شاید کوئی خواجہ سرا کامیاب ہو جائے لیکن واضح ہوا کہ صوبہ خیبر کے عوام نے الیکشن میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا، خواجہ آصف سیالکوٹ سے اپنی نشست بمشکل جیتے ہیں لیکن انکے مخالفین کا کہنا ہے 2018 کے الیکشن کی طرح انہیں اس بار بھی غیبی مدد ملی۔ غیبی امداد اور بھی کئی شخصیات کو ملنے کی اطلاعات آ رہی ہیں اس امداد کے ملنے کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا لاہور سے آزاد امیدوار یاسمین راشد نے ایک لاکھ سے زائد ووٹ حاصل تو کیے لیکن وہ اپنی زندگی کا چوتھا الیکشن ہارگئیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ وہ اپنا یہ پہلا الیکشن جیت چکی تھیں کہ کچھ خاص ہو گیا اور وہ ہار گئیں۔ ملک کا وزیر اعظم اور صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کون ہونگے فیصلہ آئندہ 48 گھنٹوں میں سو جائیگا۔ پیپلز پارٹی کی پوزیشن بہت اہم ہو گئی ہے۔ بلاول بھٹو ایک مضبوط امیدوار برائے وزیر اعظم ہیں جبکہ مریم نواز اس دوڑ سے آؤٹ ہیں، انکی جگہ شہباز شریف ہیں جنہیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پسند کیا جاتا ہے، جنرل باجوہ نے بتایا تھا کہ نواز شریف بولتے ہیں، خان بحث کرتا ہے جبکہ شہباز شریف صاحب کو جو کچھ بھی کہیں خاموشی سے سنتے رہتے ہیں آگے سے بولتے ہیں نہ بحث کرتے ہیں، کچھ لوگوں کا میرٹ ہی انکے راستے کی دیوار ہے جبکہ کچھ لوگوں کا ڈی میرٹ ہی انکی سب سے بڑی خوبی ہے۔ آپ اسے پاکستانی مکروہ جمہوریت کا حسن سمجھ کر قبول فرمائیں۔ زہر کے گھونٹ ہمارے اور آپ کے لیے ہی تو ہیں، سیاسی اشرافیہ کے لیے ہر طرف امرت۔ سیاسی بخار کا اہم مرحلہ آخری مراحل میں ہے۔

تبصرے بند ہیں.