آج پاکستان کی سیاسی تاریخ کے 12 ویں عام انتخابات ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے مطابق میاں محمدنواز شریف پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم منتخب ہو رہے ہیں لیکن اِس حقیقت کو ابھی صراط کے بہت سے سیاسی پلوں سے گزرنا پڑے گا ۔مرکز میں اگر نواز حکومت بنتی ہے تو کیا پنجاب میں بھی بن پائے گی؟ اوراگر پنجاب میں نہیں بنتی توکیا میاں محمد نواز شریف کو مرکز بغیر پنجاب کے قابلِ قبول ہو گا ؟کیا مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی نشستیں جمع ہو کر ن لیگ سے کم ہوںگی ؟اگر میاں نواز شریف اکثریت لے بھی جاتے ہیں تو حکومت بنانے کیلئے انہیں اتحادیوں کی ضرورت پڑے گی اور یہ اتحادی تحریک انصاف یا پیپلز پارٹی تو نہیں ہو گی اور اگرالیکشن کے بعد تحریک انصاف کا پنجاب اورخیبرپختون خوا سے صفایا بھی کرنامقصود ہوا تو انہیں پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانا ہو گی اس صورت میں تحریک انصاف کے وفادار کسی صورت بھی نواز شریف اورآصف علی زرداری کے اتحاد ی تو ہوں گے نہیں لیکن اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ مل کر حکومت بناتے ہیں تو پاکستان پیپلز پارٹی تحریک انصاف کو کسی صورت زیر عتاب نہیں آنے دے گی کہ اِس ملک میں پاکستان پیپلز پارٹی سے زیادہ دکھ کسی نے نہیں دیکھے سو وہ ایک تیر سے دو نشانے لازمی کرے گی ایک تو تحریک انصاف کے ورکر کی ہمدردیا ں سمیٹے گی اوردوسرا اُسے تحریک انصاف کی موجودگی میں پیپلز پارٹی مضبوط کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اگر ایسی صورت حال بنتی ہے تو پھر تحریک انصاف کے بچے کھچے ارکان اسمبلی کے پاس یا تو استحکام پاکستان پارٹی بچے گی یا پھر انہیں اپنی آزاد شناخت کے ساتھ اسمبلی میں رہنا پڑے گا اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈرز جن میں سے امیدواروں نے منتخب ہو کراسمبلی میں آنا ہے مجھے اُن کی وفاداری عمران نیازی سے تو مشکوک ہی دکھائی دے رہی ہے کہ جو آج تک عمران نیازی کی رہائی کیلئے نہیں نکلے وہ اسمبلی میں پہنچا کر یکلخت کیسے بھگت سنگھ یاچی گویرا بن جائیں گے جب کہ ایک آسان زندگی انہیں سامنے نظر آ رہی ہو گی۔
سیاست کا بے رحم عمل مفادات و نظریات کا کھیل ہے اور سیاسی چکی کے اِن دو پاٹوں کے درمیان جو بھی آ جائے وہ کچلا جاتا ہے یہی تاریخی سچ ہے۔ مسلم لیگ ن کی استحکامِ پاکستان پارٹی سے انتخابی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہے، حکومتی اتحاد نہیں اور ویسے بھی ہر اتحاد کی پہلی شرط ہی یہ ہوتی ہے کہ اُس نے ٹوٹنا ہوتا ہے یہ خواہ کسی کے درمیان بھی ہو۔تاریخی سیاسی سچ تو یہی ہے اب اگر اِس سے آنکھیں چرائیں گے تو اپنا ہی نقصان ہے ۔ ابھی کل کی بات ہے کہ چودھری ظہور الٰہی خاندان سے میاں برادران کی لمبی رفاقتیں تھیں۔ 1985ء سے 1997ء تک ایک طویل سیاسی سفر اکھٹے طے کیا لیکن 1997ء میں تمام تعلقات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میاں نواز شریف نے اپنے دہائیوں پرانے محسن پرویز الٰہی کو، جنہوں نے اپنی ساری سیاست نواز شریف کے پلڑے میں ڈال دی تھی، پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنانے کے بجائے اپنے بھائی میا ں شہباز شریف کو فوقیت دی اور پرویز الٰہی کو سپیکر پنجاب اسمبلی بنا دیا گیا۔ یہی وہ زخم تھا جسے الٰہی خاندان نے پرویز مشرف کی حمایت کر کے بلکہ اُس کے معاون و مددگار بن کر رفو کیا۔ سیاست کے وعدے بھی معروضی ہوتے ہیں جو حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ عوام کو دیا گیا سیاستدانوں کا منشور اور سیاستدانوں کے آپسی عہد و پیمان ایک جیسے ہی ہوتے ہیں جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔
اگر میاں نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیلئے عبد العلیم خان کا نام بھی ہر زبان پر ہے۔ مرکزکا ماڈل کوئی بھی بنے لیکن پنجاب کے وزیر اعلیٰ عبد العلیم خان ہی ہوں گے کہ نظر آتی نشستوں کی تقسیم میں استحکام ِ پاکستان پارٹی بظاہر چھوٹی جماعت دکھائی دے رہی ہے لیکن ابھی کل تو 10 نشستوں والا وزیر اعلیٰ پنجاب پر حکمرانی کر کے گیا ہے۔ اِس کے علاوہ عبدالعلیم خان کے رابطے میں تحریک انصاف کے بہت سے امیدوار ہیں جو اپنے اپنے علاقوں میں ہیوی ویٹ ہونے کے علاوہ ناصرف عبد العلیم خان کی گڈبک میں ہیں اور متوقع جیتنے والے امیدوار بھی عبد العلیم خان سے بہت زیادہ قریبی رابطے میں ہیں۔ سو جو مجھے نظر آ رہا ہے یا جو میں گھوڑو ں کے منہ سے سن رہا ہوں پنجاب کے وزیر اعلیٰ عبد العلیم خان ہی ہوں گے اور جہاں تک تحریک انصاف کا پروپیگنڈ ہ ہے کہ خلائی مخلوق یہ الیکشن اپنی مرضی سے کرا رہی ہے تو پھر بھی یہ قرعہ وزارتِ اعلیٰ عبد العلیم خان کے نام ہی نکلے گا کیونکہ ابھی کل کی بات ہے کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف نے کہا تھا کہ ’’عمران احمد خان نیازی نے بزدار کوہٹا کر عبد العلیم خان کو وزیر اعلیٰ بنانے کا وعدہ کر لیا تھا اور عبد العلیم خان کو اسلام آباد بلا لیا گیا تھا لیکن آخری وقت میں عمران نیازی اپنے وعدے سے مُکر گئے‘‘۔ سو زمینی حقائق کے طرف جائیں یا پھر اسے طاقت کا استعمال سمجھیں جیسا کہ تحریک انصاف کے امیدوار افواہ پھیلا رہے ہیں، پنجاب کا اقتدار اس بار عبد العلیم خان کے حق میں ہی ہموار دکھائی اور سنائی دے رہا ہے۔ عبد العلیم خان کے وزیر اعلیٰ بننے سے تحریک انصاف کے ورکروں کی ایک بڑی تعداد جو ابھی تک گھروں میں دبکی بیٹھی ہے باہر نکل آئے گی کیونکہ عبدالعلیم خان سے اُن کے پرانے روابط ہیں اور یوں پنجاب پر چھائے نحوست کے یہ باد ل بھی چھٹ جائیں گے جو 9 مئی سے لے کر آج تک ہمارے سیاسی اُفق پرچھائے ہیں۔ کل الیکشن ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اہم ترین الیکشن جس نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کی سمت کا تعین کرنا ہے۔ ووٹ دینا ہر پاکستانی کی اولین ذمہ داری ہے کہ پاکستان کے عوام جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ آخری فیصلہ پرچی نے کرنا ہے برچھی پکڑنے والے اور بیلٹ کی بات کر کے بُلٹ چلانے والے اپنی دکان بڑھا چکے۔ ہم نے ایک بہترین پاکستان کیلئے، بہترین لوگ کا انتخاب کرنا ہے اور یہ انتخاب صرف اور صرف عوامی ووٹ سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کا عام آدمی محرومیوں کا شکار ہے اور وہ کسی انارکی یا نا پسندیدہ حالات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ الیکشن کے بعد کے حالات انتہائی دلچسپ اور دیکھنے لائق ہوں گے کیونکہ بہت سے بت ٹوٹ چکے ہوں گے اور بہت سے بھٹکے ہوئے خیالات کو یکجا ہونا پڑے گا۔ بہت سے ڈراؤنے خواب اپنی تعبیروں سمیت دفن ہو چکے ہوں گے۔ پاکستان کے نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ تبدیلی کے دو ہی طریقے ہیں یا تو ارتقا کا، جس کا مطلب قدرتی طور پر کسی شے کا وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہونا اور دوسرا انقلاب کا، جس میں ایک منظم تنظیم انسانوں کے بڑے منظم اجتماع کے ساتھ سب کچھ الٹا پلٹا کر رکھ دیتی ہے۔ جمہوریت کے لبادے میں پاکستانی بچوں کو جعلی تبدیلی اور نقلی انقلاب کی ترغیب دینے والے اپنے انجام کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ انقلاب کے داعیوں نے جعلی جمہوریت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے لیکن حالات اِس وقت ایک پُرامن پاکستان کا تقاضا کر رہے ہیں۔ ریاست ہے تو انقلاب اور جمہوریت کا ہر تجربہ کیا جا سکتا ہے لیکن اگر یہ جغرافیہ ہی خدا نہ کرے غیر محفوظ ہو جاتا ہے تو سب اپنی اپنی تجربہ گاہیں اٹھا کر رفوچکر ہو جائیں گے اور بچ جائیں گے خاک اورخون میں لتھڑے عام پاکستانی! سو عقابی آنکھوں سے اپنے مستقبل اور دشمنوں کو پہچانو کہ ہمارے پاس ابھی کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ بس اتنا یاد رہے کہ کل الیکشن ہے اور آپ نے اپنے گھروں سے نکل کر پاکستان کو ووٹ دینا ہے۔ افراد سے بالاتر ہو کر اپنے ضمیر کی آواز اور اپنے ایمان کے ساتھ… کھیل تماشے تو پھر بھی ہو سکتے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.