بلاول بھٹو کیلئے مفید مشورہ۔۔۔۔۔۔؟

16

کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے ایک رفوگر رکھا ہوا تھا، وہ کپڑے نہیں باتیں رفو کرنے کا ماہر تھا،وہ بادشاہ سلامت کی ہر بات کی کچھ ایسی وضاحت کردیتا کہ سننے والے سر دھننے لگتے کہ واقعی بادشاہ سلامت نے صحیح فرمایا، ایک دن بادشاہ سلامت دربار لگا کر اپنی جوانی کے شکار کی کہانیاں سنا کر رعایا کو مرعوب کر رہا تھا، جوش میں آکر کہنے لگے کہ ایک بار تو ایسا ہوا کہ میں نے آدھے کلومیٹر سے نشانہ لگا کر جو ایک ہرن کو تیر مارا تو تیر سنسناتا ہوا گیا اور ہرن کی بائیں آنکھ میں لگ کر دائیں کان سے ہوتا ہوا پچھلی دائیں ٹانگ کے کھر میں جا لگا،بادشاہ کو توقع تھی کہ عوام داد دے گی لیکن عوام نے کوئی داد نہ دی، وہ بادشاہ کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھے، بادشاہ بھی سمجھ گیا کہ ضرورت سے زیادہ لمبی چھوڑ دی ہے،بادشاہ نے اپنے رفوگر کی طرف دیکھا، رفوگر اٹھا اور کہنے لگا حضرات میں چشم دید گواہ ہوں اس واقعے کا دراصل بادشاہ سلامت ایک پہاڑی کے اوپر کھڑے تھے اور ہرن بہت نیچے تھا، ہوا بھی چل رہی تھی ورنہ تیر آدھا کلو میٹر کہاں جاتا ہے جہاں تک تعلق ہے آنکھ کان اور کھر کا تو عرض کردوں کہ جس وقت تیر لگا ہرن دائیں کھر سے دایاں کان کھجا رہا تھا، عوام  نے زور زور سے تالیاں بجا کر داد دی، اگلے دن رفوگر بوریا بستر اٹھا کر جانے لگا، بادشاہ پریشان ہو گیا، پوچھا کہاں چلے، رفوگر بولا بادشاہ سلامت میں چھوٹے موٹے تروپے لگا لیتا ہوں، شامیانے نہیں سیتا آج الیکشن سٹنٹ کے طور پر بلاول بھٹو بھی تروپے لگاتے لگاتے کپڑے سلائی کرنے لگے ہیں جس کی ایک مثال یہ ہے کہ ووٹروں کو پیچھے لگانے کیلئے اپنے منشور میں تین سو یونٹ بجلی فری کا اعلان کردیا ہے جو ناممکن ہے کیونکہ بجلی ہمارے پاس ہو تو لوڈشیڈنگ کیوں ہو بجلی پوری ہو توہمارے کارخانے کیوں بند ہوں دوسری طرف ماہر معیشت خرم شہزاد نے کہا ہے کہ 300 یونٹ تک مفت بجلی فراہم کرنا ممکن نہیں ، اقتدار میں آنے کے بعد وہی کیا جائے گا جو آئی ایم ایف کہہ رہا ہو گا، اس کے بعد بھی اگر کوئی بے وقوف بننا چاہتا ہے تو کوئی نہیں روک سکتا اللہ اللہ خیر سلہ، ایک وقت تھا بلاول بھٹو نے کہا کہ کراچی کو بھی شہباز سپیڈ کی ضرورت ہے، ہم چاہتے ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف اسی طرح کراچی آتے رہیں،پی پی چیئرمین نے کہا کہ اسلام آباد میں بیٹھے لوگوں کو اندازہ ہی نہیں سیلاب سے کیا تباہی ہوئی، مون سون سے کراچی کے انفرا اسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچا ہے بلاول نے کہا تھاکہ بلوچستان اور سندھ کے عوام کیلئے ڈی سیلینیشن کا نظام لانا ہو گا، شہباز شریف ہمارے وزیراعظم ہیں، آپ ہی ملک کے مسائل حل کرینگے اور آج وہ اپنے ہی وزیر اعظم میں کیڑے نکال رہے ہیں بلیک میلنگ کا یہ حال تھا کہ جب پی ڈی ایم حکومت کے دن تھوڑے رہ گئے تھے تو دھمکیوں پر اتر آئے تھے کبھی بجٹ منظورنہ ہونے کے نام پربلیک میل کیا تو کبھی سیلاب زدگان کے نام پربلیک میل کرکے اربوں روپے لئے بتایا جائے وہ اربوں روپے کہاں لگائے اب وہ فرمار ہے ہیں، میاں صاحب چوتھی بار وزیراعظم بنے تو وہ انتقام لیں گے جس کا کسی کو اندازہ نہیں بلاول کہتے ہیں میں ان کو جانتا ہوں ان کے دل میں نفرت اور بغض ہے، اگر میاں صاحب چوتھی بار وزیراعظم بنے تو جو انتقام وہ لیں گے کہ یاد رکھا جائے گا، میاں صاحب کا پہلا اور دوسرا دور کسی آمریت سے کم نہیں تھا، وہ کہتے ہیں پیپلز پارٹی نے ہر دور کا ظلم برداشت کیا، جیالوں نے آمر ضیاء کا ظلم برداشت کیا، نواز شریف کے پہلے اور دوسرے دور کا ظلم برداشت کیا جو آمر کے دور سے کم نہیں تھا ایسے لگ رہا ہے کہ بلاول کو جیسے نواز شریف فوبیا ہو گیا ہے، وہ کہتے ہیں میرا وعدہ ہے عوام کی آمدنی میں اضافہ کریں گے اور آمدنی دگنی کریں گے، غریبوں اور مستحق لوگوں کو 300 یونٹ تک بجلی مفت دلواؤں گا یہ نعرہ سفید جھوٹ ہے سندھ آج بھی مسائل کا شکار ہے ان کے اپنے شہر لاڑکانہ میں مسائل کے انبار ہیں، اپنے اکثریت والے شہر حیدرآباد کو تباہی بربادی نے گھیر رکھا ہے نوجوانوں کیلیے یوتھ کارڈ لے کر آئیں گے، نوجوانوں کو روزگار کے حصول کیلئے سہولتیں فراہم کریں گے، ہمیں موقع دیں پاکستان میں 30 لاکھ گھر بنا کر خواتین کو مالکانہ حقوق دیں گے ان سے پہلے بھی تبدیلی سرکار عوام کو ایسے ہی چکمے دے چکی ہے، کراچی والوں کو پینے کا پانی تک نہیں دیا 15 سال تک سندھ کے عوام سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے جبکہ پاکستان تاریخی معاشی بحران سے گزر رہا ہے، بیروزگاری، غربت بڑھتی جارہی ہے ایسے حالات تاریخ میں نہیں دیکھے، ایک طرف معاشی بحران ہے دوسری طرف معاشرے میں بحران پیدا کیا گیا ہے، پرانے سیاستدان نفرت اور تقسیم کی سیاست کر رہے ہیں، نفرت اور تقسیم کی سیاست سے ملک کو نقصان ہو رہا ہے، سیاستدانوں کو ایک نئی سوچ اور سیاست لانا ہو گی، نفرت و تقسیم کی سیاست ختم کر کے منشور اور نظریے پر سیاست کرنا ہو گی، مسئلہ صرف اتنا ہے کہ حکمران صرف اپنے لیے سوچتے ہیں، ان کے دل میں کچھ اور ہے اور زباں پر کچھ اور ہے ،سندھ حکومت عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی، ہر پانچ سال بعد پیپلز پارٹی سے کسی ایک شخص کو ربڑ سٹیمپ کے طور پر وزیراعلیٰ ہائوس میں بٹھا دیا جاتا ہے، اس کے پاس فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا، سارا اختیار ان کے پاس ہے جو سندھ اسمبلی میں نہیں بلاول ہائوس میں بیٹھتے ہیں، اضلاع کو فنڈز جاری نہیں ہوتے، پی پی نے سندھ کو مفلوج کر دیا ہے، بدین اور گھوٹکی میں گیس اور تیل کی مد میں رائلٹی کی صورت میں سندھ حکومت پیسہ وصول کر رہی تھی بتایا جائے پی پی کی سندھ حکومت نے کیا اقدامات اٹھائے تھے جو اب یہ واویلا کر رہے ہیں، چالیس سال سے فرسودہ نظام کی وجہ سے ہی عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں، اب کرپٹ سسٹم سے نجات حاصل کرنے کا موقع آ گیا، ملک میں ہر سال پانچ ہزار ارب کی کرپشن ہوتی ہے، 17 ارب ڈالر سالانہ اشرافیہ ہڑپ کر جاتی ہے، آتے جاتے حکمرانوں نے کرپشن ختم کرنے کے بجائے اسے بڑھاوا دیا، اس لئے ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کر کیا جائے ہر دور میں سیاستدانوں نے عوام کو دھوکا دیا، مہنگائی مسلط کی، بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی عام آدمی کے لیے ناممکن ہو چکی ہے، حکمرانوں نے قرضے لے کر خود ہڑپ کیے اور ادائیگی کے لیے غریبوں کا خون نچوڑا، حکمران پارٹیاں جمہوریت کا نام لے کر دھوکا دیتی ہیں، جن پارٹیوں کے اندر جمہوریت نہیں وہ ملک میں کیسے جمہوریت لا سکتی ہیں نام نہاد بڑی پارٹیوں کی پالیسیوں میں یکسانیت ہے، ملکی تاریخ میں مخصوص لیڈر ہی باری باری ملک کو لوٹنے اور غریبوں کا خون نچوڑنے آتے ہیں جس کی وجہ سے ملک معاشی دلدل کا شکار ہو چکا ہے غریب دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے اور سیاسی لٹیروں چور اچکوں کے وارے نیارے ہیں، جب قوم اپنے اور ملک کے حالات بدلنے کے لیے ووٹ کی طاقت سے چناؤ کرے گی تو ملک ترقی کی شاہراہ پر دوڑے گا بہتر ہوتا کہ بلاول بھٹو نام نہاد پارٹی منشور لیکر الیکشن لڑتے لیکن وہ تو چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا ووٹ انہیں پڑے اور وہ ”چٹ“ روٹیاں”پٹک“ دال کی طرح وزیراعظم بن جائیں بہتر ہوتا کہ وہ پی ڈی ایم میں وزارت خارجہ کے مزے اڑانے کے بعد الزام تراشیوں کے بجائے کارکردگی کی بنا پر الیکشن لڑتے لیکن وہ تو ایسے ایسے بیانات داغ رہے ہیں کہ جیسے لوگ انہیں ہی وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہوں اس لئے اب بھی کچھ نہیں بگڑا، بلاول کیلئے مفت اور مفید مشورہ ہے کہ رفوگر کی طرح چھوٹے موٹے تروپے لگائیں لمبی لمبی نہ چھوڑیں۔

تبصرے بند ہیں.