پاکستان میں عام انتخابات کے موقع پر آئین میں نگران حکومت کا نظام اس لیے لایا گیا تھا کہ الیکشن کی شفافیت آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ طور پر اتنی مؤثر ہو کہ کوئی اعتراض نہ کر سکے لیکن حالیہ الیکشن کے انعقاد سے پہلے ہی نگران حکومت کی غیر جانبداری کی دھجیاں بکھر چکی ہیں یہ وہ نگران ہیں جو ون پوائنٹ ایجنڈا پر تعینات ہوئے تھے مگر انہوں نے اپنا آئینی فریضہ انجام دینے کے بجائے ہر وہ کام کیا ہے جو ان کے فرائض میں شامل نہیں تھا۔ دنیا کے کسی جمہوری ملک کے آئین میں نگران حکومت کا تصور نہیں ہے۔ انگلینڈ اور امریکہ کو چھوڑیں آپ انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا کی مثال لے لیں نگران کہیں نظر نہیں آئیں گے مگر ان ملکوں کی الیکشن کی ساکھ پھر بھی پاکستان سے بہتر اور قابل قبول ہوتی ہے۔ پاکستان کے قانون سازوں کو چاہیے کہ نگران حکومت کی تشکیل سے متعلق آئین کی متعلقہ شق کو بذریعہ ترمیم ہذف کر کے 1973ء کے آئین کی طرف رجوع کر لیں جب نگران حکومتوں کا وجود ہی نہیں تھا۔
جہاں تک حالیہ الیکشن کی غیر جانبداری کا سوال ہے تو آپ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور اعلیٰ عدالتوں کے حال ہی میں ہونے والے فیصلوں پر نظر دوڑائیں تو آپ اگر ایمانداری سے جائزہ لیں گے تو ساری غیر جانبداری ہوا میں تحلیل ہو جائے گی۔ الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے بعد بھی اگر آپ کے دل میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش ہو تو پولیس اور ضلعی حکومتوں کا طرز عمل دیکھ لیں کہ کس پارٹی کے امیدواروں سے نامزدگی فارم چھینے جاتے رہے اور کس کے کہنے پر ریٹرننگ آفیسرز اپنے دفتروں سے غائب ہو جاتے رہے تا کہ ایک مخصوص پارٹی کے امیدوار کے کاغذات اگر چھینے جانے سے بچ گئے ہیں تو کسی طرح وہ وصول نہ کیے جائیں۔
غیر جانبداری کے بھاری بوجھ تلے دبی ہوئی نگران حکومت نے ایک اور سنہری کارنامہ انجام دیا ہے کہ پنجاب میں دفعہ 144 کا نفاذ کر کے ریلیوں اور اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی ہے جس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ صوبے میں دہشت گردی کا خطرہ ہے البتہ جو پارٹی ڈپٹی کمشنر سے اجازت لے لے گی اسے اجتماعات کی اجازت ہو گی بالفاظ دیگر ڈی سی کے این
او سی جاری کرنے پر دہشت گردی کا جو خطرہ منڈلا رہا ہے وہ ٹل جائے گا شاید اس سے ایک عام آدمی یہ سمجھ لے کہ ڈی سی کے لیٹر کو دہشت گرد بھی مانتے ہیں اور پیشگی اجازت لینے والی جماعت کے اجتماع میں تخریب کاری نہیں کرتے۔ یہ اجازت بھی بڑی مقدس ہے یہ ہر ایک کو نہیں ملتی صرف ایک کو ملتی ہے دوسرا امیدوار اجازت لینے جائے گا تو اسے پکڑ کر وہیں بٹھا لیا جائے گا کیونکہ وہ تو پہلے ہی درجنوں مقدمات میں مطلوب ہوتا ہے۔
آپ ریاستی اداروں کو چھوڑیں میڈیا لے لیں۔ آپ دنیا بھر سے 90 سے زیادہ عالمی صحافیوں کو انتخابات کی مانیٹرنگ کی دعوت دے رہے ہیں جب حکومت اتنی ہی لبرل ہے تو قطر کے الجزیرہ چینل کے اخبار کی رپورٹ پڑھ لیں جس میں پاکستانی صحافیوں کے نام بھی دیے ہوئے ہیں کہ کس کس طرح صحافیوں کو اپروچ کیا جا رہا ہے کہ ایک جماعت کی انتخابی مہم کو ٹی وی پر نہیں دکھانا اس پارٹی کے پرچم لیڈران پہ کوئی بھی تشہیر نہیں کرنی اور اس پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرز کو بطور آزاد امیدوار رپورٹ کرنا ہے۔
انتخابات کے موقع پر ایک غلط انڈیکیٹر ایسا ہے جسے پر حکومت اور ہر اپوزیشن اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے اور عوام اپنی جہالت کی وجہ سے قائل ہو جاتے ہیں۔ آپ نے سنا ہو گا کہ ہر پرانی حکومت نئی حکومت کے خلاف پراپیگنڈا کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ہمارے دور میں اشیاء کی قیمتیں یہ تھیں جبکہ ہمارے بعد ان میں اتنا اتنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ معاشی اشاریہ ایک بہت بڑا دھوکہ ہے جو بھی برسراقتدار حکومت ہوتی ہے اس کی معاشی پالیسیوں کے اثرات ڈیڑھ سے دو سال بعد ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں اکثر اوقات تب تک دو حکومت جا چکی ہوتی ہے اور مہنگائی کا وہ چکر جو گزشتہ حکومت کے دور میں شروع ہوا ہوتا ہے وہ سائیکل مکمل ہونے تک حکومت بدل چکی ہوتی ہے اور مہنگائی کو نئی حکومت کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے مثال کے طور پر اسحاق ڈار جب نواز شریف کے تیسرے دور میں وزیر خزانہ تھے تو ان کی معاشی پالیسیوں کے mature ہونے تک تحریک انصاف کی حکومت تھی تو مہنگائی کا سارا الزام ان پر آگیا اسی طرح عمران خان کے تاریخی قرضوں اور کرنسی ڈی ویلیویشن کے بعد PDM کی حکومت کے درمیان جو مہنگائی کے ریکارڈ بنے اور تحریک انصاف کی معاشی پالیسی کا ثمر تھے یہ ایک سلسلہ ہے نہ ختم ہونے والا سلسلہ جو جاری رہتا ہے۔ اس پس منظر میں اگر 2014ء میں روٹی 4 روپے کی تھی جیسا کہ نواز شریف ہر جلسے میں کہتے ہیںتو 2018ء تک کی ان کی معاشی پالیسیوں سے جو مہنگائی ہوئی اس وجہ سے اور بعد کی حکومت کی پے در پے contribution سے روٹی آج 20 روپے کی ہے جس کے سب ذمہ دار ہیں۔
ن لیگ لاہور میں اپنے حلقوں سے سویپ کرے گی کیونکہ لاہور خصوصاً پرانے لاہور کے لوگ بڑے روایت پرست ہیں گوال منڈی والے انہیں اس لیے ووٹ دیتے ہیں کہ یہ ان کا آبائی علاقہ ہے پرانے لاہور کی اپنے پرانے رہائشیوں سے محبت کا یہ حال ہے کہ جو لوگ پرانے لاہور سے جا چکے ہیں وہ کبھی اپنے پرانے علاقوں میں چکر لگائیں تو دکاندار ان سے پیسے لینے سے انکار کر دیتے ہیںیہ لاہوریوں کی محبت ہے۔
الیکشن کی پری پول پوزیشن کے ساتھ ساتھ پوسٹ پولنگ کا ذکر بھی ضروری ہے اس دفعہ پی ٹی آئی سے پارٹی نشان چھن جانے کی وجہ سے ان کے سارے امیدوار آزاد ہیں ان میں سے جو بھی جیتے گا اس پر ریاستی دباؤ اور لالچ کئی گنازیادہ ہو گا اور تاریخ کی سب سے بڑی ہارس ٹریڈنگ کا دروازہ کھل جائے گا۔ ن لیگ قومی اسمبلی کی 120 سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے جبکہ حکومت بنانے کے لیے 159سیٹ درکار ہیں لہٰذا الیکشن کے بعد سیاسی جوڑ توڑ بہت زیادہ شدت اختیار کر جائے گا۔ ان حالات میں اگر ن لیگ اقتدار میں آجاتی ہے تو اس کی اخلاقی ساکھ اور سیاسی قدوقامت متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گی۔
عمران خان اگست 2023ء سے جیل میں ہیں انہیں سزائیں سنائے جانے کا عمل جاری ہے۔ اگر ان کی جگہ نواز شریف پس زندان ہوتے تو اب تک بین الاقوامی شخصیات مداخلت کرچکی ہوتیں جیسا کہ ہر دفعہ ہوتا ہے۔ عمران خان نے امریکہ سے تعلقات سائفر کی وجہ سے خراب کر لیے۔ سعودی عرب کے ساتھ ان کے تعلقات سعودی تحفے فروخت کرنے کی وجہ سے خراب ہو گئے۔ ان کے لیے آخری امید ان کی سابقہ اہلیہ جمائما خان ہیں جو انگلینڈ سے کوئی ایسی مہم چلا سکتی ہیں جو ان کے سابقہ شوہر کو رہائی دلا سکے۔ یہ جمہوریت یا سیاست نہیں ایک طاقتور طبقے کے دو افراد جو ملک کے ایلیٹ طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں ان کی آپس کی جنگ ہے۔
تبصرے بند ہیں.