نواز شریف کے ہاتھ میں قسمت کی ڈیجیٹل لکیر

52

سائنسی بنیادوں پر سگنل بھیجنے کے دو طریقے ہیں۔ پہلا اینالاگ اور دوسرا ڈیجیٹل کہلاتا ہے۔ اینالاگ سسٹم میں سگنل یا پیغام رفتہ رفتہ آگے بڑھتا ہے۔ اس کی بہترین مثال میں ڈائل والی پرانی گھڑیاں ہیں جن پر سوئی ٹک ٹک کرکے دھیرے دھیرے آگے جاتی تھی۔ دوسری شاندار مثال ہمارے نظامِ شمسی کی ہے یعنی سورج، چاند، ستارے سب اپنی مخصوص رفتار کے ساتھ آہستہ آہستہ آگے بڑھتے رہتے ہیں اور منزل تک جاپہنچتے ہیں۔ گویا اینالاگ میں اچانک نمودار ہو جانے یا اچانک غائب ہو جانے کا تصور نہیں ہے۔ سگنل یا پیغام بھیجنے کا ڈیجیٹل طریقہ اینالاگ طریقے سے بالکل الٹ ہے۔ ڈیجیٹل طریقے میں پیغام آہستہ آہستہ آگے جانے کے بجائے ایک دم ٹارگٹ تک پہنچایا جاتا ہے۔ اس سسٹم میں صرف دو مقام ہوتے ہیں۔ پہلا صفر، دوسرا نمبر وَن۔ یعنی سگنل ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ اس کی بہترین مثال جدید کمپیوٹر ہے۔ انگلی کی ایک کلک سے مطلوبہ نتائج حاصل ہو جاتے ہیں۔ گویا ڈیجیٹل سسٹم میں اچانک نمودار ہو جانے یا اچانک غائب ہو جانے کا تصور ہے۔ اینالاگ اور ڈیجیٹل نظاموں کی تھیوری کو نواز شریف کی سیاست پر لاگو کرنے سے حیران کن نتیجہ نکلتا ہے۔ نواز شریف کی سابقہ تینوں حکومتیں ڈیجیٹل سسٹم کے تحت قائم رہیں۔ یعنی یاتو وہ صفر تھیں یا نمبر وَن تھیں۔ مثلاً آئی جے آئی 1988ء کے انتخابات میں شکستِ فاش کھانے کے بعد کونوں کھدروں میں چھپ گئی تھی۔ آئی جے آئی کے اصلی قائد نواز شریف کی سیاست وفاقی سطح پر صفر تھی مگر رفتہ رفتہ بینظیر بھٹو کی زوروں والی حکومت جاتی رہی اور نومبر 1990ء کو نواز شریف نے نمبر وَن بن کر پاکستان کے 12ویں وزیراعظم کا حلف اٹھا لیا۔ انہوں نے کارنامے کرنا شروع کئے۔ مثلاً پاکستانی سوسائٹی میں جنرل ضیاء الحق کے دور کے ”ہینگ اوور“ کو محسوس کرتے ہوئے اسلامائزیشن کی طرف عملی قدم بڑھانے کا اعلان کیا۔ ان میں شریعت آرڈیننس، بیت المال کا قیام، یتیم اور بے سہارا لوگوں کی فلاح و بہبود اور معیشت کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنا وغیرہ شامل تھے۔ اسلامائزیشن اور کنزرویٹزم کی ان پالیسیوں کو جنرل ضیاء الحق کے دور
میں جوان اور بوڑھے ہونے والے اُس وقت کے بیشتر پاکستانیوں نے پسند کیا۔ نواز شریف نے کشمیر کا ایشو بھرپور انداز سے بین الاقوامی سطح پر اٹھایا اور ہرسال 5 فروری کو کشمیر ڈے سے منسوب کیا۔ افغانستان میں مجاہدین کے درمیان جاری جنگ کو بند کرانے کی کوشش کی اور مستحکم افغانستان کا نظریہ دیا۔ پاکستان میں کرپشن کو کم کرنے کے وعدے کئے۔ بوسیدہ مواصلاتی نظام کو انتہائی جدید بناکر انٹرنیشنل لیول پر لانا شروع کیا۔ قومی بنیادی ڈھانچے کو بہتر سے بہتر بنانے کا آغاز کیا۔ ایشیا کی سب سے پہلی موٹروے کی بنیاد رکھی۔ گرین چینل اور جدید دنیا کی کارآمد معاشی پالیسیوں کو پاکستان میں متعارف کرایا تاکہ ملک میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری آسکے۔ بینکاری نظام کو حکومتی پنجوں سے نجات دلائی۔ پاکستان میں نجی صنعت کاری کو بہت سی سہولتیں دیں۔ معیشت کو بلند سطح تک پہنچانے کے لئے فارن منی ایکسچینج کے لئے قانون بنایا۔ نواز شریف کی پہلی حکومت کی مذکورہ معاشی پالیسیاں اتنی اچھی بنیادوں پر تھیں کہ ان میں سے بیشتر کو بعد میں آنے والی تمام حکومتوں نے مختلف ناموں سے جاری رکھا۔ مطلب یہ کہ نواز شریف نے سٹیٹس کو کو ایک طرف رکھ کر حکومت کرنا شروع کی۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ اچانک اُس وقت کے صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی حکومت کو برخواست کردیا۔ یعنی ڈیجیٹل سسٹم کی تھیوری کے مطابق وہ نمبر وَن سے ایک دم صفر کردیئے گئے۔ ان کے دوسرے دور کا جائزہ لیں تو اس میں نواز شریف اپنے پہلے دور سے زیادہ طاقتور نظر آتے ہیں۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کی۔ موٹروے کا افتتاح کیا۔ مزاحمت کرنے والے صدرِ پاکستان فاروق لغاری سے استعفیٰ حاصل کیا۔ اپنی مرضی کے طابع محمد رفیق تارڑ کو صدرِ پاکستان منتخب کرایا۔ اختلاف رکھنے والے چیف آف آرمی سٹاف جنرل جہانگیر کرامت کو عہدہ چھوڑنے پر مجبور کیا۔ شریعت بل لائے۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا۔ بیرونی دنیا خصوصاً اسلامی ملکوں کے ساتھ فائدے مند معاشی معاہدے کئے۔ مختصر یہ کہ سب کچھ ٹھیک ٹھیک چل رہا تھا کہ اچانک 12 اکتوبر 1999ء کو ڈیجیٹل سسٹم کے تحت نواز شریف ایک مرتبہ پھر نمبر وَن سے صفر کردیئے گئے۔ مئی 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف پاکستان کی پہلی شخصیت ہیں جنہیں تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے کا اعزاز ملا۔ ان کا تیسرا دور بھی سیاسی طور پر زیادہ دھچکوں والا نہیں تھا۔ دھرنا سیاست کے موقع پر سب اپوزیشن جماعتوں نے نواز شریف کی حکومت کا ساتھ دیا۔ سِول اور عسکری حکام ایک ہی صفحے پر نظر آرہے تھے۔ ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لئے ہر قدم اٹھایا جارہا تھا۔ چین کے ساتھ پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ مالیت کے منافع بخش معاہدے کئے گئے۔ خطے کی قسمت بدلنے والی اقتصادی راہداری کے خواب کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا گیا۔ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے بڑے منصوبے شروع کئے گئے۔ سولر انرجی کو عام کیا جارہا تھا۔ گوادر پورٹ انٹرنیشنل پورٹ بننے جارہی تھی۔ ملک میں ادارہ جاتی کرپشن کو کسی حد تک کنٹرول کرلیا گیا تھا۔ ٹرانسپرنسی کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھا جارہا تھا۔ انٹرنیشنل معاشی ادارے پاکستان کو دنیا میں تیزی سے ابھرنے والی اٹھارویں معیشت قرار دے چکے تھے۔ اُس وقت پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات زیادہ سے زیادہ دوستی کی سطح پر تھے جو اس سے پہلے کبھی نہ تھے۔ مستقبل میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لئے انتخابی اصلاحاتی کمیشن قائم کردیا گیا تھا۔ وزیراعظم کے طور پر اُس وقت کی قومی اسمبلی میں شاید صرف نواز شریف کی شخصیت ہی ایسی تھی جس پر تھوڑی بہت گنجائش کے ساتھ سب متفق تھے۔ نواز شریف سیاست میں سب کو ساتھ لے کر چل رہے تھے۔ نواز شریف کے تیسرے دور کی مندرجہ بالا لکھی جانے والی ڈائری کو پڑھ کر آسانی سے کہا جاسکتا تھا کہ چھوٹی موٹی اونچ نیچ کے ساتھ وہ ہموار فلائٹ لے رہے تھے لیکن اُن کے سیاسی ہاتھ کی قسمت کی لکیر کو دیکھ کر یہ کہنا مشکل تھا کہ ڈیجیٹل قسمت کی لکیر غائب ہو چکی ہے یا ابھی موجود ہے۔ پھر سب نے دیکھا کہ ڈیجیٹل قسمت کی لکیر غائب نہیں ہوئی اور نواز شریف کو بہت بھونڈے انداز سے یہ کہہ کر گھر بھیج دیا گیا کہ انہوں نے بیٹے سے تنخواہ کیوں نہیں لی؟ اب چوتھی مرتبہ نواز شریف سیاسی دنگل جیتنے جارہے ہیں۔ اِس مرتبہ سب کی خواہش اور دعا ہے کہ نواز شریف کے ہاتھوں کی سیاسی ڈیجیٹل قسمت کی لکیر آن رہے اور وہ الیکشن جیتنے کے بعد وزارتِ عظمیٰ کی آئینی مدت مکمل کریں۔ یہ جمہوریت کے لیے بھی بہتر ہے اور پاکستان کے لیے بھی بہتر ہے۔

تبصرے بند ہیں.