ہندتوا، مودی کی انتخابی مہم اور متنازع رام مندر

45

بھارت جو اپنے تئیں ایک سیکولر ریاست ہونے کا دعویدار ہے اور بزعم خود اپنے اس دعوے کو اپنے اعزاز کے طور پر دنیا بھر کو دھوکا دینے کیلئے استعمال کرتا ہے ۔ اس کے اس جھوٹے دعوے کی قلعی آئے روز کھلتی اور اسکی اصلیت و حقیقت عالمی سطح پر آشکار ہوتی رہتی ہے۔ گزشتہ چند سال سے بھارت کی زمام اقتدار ایک فاشسٹ نظریات کے حامل بلکہ ان مکروہ نظریات کے ایک ایسے پرچارک کے ہاتھوں میں ہے جس کا بنیادی تعارف یہ ہے کہ آپ بغیر کسی تمہید اور تفصیل کے کہیں بھی صرف مودی کا نام ہی لے دیں یا لکھ دیں اس کا سارا کچا چٹھا کھل کر آپکے سامنے آجائے گا۔ یعنی مودی فاشزم، عدم برداشت، شدت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی کا برینڈ ٹائٹل بن چکا ہے۔ بھارت میں آئے روز جنونی ہندوئوں کے ہاتھوں اقلیتوں کے جان و مال کا جس طرح سے استحصال کیا جاتا ہے اس کی مثال شائد ہی دنیا کے کسی اور ملک سے مل سکے۔ اگر مذہب ہر کسی کا ذاتی اور انفرادی مسئلہ ہے اور کسی پر کسی قسم کا کوئی جبر اور زور زبردستی نہیں ہے تو پھر یہ ہندتوا کیا بلا ہے ۔ لغت اور اصطلاحی اعتبار سے ہندتوا ہندو قوم پرستی میں انتہا پسندی تک چلے جانے کا نام ہے۔ یعنی یہ ہندو قومیت کی بالا دستی کا متشدد نظریہ ہے جو ظاہر ہے بہت قدیم ہے لیکن ایک صدی قبل 1923 سے اس کو باقاعدہ ایک مہم کی صورت میں شدّ و مد سے پھیلانا شروع کیا گیا ۔ دور حاضر میں قوم پرست ہندورضاکار تنظیموں راشٹریہ سیوک سنگھ، وشواہندوپریشد اور ہندوسینا وغیرہ اس مشن پر کاربند ہیں۔ بھارت میں اسی متشدد نظریے ہندتوا کو مودی جیسے انتہاپسند ہندوئوں اور بی جے پی جیسی موذی سیاسی جماعتوں نے نہ صرف اپنا رکھا ہے بلکہ اسی نعرے پر وہ اپنی سیاست چلا رہے ہیں۔ یہ کہنا بھی بالکل غلط نہیں کہ مودی کی موجودہ حکومت ہندو دھرم اور ہندتوا کی بیساکھیوں کے سہارے قائم ہے جو کہ آخری سانسوں پر ہے اور مودی نے اپنے اسی پرانے دھندے کو نئی انتخابی مہم کا مرکز و محور بنا لیا ہے۔ گذشتہ انتخابی مہم میں بھی بی جے پی کا انتخابی منشور ہندوازم اور ہندتوا کا پرچار اور اس کا نفاذ تھا جس کے تحت مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا بھرپور استحصال کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ مودی حکومت نے اپنے پہلے ہی دن سے اپنے منشور پر عملدرآمد کا آغاز کر دیا۔ اس سے قبل بھی جب مودی گجرات کا وزیراعلیٰ تھا تو اسے مسلمانوں کے قتل عام اور جلائو گھیرائو کے سبب قصائی کا ٹائٹل دیا گیا تھا۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بین الاقوامی سطح پر مودی کی پہچان ایک انتہاپسند ہندو سے زیادہ کچھ نہیں۔ مودی کے موجودہ دور حکومت میں کشمیر کی حیثیت کو جس طرح سے سبوتاژ کیا گیا اور وہاں مظالم کے نئے ریکارڈ قائم کئے جا رہے ہیں اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ حالیہ صورتحال یہ ہے کہ کشمیری مسلمان بھارتی سورمائوں کی جانب سے شہید کئے جانے والے اپنے پیاروں کی نماز جنازہ پڑھنے اور انکی تدفین کیلئے بھی بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ ابھی گذشتہ دنوں مجھے آزاد جموں و کشمیر کے سرحدی علاقے کھوئی رٹہ اور نکیال سیکٹر میں جاکر وہاں کے رہنے والوں کے خیالات جاننے کا موقع ملا تو میں حیران و ششدر رہ گیا کہ دونوں طرف کے کشمیری کس قدر بہادر اور دلیر ہیں، انکے حوصلے کس قدر بلند ہیں اور وہ بھارت کی چیرہ دستیوں کو جھیلنے کے کس قدر عادی ہو چکے ہیں۔ یہ تو اہل کشمیر کے حالات ہیں خود بھارت کے اپنے شہری جو بھارت میں رہتے ہیں لیکن وہ ہندو نہیں ہیں انکی زندگیاں کس قدر اجیرن ہیں اس کا اندازہ بھی کوئی مشکل نہیں۔ کھلے یا چھپے میڈیا سب دکھاتا ہے رہی سہی کسر سوشل میڈیا پوری کر دیتا ہے۔ گلوبل ویلج اور ڈیجیٹل میڈیا کی تمام تر ترقی کا ادراک رکھنے کے باوجود بھارت میں ہندتوا کا فروغ چاہنے والے دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جوں جوں انتہاپسندی کی کارروائیاں بڑھتی جا رہی ہیں توں توں بھارت کے چہرے سے لبرلزم و سیکولرازم کا نقاب بھی سرکتا جا رہا ہے ۔اب جبکہ ہندوستان میں انتخابات کا بگل بجنے کو ہے تو مودی نے ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر مکمل کر کے اس کا باقاعدہ افتتاح کر دیا ہے۔ گزشتہ روز مسلسل کئی گھنٹے اس متنازع مندر کی افتتاحی تقریب میں موجود رہ کر اور تمام مذہبی رسومات میں شامل رہ کر مودی براہ راست اپنے ووٹرز، سپورٹرز، متشدداور انتہاپسند ہندوئوں کو پیغام دینے کی کوشش کرتا رہا کہ تمام تر ترقی و جدیدیت کے باوجود اس کا طرہ امتیاز ہندوبنیاد پرستی ہی ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کی ریاست اترپردیش میں ایودھیا کے مقام پر 1527 عیسوی میں اس وقت کے مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر نے یہ تاریخی مسجد تعمیر کرائی جسے اسی کے نام سے منسوب کر کے بابری مسجد کا نام دیا گیا۔اس جگہ ہندوئوں کیساتھ پہلا مذہبی تنازع 1853 میں ہوا جس کے بعد اکا دکا واقعات ہوتے رہے ۔1949 میں ایک بڑا اقدام یہ ہوا کہ اس مسجد کو بند کر دیا گیا جس کی بنیاد ایک بے بنیاد دعویٰ کو بنایا گیا کہ یہ مسجد رام کی جنم بھومی یعنی جائے پیدائش کو مسمار کر کے بنائی گئی تھی ۔ 1984 میں انتہا پسند ہندو تنظیم وشوا ہندوپریشدنے بھارتی جنتا پارٹی کے رہنما لعل کرشن ایڈوانی کی قیادت میںرام کی جنم بھومی کو آزاد کرانے کیلئے تحریک کا اعلان کیا اور بابری مسجد کے انہدام کی مہم کا آغاز کر دیا۔1991میں ریاست اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی اور 1992 میں بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا جس کے بعد مسلسل ہنگاموں، جلاؤ گھیراؤ، احتجاج اور پر تشدد کارروائیوں میں ہزاروں لوگوں کی جانیں گئیں مگر یہ قضیہ تنازع بن کر شدید سے شدید تر ہوتا گیا۔ مسلمانوں کو سیاسی اور قانونی ہر دو محاذوں پر بے چارگی کا سامنا رہا اور بالآخر 10 نومبر 2019 کو بھارتی سپریم کورٹ نے مودی رجیم اور ہندوتوا پرچارک ایجنڈے کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے بابری مسجد کی سرزمین کو عقیدے کی بنیاد پر ہندئووں کے حوالے کر دیا۔ 5 اگست 2020 کو نریندرا مودی نے اس جگہ متنازع رام مندر کی تعمیر کاسنگ بنیاد رکھا اوراس کی تکمیل کو آئندہ انتخابی مہم سے قبل بہر صورت ممکن بنا کر 22 جنوری 2024 کو اس کا باقاعدہ افتتاح کر دیا۔

تبصرے بند ہیں.