غالبؔ: لسانی و اُسلوبیاتی مطالعہ

132

غالبؔ کو شعراء میں یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ ان کا وہ کلام بھی محفوظ ہے جسے آغازِ شعر گوئی کہا جاتا ہے۔ کلام میں شعریت، شعری حسن اور جامعیت اور بے ساختہ پن نمایاں ترین خصوصیات ہیں۔ غالبؔ زندگی کا شاعر ہے، غالب نے زندگی کے مد و جزر اور شکست و ریخت کو بیان کیا ہے اور انسانی کمزوریوں اور اعلیٰ اقدار کو اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔ طالب علم کے خیال میں غالب کی شاعری کے بے ساختہ پن، اسلو ب طرز اور مضمون کی بنیاد پر انھیں سماجی علوم کا شاعر بھی کہنا چاہئے۔

غالبؔ فارسی اور اردو کے وہ منفرد شاعر ہیں جنھوں نے شاعری کی تمام اصناف جیسے غزل، قصیدہ، رباعی، مثنوی، ترکیبِ بند، ترجیح بند، توجیح بند،قطعہ اور مرثیہ ہر صنف میں ان کی ندرت اور رفعت کا ثانی نہیں ہے۔ جیسے کہ حافظؔ اور نظیریؔ غزل کے شاعر تھے اور عرفیؔ غزل اور قصیدے کے شاعر تھے۔ اسی طرح اردو میں اگرچہ غالبؔ کا کلام کم ہے مگر اس کے باوجود اردو کے ماتھے کا جھومر ہے۔ نثر کو دیکھیں تو ان کی فارسی کلیات نثر میں ہر طرح کی نثر موجود ہے اور فارسی کے شہرہ آفاق نثرنگار ابولفضل سے کسی بھی طرح کم نہیں ہیں۔ اردو میںمکاتیب لکھے تو اردو، اردو معلی کہلوائی۔ غالبؔ نے اپنی شاعری کے متعلق کہا تھا کہ آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں، یہ کیفیت صرف غالبؔ پر ہی نہیں بیتی غالبؔ پر تحقیق اور مطالعہ کرنے والوں نے بھی ان کی شاعری اور نثر پر مختلف زاویوں سے تحقیق کی ہے، روشنی ڈالی ہے اور مختلف مضامین باندھے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل محقق محترمہ نبیلہ ازہر کا ”کلامِ غالب کا لسانی و اسلوبیاتی مطالعہ“ کے عنوان سے ایک مقالہ، مجلس ترقی ادب نے شائع کیا تھا۔

بنیادی طور پر مقالہ لسانیات و اسلوب کے جدید تنقیدی تناظر میں اردو کلام غالب کا مطالعہ ہے۔ مقالہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ جن میں سے دو ابواب تمہیدی ہیں، کہ بنیادی موضوع کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ ان میں لسان کے بنیادی مباحث یعنی لسانیات کے تصور کی توضیح، لسانی مطالعے کی حدود، منصب اور مقاصد اور علم لسانیات کی مختلف شاخوں کا دیگر علوم سے تعلق و اشتراک بیان کیا گیا ہے۔باب دوم میں تشکیل اسلوب کے بنیادی عناصر، اسلوبیاتی تنقید اور مطالعے کی حدود پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

باب سوم عہد غالب کے لسانی پس منظر، غالب کے لسانی شعور کا تجزیہ مکاتیبِ غالب کی روشنی میں کرتے ہوئے غالب کے وہ اقتباسات نقل و اخذ کئے گئے ہیںجن میں غالب نثر گاری کے رفعتوں پر پرواز کرتے نظر آتے ہیں۔۔ باب چہارم میں اسلوبیات کے مغربی تصور کے بجائے مشرق کی صدیوں پرانی روایات کی روشنی میں تحریر کیا گیا ہے، جس کی دلیل میں مصنفہ نے ڈاکٹر شمن الرحمٰن فاروقی کا یہ اقتباس بھی نقل کیا ہے کہ ”مشرقی شعریات، مشرقی تہذیب اور مشرقی نظریہ کائنات سے ہمدردی اور واقفیت کے بغیر غالب کا مطالعہ ممکن نہیں ہوسکتا۔ غالب کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ لیکن ان کا حق ادا ہونا اسی وقت شروع ہوگاجب انھیں کلاسیکی اور جدید دونوں تصورات کی روشنی میں بیک وقت پڑھا جائے“۔ اس باب میں غالب کے کلام کی فکری سطح اور معنوی گہرائی کا جائزہ لیتے ہوئے غالبؔ کی شاعری کے صوتی محاسن پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جب کہ باب پنجم حاصلِ مطالعہ اور نتائج فکر پر مشتمل ہے۔

اس میں کلام نہیں کہ مقالہ میں تحقیقی تقاضوں کو عمدگی کے ساتھ ادا کیا گیا ہے۔ موضوع کی ا نفرادیت اور جدت نئے محققین کے لیے ایک بہترین زادراہ ثابت ہوگی۔ لیکن مقالہ نگار نے تحریر میں مشکل ترین الفاظ کا انتخاب کیا ہے، جس سے تحریر ثقیل اور بوجھل محسوس ہوتی ہے۔ سید نذیر نیازی مرحوم نے خطبات اقبال کا ترجمہ و تلخیص کی تھی۔ لیکن انہوں نے عبارت کو عربی، فارسی اور اردو کے مشکل ترین الفاظ سے پُر رکھا جس سے رواں مطالعے میں قاری کودقت ہوتی ہے۔ مقالہ کو کتابی شکل میں لاتے وقت کسی تنقید نگار اور محقق کا مقدمہ بھی شامل کرنا چاہیے تھا تاکہ موضوع مزید روشن ہو سکتا۔

مقالہ خالصتاََ ادب برائے ادب کے نظریے کے تحت لکھا گیا ہے جب کہ ہمارے معاشرتی ، سماجی اور سیاسی حالات ادب برائے ترقی، ادب برائے ارتقا اور ادب برائے مثبت تبدیلی کے متقاضی ہیں۔ مولانا غلام رسول مہر مرحوم و مغفور نے غالب کی شاعری کے عنوان سے لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں غالبؔ پر تحقیق کرنے والوں کی توجہ دلائی تھی کہ ”غالب کے جو اشعار توارد کے تحت آتے ہیں ان کی چھان بین کی جائے اور جائزہ لیا جائے کہ مرزا نے سابقہ مضامین میں کوئی خاص اضافہ کیا ؟ یا پھر ان کے فارسی اور اردو کلام کا تقابل کیا جائے آیا یہ ایک دوسرے کا ترجمہ ہے یا کسی ایک میں زیادہ وضاحت، زیادہ حسن اور زیادہ دلاآویزی پیدا کردی ہے“۔ طالب علم کی بھی غالب شناسوں سے درخواست ہے کہ موجودہ سماجی اور سیاسی حالات میں غالبؔ کے کلام اور خطوط کے وہ پہلو اُجاگر کریں جن کی روشنی میں ہم انگریز اور اس کے کاسہ لیسوں کی غلامی کے اثر سے نکل سکیں۔انگریز جب ہندوستان سے رخصت ہوا تو بظاہر ملکہ وکٹوریہ رخصت ہوئی لیکن اس رخصتی کے باوجود اختیارات کا مرکز وہی طبقے اور ادارے رہے جن کی مدد سے انگریز نے حکمرانی کی تھی۔ عوام پہلے انگریز کے براہ راست غلام تھے اور تقسیم کے بعد اس کے نمائندوں کے محکوم بنے۔ آج بھی غالبؔ کے خطوط اور شاعری اس طرح تازہ ہے اقبالؔ کے انقلابی اشعار مثلاً:
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو
گرمائو غلاموں کا لہو سوز یقین سے
کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو
کی عملی تعبیر کے لیے آج بھی ماحول دستیاب ہے۔ تقسیم کے بعد مولانا آزادؔ کا دلی کی جامع مسجد میں دیا جانے والا خطبہ آج بھی عین حالات کے مطابق محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ وجہ یہی ہے کہ محکومی کا عہد ختم نہیں ہوا ہے ۔ہم آج بھی غلام کی حیثیت میں جی رہے ہیں ، آج بھی غلامی کے خوگر ہیں۔

ادب جس نے تاریخِ انسانی کے ہر انقلاب میں اہم کردار ادا کیاہے ، ادب کی یہ قسم ہمارے یہاں اب مفقود ہو چکی ہے۔ ادیب جنھیں نظریات کی ترقی اور زوال کی اس کشمش میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے وہ آج غیر جانبدار ہیں۔ آج کے ادب میں رومانس اور محبت تو ہے لیکن سیاست اور نظریات نہیں ہیں۔

تبصرے بند ہیں.