میرے رہنما میرے ہم نوا۔۔۔۔۔۔!

60

ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی تصنیف ”میرے رہنما میرے ہم نوا“ بیک وقت قائدین، ذمہ داران، علمائے کرام، مشائخ عظام، اہلِ علم و علمی شخصیات، ملا قاتیں اور احباب و رفقاء کے تذکرے سے سجا یاہوا خوبصورت گلدستہ ہے۔ اس کے اور اپنے تعارف کے طور پر مصنف ڈاکٹر فرید احمد پراچہ لکھتے ہیں ”اپنے خاندانی پس منظر اور اپنے تحریکی تعلق کی وجہ سے زندگی بھر مشاہیر سے ملنے، ان سے تبادلہ خیال کرنے اور ان کے خیالات عالیہ سے مستفید ہونے کے بے شمار مواقع ملے۔ اسی طرح بیرونِ ملک اعلیٰ حکومتی اور قابلِ احترام دینی و علمی شخصیات سے ملنے کی سعادت بھی ملی۔ نیز زندگی بھر جن دوست و احباب اور رفقائے کار سے مِل بیٹھنے، مشترکہ جدو جہد کرنے کے مواقع ملے۔ بلاشبہ اِن کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ خواہش تو ہے کہ سب پر کچھ نہ کچھ لکھا جائے تاہم پہلے مرحلے میں اس کتاب میں ممکنہ حد تک اہم ترین قائدین اور زیادہ سے زیادہ دوست احباب کا ذکر ہے۔ تفصیلی نہیں اجمالی،محض تعارفی، محض تاثراتی“۔

مصنف کے اپنے بارے میں یہ تو ضیحی کلمات اور کتاب کا تعارف کافی حد تک چشم کشا ہے تاہم کتاب کے پیش لفظ میں جو جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما اور ادارہ معارف اسلامی کے سرپرست محترم حافظ محمد ادریس کا لکھا ہوا ہے مصنف جناب فرید احمد پراچہ کی شخصیت کا مزید احاطہ کیا گیا ہے جس سے مصنف کی شخصیت اور ان کے اندازِ فکر کی مزید وضاحت ہی نہیں ہوتی بلکہ کتاب کا بھی مزید تعارف سامنے آتا ہے۔ حافظ محمد ادریس جو خود ایک معروف کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ رقم طراز ہیں”ڈاکٹر فرید احمد پراچہ جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر اور معروف دانشور ہیں۔ وہ بیک وقت عالمِ دین، فصیح و بلیغ خطیب، مسلمہ دانشور، بہترین ادیب و قلمکار اور کاروباری معاملات میں انتہائی کامیاب اور صاحبِ فراست شخصیت ہیں۔ آپ نے اسلامی جمیعت طلبہ سے لے کرجماعت اسلامی تک کارکن اور قیادت سبھی حیثیتوں میں فرائض ادا کیے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ سکول کی زندگی میں وابستہ ہوگئے۔ پنجاب یونیورسٹی میں آئے تو اسلامی جمیعت طلبہ کی طرف سے طلبہ یونین جامعہ پنجاب کے صدر رہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت سے بانی جماعت حضرت مولانا ابو اعلیٰ مودودی سے لے کر جناب سراج الحق تک ہر شخصیت کے ساتھ ذاتی اور قریبی تعلق رہا۔ اسی طرح سیاسی میدان میں پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی کی رکنیت کے سبب سیاسی شخصیات بشمول اصحاب ِاقتدار اور حزبِ اختلاف سے تعارف اور تعلق رہا“۔ مصنف کے بارے میں ان تعارفیہ کلمات کے بعد محترم حافظ محمد ادریس ان کے اور ان
کی تصنیف کے بارے میں مزید لکھتے ہیں۔ ”فرید پراچہ قومی سطح سے اوپر عالمی سطح پر بھی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ مختلف ممالک کے حکمرانوں سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ اپنی ڈائری باقاعدگی سے لکھتے ہیں او ر پھر اُسے مرتب کرے شائع بھی کرتے ہیں۔ قارئین ان تحریروں کو شوق سے پڑھتے ہیں۔ آپ کے سفر نامے اور علمی کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں”۔ ”میرے رہنما میرے ہم نوا“ کا مسودہ پیشِ نظر ہے۔ اسے اول سے آخر تک پڑ ھتے ہوئے ذرا بھی کوفت اور تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی۔ مصنف نے سو کے لگ بھگ شخصیات سے اپنی حسین یادوں کا مرقع اس انداز میں مرتب کیا ہے کہ ہر شخصیت کا ایک دلچسپ اور منفرد پہلو سامنے آ جاتا ہے۔

پیشِ نظر کتاب ”میرے رہنما میرے ہم نوا“ اور صاحبِ کتاب ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کے بارے میں یہ تعارفی کلمات کچھ طویل ہو گئے ہیں لیکن یہ ضروری تھا کہ اس سے ہمیں جہاں صاحبِ کتاب کی شخصیت اور اُن کے اندازِ فکر و نظراور طرزِ تحریر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے وہاں کتاب کے مندرجات سے بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کے بارے میں اپنے ذہن کے نہاں خانے میں موجود یادوں کو ٹٹولوں تو گزشتہ صدی کی ستر کی دہائی کے ابتدائی برسوں سے ان سے غائبانہ شناسائی اور تعلق خاطر کا رشتہ جڑا لگتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد نئے پاکستان (موجودہ پاکستان) پر پیپلز پارٹی کی حکومت قائم تھی اور جناب ذوالفقار علی بھٹو ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک مقبول لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ آمرانہ مزاج کے مالک تھے۔ اُن کا دورِ حکومت فسطائی اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے عبارت تھا۔ مخالفین کی آواز دبانا اور انہیں پابندِ سلاسل کر نا روزمرہ کے معمولات تھے۔ جماعت اسلامی اور اس کے قائدین بطورِ خاص ان کا نشانہ تھے۔ اِن حالات میں جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمیعت طلبہ پر ان کے خلاف مزاحمت کی ایک توانا آواز کے طور پر اُبھری اور تعلیمی اداروں کی سٹوڈنٹس یونینز بالخصوص پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں پے در پے کامیابیوں نے اس آواز کو مزید توانا بنائے رکھا۔ اُس دور میں پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدور کے طور پر حافظ محمد ادریس، جاوید ہاشمی، فرید پراچہ، عبدالشکور اور لیاقت بلوچ جیسے سٹوڈنٹس لیڈر اُبھر کر سامنے آئے جنہوں نے آگے چل کر قومی زندگی میں ایسا مقام حاصل کیا کہ اُن کے ہم نوا ہیں نہیں اُن کے مخالفین بھی ان کی ا صابت رائے اور ان کی شخصیات کے اجلے پن اور مضبوط کردار کو سراہتے ہیں۔

ڈاکٹر فرید احمد پراچہ پنجاب صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کے ممبر رہے ۔ وہ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب مہتمم (سیکرٹری جنرل) کے طور پر فرائض سر انجام دیتے رہے۔ اب وہ جماعت اسلامی کے نائب مرکزی امیرکے عہدے پر فائز ہیں۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ تحریکی، فکری اور سیاسی لحاظ سے ایک ممتاز مقام کے مالک ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک بلند پایہ مصنف اور قلم کار بھی ہیں۔ ان کی تصانیف میں ’’عمرِ رواں‘‘ کے نام سے ان کی خود نوشت کے علاو چھ عدد سفر نامے اور سات عدد دینی، فکری اور نظریاتی کتب یا تصانیف بھی شامل ہیں۔ ’’میرے رہنما، میرے ہم نوا‘‘ میں جیسے محترم حافظ محمد ادریس نے کتاب کے دیباچے میں لکھا ہے، سو سے زیادہ شخصیات کا تذکرہ موجود ہے۔ شخصیات کے اس تذکرے کو پانچ عنوانات ”قائدین و ذمہ داران“، ”علمائے کرام و مشائخ عظام“، ”اہلِ علم۔۔ علمی شخصیات”۔ ”ملاقاتیں“ اور ”احباب و رفقائ“ کے تحت یکجا کیا گیا ہے۔ ہر عنوان کے تحت بہت سارے نام ایسے ہیںکہ جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اِن کے ساتھ زیادہ تر غائبانہ اور کچھ کچھ حاضرانہ قلبی تعلق خاطر اور اپنائیت کا رشتہ رہا ہے یا اب بھی موجود ہے۔ یہ نام سامنے آتے ہیں تو بے ساختہ دلِ محبت اور عقیدت کے جذبات سے مامور اور نگاہیں ادب و احترام سے جُھک جاتی ہیں۔

مفکر اسلام سید ابو اعلیٰ مودودی، میاں طفیل محمد ، چوہدری رحمت علی، پروفیسر غلام اعظم شہید، پروفیسر عبدالغفور، مولانا گلزار احمد مظاہری، مولانا نعیم صدیقی، مولانا فتح محمد، راجہ محمد ظہیر، سید علی گیلانی، شاہ احمد نورانی، پیر کرم علی شاہ الازہری، مولانا مفتی حسن نعیمی، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا عبدالرحمن اشرفی، ڈاکٹر اسرار احمد اور مولانا محمد اجمل خان وغیرہ جیسی دینی، تحریکی، علمی اور سیاسی شخصیات کا تذکرہ بلا شبہ قلبی مسرت اور راحت کا باعث ہے کہ ان کے بیانات، خطابات اور تقاریر سننے کو ملتے رہے تو ان میں سے بعض سے بالمشافہ ملاقات کا بھی شرف حاصل رہا۔

”اہلِ علم، علمی شخصیات“ ملاقاتیں اور ”احباب و رفقا“ کے کے حصے میں شامل شخصیات میں بعض کا تذکرہ کسی حد تک جامع اور مفصل ہوا ہے تو بعض کا صرف چند سطروں میں۔ لگتا ہے کہ بعض نام بالخصوص پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے متعلق نام اس خیال سے شامل کیے گئے ہیں کہ اگر یہ نام یا ان کا تذکرہ شامل ہونے سے رہ گیا تو ان کی ناراضی یا خفگی کا امکان ہو سکتا ہے۔ خیر ایسا ہے یا نہیں ۔ ”میرے رہنما میرے ہم نوا“ کو ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی ایک قابلِ قدر اور قابلِ مطالعہ تصنیف قرار دیا جا سکتا ہے جسے قلم فائونڈیشن انٹر نیشنل نے حسن طباعت کے اپنے اعلیٰ معیار کو قائم رکھتے ہوئے پر کشش اور خوبصورت گرد و پیش (گٹ اپ) کے ساتھ شائع کیا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل لکھا گیا یہ کالم کسی وجہ سے چھپنے سے رہ گیا تھا۔

تبصرے بند ہیں.