کسی بھی ریاست کی بہترین معاشی پالیسی اس کا نظام تعلیم ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں کمزور طبقوں کو طاقتور بنانے کی بات ہوتی ہے جس کا واحد ذریعہ انہیں تعلیم سے بہرہ مند کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارے ہاں تعلیم کو زیور کہا جاتا ہے مگر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ یہ زیور نہیں بلکہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے آپ معاشرتی عدم توازن اور نا انصافی کی جڑ کاٹ سکتے ہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان میں تعلیمی ایمرجنسی کی ناگزیر ضرورت ہے اور پس ماندہ علاقوں میں اس کی ضرورت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں کوہ ہندوکش کے ساتھ سوات اور گلگت بلتستان سے ملحقہ تاریخی علاقہ چترال ہے جو دریائے چترال پر واقعہ ہے۔ سطح سمندر سے 4900 فٹ بلندی پر یہ 3 کلو میٹر وادی ہے جہاں قدیم حکمرانوں کا تاریخی قلعہ پولوگراؤنڈ پھلوں کے باغات اور پہاڑی راستے ہیں جس کی وجہ سے یہ ایک سیاحتی مقام کے طور پر متعارف ہے۔ یہ علاقہ جتنا وفاقی اور صوبائی مراکز سے جتنا دور دراز ہے یہاں مقامی لوگوں کی زندگی اتنی ہی دشوار ہے۔
یہ کثیر جہتی کہانی کچھ یوں ہے کہ 1988ء میں مقامی طور پر انسانیت کے لیے درد دل رکھنے والے چند افراد نے مقامی بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے ایک چھوٹا سا سکول قائم کیا جس کے لیے تین برطانوی خواتین ٹیچرز کی خدمات حاصل کی گئیں تا کہ وہ مقامی اساتذہ کی تربیت بھی کر سکیں۔ یاد رہے کہ یہ کمرشل سکول نہیں تھا بلکہ ایک ٹرسٹ تھا جو ناٹ فار پرافٹ کی بنیاد پر کام کرتا تھا جسے بعد میں رجسٹریشن کے ذریعے قانونی حیثیت دے دی گئی۔ اس کی پہلی ہیڈ مسٹریس Juliet Siebold ایک برطانوی خاتون تھیں یہ ایک نوزائیدہ ادارہ جو تعلیم کے میدان میں اپنے لیے ایک شناخت کے لیے انتھک جدوجہد میں مصروف عمل تھا۔
اس کہانی میں نیا موڑ اور نئی قوت اور نیا ولولہ اس وقت آیا جب ایچی سن کالج لاہور کے معروف ہیڈ ماسٹر Major Geoffrey Langlands نے اپنی خدمات چترال سکول کے لیے وقف کر دیں۔
2006ء میں سکول کا نام چترال سکول سے Langlands school & college رکھ دیا گیا جو ان کی خدمات کا اعتراف تھا۔ یہ سکول اب پرنسپل Carey Schofield کی زیر نگرانی چل رہا ہے جو کیمبریج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں اور 2013ء سے اس ادارے کے ساتھ وابستہ ہیں ان کا تعلق لندن کے امیر ترین علاقے چیلسی سے ہے وہ شہرت یافتہ رائٹر اور کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں اور برطانیہ میں تعلیمی شعبے سے وابستگی کے علاوہ شاہی محل بکنگھم پلیس میں بھی خدمات انجام دے چکی ہیں۔ سکول کی ترویج و ترقی کے لیے انہوں نے اپنے پیش رو کا تسلسل برقرار رکھا ہے بلکہ اس کو اور آگے بڑھایا ہے انہوں نے بھی برطانیہ کو خیر باد کہہ کر چترال کو اپنا وطن بنایا اور اپنا جینا مرنا چترال کے ساتھ وقف کر دیا ہے۔ پاکستان کے پس ماندہ ترین علاقے میں فروغ تعلیم کی انتھک جدوجہد یہ حکومت برطانیہ نے انہیں Order of the British Empire (OBE) کے خطاب سے نوازا ہے۔ یہ پاکستان کے پرائیڈ آف پرفارمنس سے زیادہ بڑا اعزاز ہے۔
Carey Schofield نے گزشتہ ایک دہائی کے عرصے میں سکول کے انفراسٹرکچر اور تعلیمی سہولتوں میں انقلابی تبدیلیاں کی ہیں سکول میں مقامی اساتذہ کی تقرری اور بچوں کے داخلہ پالیسی کے معاملے میں 100% میرٹ کو یقینی بنانے کے لیے ہر طرح کے دباؤ کو نظر انداز کیا ہے تا کہ ادارے کی ساکھ اور قدوقامت میں اضافہ کیا جائے اس کو برطانوی تعلیمی اداروں کے برابر لایا جائے۔
Carey Schofield کا کہنا ہے کہ افراد کے مقابلے میں ادارے زیادہ اہم ہوتے ہیں ہم آج ہیں تو کل نہیں ہوں گے مگر ہم ایک ایسا نظام اور روایات تشکیل دے رہے ہیں کہ جو ہمارے بعد آنے والوں کے لیے مشعل راہ ہوں۔ ان کے مطابق ہمارا شعار Learn to lead ہے ہم متوسط درجے کی تعلیم پر یقین نہیں رکھتے بلکہ ہر مکتبہ فکر میں لیڈر شپ کے حصول کے لیے بچوں کو تیار کرتے ہیں۔
یہ ایک حیرت انگیز سکول ہے جہاں ایک بچے سے جو فیس وصول کی جاتی ہے اس کے مقابلے میں بچے پر ہونے والا خرچہ اس سے چار گنا زیادہ ہوتا ہے جو ٹرسٹ خود برداشت کرتا ہے جس کے لیے بورڈ آف گورنرز اور مخیر حضرات حصہ ڈالتے ہیں۔ اس کے باوجود ادارے کو مالیاتی چیلنجز کا سامنا رہتا ہے۔
سکول کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین اور KPK کے نگران وزیر اعلیٰ محترم محمد اعظم خان حال ہی میں انتقال کر گئے جس کے لیے سکول کی طرف سے خصوصی نشست میں فاتحہ خوانی کی گئی ابھی تک ان کی جگہ نئے چیئرمین کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔ تفریحی اجلاس میں ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
ادارہ ہذا میں انٹرمیڈیٹ تک تعلیم کا اہتمام ہے۔ میٹرک اور انٹر کے امتحانات پشاور بورڈ کے تحت ہوتے ہیں۔ داخلہ کا معیار خاصا سخت ، شفاف اور ناقابل رعایت ہے۔ بچوں کی تعلیم کے ساتھ کھیلوں اور مختلف ہنر سیکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس وقت طلبا و طالبات کی مجموعی تعداد 900 کے قریب ہے۔ سکول کی طرف سے جاری کردہ Build Pakistan پراجیکٹ میں سکول کے بچے اور بچیوں کے خیالات، ان کی خود اعتمادی اور حب الوطنی دیکھ کر لگتا ہے کہ چترال میں Carey Schofield اور ان کی ٹیم نے خام پتھروں کو تراشنے اور ہیروں کی چمک دینے کی یہ فیکٹری کتنی محنت سے تیار کی ہے۔
یہاں یہ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن خدمات کی بجا آوری کے صلے میں تاج برطانیہ نے میڈم Carey Schofield کو اپنے سب سے بڑے ایوارڈ OBE سے نوازا ہے اس حکومت پاکستان کی طرف سے اس طرح کے ایوارڈ کی زیادہ مستحق ہیں ۔ انہوں نے اپنی پر تعیش زندگی اور اپنے ملک کو ترک کر کے چترال کو اپنا گھر بنا لیا ہے جو کہ ایک روشن مثال ہے۔
اگر یہ سکول لاہور یا اسلام آباد میں ہوتا تو Carey Schofield کو اب تک مدر ٹریسا کی طرح Celebrity Status مل چکا ہوتا لیکن چترال جیسے دور دراز علاقے میں ہونے کی وجہ سے ان کی خدمات میڈیا اور ایجوکیشن فیلڈ اور عوام سے اوجھل ہیں۔ وہ خود بھی ذاتی تشہیر سے پرہیز کرتی ہیں۔ اس طرح کے ماڈل سکول پنجاب کے پس ماندہ علاقوں میں کھولے جائیں تو بے پناہ ٹیلنٹ ضائع ہونے سے بچ سکتا ہے۔
تبصرے بند ہیں.