ایک شخص جو کہ تنور پہ روٹیاں لگاتا تھا ۔وہ ایک روٹی 5روپے میں فروخت کر رہا تھا۔مگر ایک دن اُس نے سوچا کہ ایک روٹی کی قیمت کم ہے جو میں بیچ رہا ہوں اور میرے گھر کا گزر بسر بھی مشکل سے ہو رہا ہے کیوں نہ میں ایک روٹی کی قیمت بڑھا دوں مگر وہ روٹی کی قیمت بادشاہ کی اجازت کے بنا نہیں بڑھا سکتا تھا۔ وہ بادشاہ کے دربار میں پیش ہوا اور بادشاہ کے آگے درخواست کی کہ بادشاہ سلامت میں جو روٹی بیچ رہا ہوں اُس کی قیمت اتنی کم ہے کہ میں اپنے گھر کا گزر بسر بھی نہیں چلا پاتا آپ کی اگر اجازت ہو تو میں روٹی کی قیمت بڑھا دوں۔ بادشاہ نے تنور والے کو اجازت دے دی ٹھیک ہے تم روٹی 10روپے میں بیچ لو۔ تنور والے نے روٹی کی قیمت بڑھا کر دس روپے رکھ دی۔ چند روز گزر جانے کے بعد تنور والے نے پھر سے قیمت بڑھانا چاہی تو دوبارہ بادشاہ کے دربار میں پیش ہوا اور بادشاہ سے دوبارہ روٹی کی قیمت بڑھانے کی درخواست کی تو بادشاہ نے 15روپے فی روٹی کی قیمت رکھنے کا حکم دے دیا۔ مگر تنور والے نے پندرہ روپے کی بجائے روٹی کی قیمت 30 روپے رکھ دی۔تنور والے کے تنور پہ لوگوں کا رش لگا رہتا آخر جب بھوک لگنی تھی تو روٹی تو سب نے کھانی ہی تھی۔چند روز یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا آخر کار ایک دن عوام مہنگی روٹی سے تنگ آکر بادشاہ کے دربار میں پیش ہوئے کہ بادشاہ سلامت روٹی اتنی مہنگی ہے کہ ہم تو شاید بھوک سے ہی مر جائیں گے کچھ رحم کیجیے ہم پہ۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ فوری طور پہ تنور والا دربار میں پیش کیا جائے۔تنور والا دربار میں پیش ہوا بادشاہ کا دربار لگا ہوا تھارعایا بھی دربار میں تھی باشا ہ سلامت نہایت برہم ہوئے اورغصے سے حکم دیا کہ اس تنور والے کا سر قلم کر دیا جائے۔تو تنور والے نے فورا سے بادشاہ کی منت سماجت میں عافیت سمجھی۔ بادشاہ سلامت رحم کیا جائے میں بھی کیا کروں میرے گھر کا گزر بسر نہیں بہتر ہو رہا تھا مجبوراً مجھے قیمت میں اضا فہ کرنا پڑا ۔بادشاہ سلامت نے فورا سے حکم دیا روٹی کی قیمت آدھی کر دی جائے۔تنور والے شخص نے جواب دیا ؛جو حکم عالم پناہ۔اس سارے ماجرے کو دیکھنے کے بعد عوام نے تو بادشاہ سلامت زندہ باد ،بادشاہ سلامت زندہ باد،عوام بھی خوش،بادشاہ بھی مطمئن،اور تنور والے نے بھی منشا پوری کر لی۔
اس ساری بات کے کرنے کا ایک مقصد ہے ۔ذرا سوچئے!جو کام تنور والے نے کیا وہی کام ہمارے ملک میں بڑے بڑے وزیر کرتے ہیں عوام جب بلبلا کر شور مچاتی ہے تو بادشاہ پھر یوں ہی ایکشن لیتا ہے اور یوں ہی تنور والے کی طرح کلاس لگتی ہے اور پھر عوام کو بھی اسی طرح لوٹ کر بھی عوام کی نظر میں اچھے ہو جاتے ہیں۔یہی سیاست پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے پہلے سے لے کر اب تک کی جا رہی ہے۔
اس اقتدار کی پاور کو حاصل کرنے کے لیے کس کو لوٹا ،کون مارا گیا اس کی فکر کیوں ہو گی کسی کو بھلا۔اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو بادشاہ جہانگیر نے اکبر کے خلاف بغاوتیں کیں لیکن جب وہ بادشاہ بنا تو اُس کی جانب سے عوام کے لئے کوئی اصلاحات نہیں کی گئیں۔اورنگ زیب نے جب اپنے بھائیوں کے خلاف جنگیں لڑیں جن میں ہزار ہا لوگ مارے گئے تو اس کا صلہ اورنگ زیب کو ملا۔عوام نے ان جنگوں میں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہ دیکھا۔
اب میں آتی ہوں موجودہ وقت کی طرف ،مگر میں اپنے قارئین کو یہ بتاتی چلوں کہ ان دونوں باتوں میں ایک خاص مقصد ہے ایک پہلی بات میں اس ملک کی طرز سیاست کا رنگ چھپا ہوا ہے اور بادشاہوں نے ماضی میں جو جنگیں لڑی اُس وقت کے حساب سے رعایا کو بہت سہنا پڑا۔اگر آج ہم ماضی سے موازنہ کریںتو آج بھی اقتدار کی جنگ بادشاہوں میں دکھائی دے رہی ہے صرف ایک لفظ کی ہی تبدیلی آئی ہے پہلے تخت و تاج کہا جاتا تھا آج اس کو لفظ جمہوریت سے بدل دیا۔مگر ہر طرف سے ہر جمہوری دور میں پستی عوام ہی ہے۔ آج عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے مگر ہم جمہوریت کو دیکھیں کہ ایک طر ف پچھلے ماہ سے عدم اعتماد کی باتیں گردش کر رہی ہیں اپوزیشن بہت پریشان ہے کہ اس موجودہ گورنمنٹ نے عوام کو مہنگائی سے مار دیا۔اور ہم عوام کے بہت ہمدرد ہیںیہ بات جب اپوزیشن کہتی ہے تو مجھے تو کسی مزاحیہ لطیفے سے کم نہیں لگتی کیونکہ ان کے دور میں انہوں نے کیا الگ کیا انہوں نے بھی بینک بیلنس بنانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔ماضی میں پی ڈی ایم کے نام پہ جو جماعتیں اکٹھی کل کو پھر ان کی ہانڈی بیچ چوراہے پھوٹی ۔ اور اسی طرح کی پریشانی اور گھبرایٹ عوام کی محسوس کرتے ہوئے عمران خان کی ہوئی جنہوں نے بڑی بڑی باتیں کیں ۔بڑے بڑے مگرمچھوں کو چور چور کہہ کر پہلے پکڑا اور پھر بڑی پلاننگ کے ساتھ چھوڑا۔عوام کو خوشحالی کے خواب دکھائے اور اور مہنگائی کی دلدل میں دھکا دے کر بڑی آسانی سے یہ لفظ کہہ کر بری الزمہ ہو کر یہ کہنے لگے کہ مجھ سے پہلے جماعتوں نے اس ملک کو کھوکھلا کر دیا۔
اب تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی برائیاں تو خوب گنوارہے ہیں کیونکہ ان کو عوام کی بہت فکر ہے۔اسی طرح اگر ہم ن لیگ کی بات کریں تو یہاں ان کی بادشاہوں جیسی شان و شوکت ،پروٹوکول، ہی نہیں پورا ہوتا مگر جب لندن میں ہوتے ہیں تو پیدل بھی چلتے ہیں قطاروں میں بھی کھڑے ہوتے ہیں اور عام ٹرانسپورٹ میں سفر بھی کرتے ہیں اگر یہی رنگ ڈھنگ اپنے ملک میں بھی رکھتے تو آج صورتحال ملک اور عوام کی مختلف ہوتی۔یہی بات عمران خان نے بھی کہی تھی کہ اس ملک سے پروٹوکول کو ختم کیا جائے مگر آج سب سے ذیادہ اس جماعت نے ہی پروٹوکول پہ خرچ کیا۔آج ہر کوئی عوام کا ہمدرد بن کر تو نکل رہا ہے کل کو جب یہی پی پی پی اقتدار میں آئی یا ن لیگ تو یاد رکھیے ان کے بھی یہی الفاط ہونگے کہ ہم سے پہلے پی ٹی آئی نے ہی ملک کو قرضوں تلے دبا دیا اور آج ملک کی یہ صورتحال ہے۔مگر یہی الزام دھرتے ہوئے آج کئی جمہوری دور گزر گئے مگر کبھی کوئی کل سیدھی نہیں ہوسکی نہ جانے کب ان سیاستدانوں کے درمیان کوئی لیڈر پیدا ہوگا؟
نواز شریف ایک جانب تو بیان دیتے ہیں کہ میں سیاسی انتقام کی سیاست نہیں کرتا تو دوسری جانب یہ بات کہتے ہیں کہ جنہوں نے عمران خان کو صادق اور امین قرار دیا اُنہوں نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا اس طرح کے بیان سے وہ یہی ظاہر ایک بار پھر سے کر رہے ہیں کہ ان کا شاید اداروں پہ بھروسہ نہیں اگر ایک بار پھر سے اُن کے لیے جگہ بنی یا بنائی گئی ہے تو اُنہیں لیڈرانہ مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی انتقام جیسی بیان بازی سے پرہیز رکھنا چاہئے۔
سوال وہی سٹینڈ کرتا ہے کہ جانے کب جمہور بھی اقتدار میں آسکے گی یا پھر یہی خاندان ملکی خزانے کو آپس میں بانٹتے رہیں گے اور ملک کی ساکھ کو تباہ کرتے رہیں گے؟
تبصرے بند ہیں.