قرضے کب واپس ہوں گے۔۔۔۔۔۔قوم منتظر

50

کیا قومی انتخابات ہوں گے…… نہیں ہوں گے۔ عوامی اور دوسرے حلقوں سے یہ آوازیں سنائی دے رہی ہیں کہ شاید 18فروری 2024ء کو انتخابات ممکن نہ ہو سکیں۔ کچھ یہی آوازیں حکومتی حلقوں سے بھی اُٹھ رہی ہیں۔ خاص کر ملک میں دہشت گردی کی فضاء اور بلوچستان اور کے پی کے کے داخلی اور خارجی حالات بہتر نہیں ہیں اور بدامنی کی اس بڑھتی صورتحال کے پیش نظر دو صوبوں کی نگران حکومتیں انتخابات کے حق میں نہیں ہیں اور یہ بات بھی درست ہے کم از کم اگلے دو ماہ کے حالات اندرونی اور بیرونی اس بات کی اجازت نہ دیں کہ انتخابات کا بروقت انعقاد ممکن ہو سکے۔ دوسرا اہم مسئلہ ملک میں بڑھتی مہنگائی، ملکی معیشت کا نہ سنبھلنا بھی آنیوالے انتخابات پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔

گزشتہ روز کراچی میں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے تاجروں، صنعتکاروں اور کاروباری لوگوں سے خطاب کیا۔ اس خطاب کی اہم بات یہ تھی کہ تاجروں نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا کہ ابھی قومی انتخابات نہ کرائے جائیں کہ ہماری معاشی صورتحال کو بہتر کرنے میں ابھی اچھا خاصا وقت درکار ہے لہٰذا پہلے معیشت کی بہتری اور پھر انتخابات کرائیں۔ اگر ہم کراچی کے تاجروں اور صنعت کاروں کے اس مطالبے کے پس منظر میں جائیں تو اس بات کا کریڈٹ سب سے پہلے لاہور چیمبر آف انڈسٹری اینڈ کامرس کے صدر کاشف انور کو جاتا ہے جب انہوں نے لاہور میں منعقدہ ایک اجلاس جس سے آرمی چیف جنرل عاصم  نے بھی خطاب کیا تھا،میں یہی مؤقف اپنایا کہ پہلے معیشت پھر انتخابات، پھر تاجروں کی طرف سے آنے والی یہ آواز ایک سلوگن بن گئی اور اس بات کی تقویت کراچی کے تاجروں نے پہنچا دی کہ وزیراعظم صاحب پہلے آپ ملک میں بدامنی اور معاشی آئینی صورتحال کو بہتر کریں۔ یہ سب کچھ بہتر ہوگا تو انتخابات اچھے ماحول میں ہو سکیں گے پھر بقول کاشف انور کے اس وقت ملک کے اندر انڈسٹری کا لگنا، اُس کا پنپنا اور اُس کے فروغ کے لئے بڑے اقدامات کو اُٹھانا ہماری اولین ضرورت ہے۔ انڈسٹری کا پہیہ چلے گا تو ملک چلے گا۔ اُن کا یہ مؤقف بھی درست ہے کہ جس طرح آرمی چیف نے حکومت کے ساتھ مل کر معاشی صورتحال کو بہتر کرنے کے لئے جس حکمت عملی پر کام شروع کیا ہے، اُس کو جاری رکھنے کے لئے ایک وقت درکار ہے اور جس طرح آنے والے مہینوں میں جو غیرملکی سرمایہ کاری آنا شروع ہو رہی ہے، اُس کا تقاضا تو یہی ہے کہ پہلے اپنی معیشت کو تو درست کر لیا جائے۔

ہمارے نزدیک آرمی چیف جس طرح ہنگامی اقدامات اُٹھا رہے ہیں اور خاص کر ایسے حالات میں ان کا پہلا دورہ امریکہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس سے قبل وہ مڈل ایسٹ کے ممالک کے دورے کر چکے ہیں اور وہاں سے اچھی خبریں سننے کو ملی ہیں اور جس طرح اُنہوں نے پہلے معاشی صورتحال کو بہتر کرنے کے لئے دن رات ایک کر دیاجس سے ڈالر بھی اب پیچھے کی طرف آ رہا ہے۔ دوسری طرف آپ کی اسٹاک ایکسچینج کا گراف روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، اس سے لگتا ہے کہ آنے والے چند ماہ پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتری کی طرف لے جانے میں اہم ثابت ہوں گے۔

گزشتہ دنوں فاؤنڈرز کے چیئرمین میاں مصباح الرحمن سے لاہور چیمبر میں ایک تفصیلی ملاقات ہوئی۔ دوران گفتگو میں نے ان سے عمران خان کے دور میں بڑے تاجروں اور صنعتکاروں پر ایک ٹیرف کے لئے گئے قرضہ جات کے بارے میں سوال کیا کہ ایک طرف تو ملک کی معاشی صورتحال بہت خراب ہے تو دوسری طرف کرونا کے دور میں تین ارب ڈالر کی جو امداد پاکستان کو ملی اُس میں سے 22کے قریب انڈسٹری کے بڑے ناموں نے اربوں روپے کے بہت کم مارک اپ پر بڑے قرضے لئے۔ اگر ان کی ادائیگی ہو جائے اور یہی پیسہ بند ملوں، کارخانوں اور چھوٹی انڈسٹری پر لگا دیا جاتا تو بہتر نہیں تھا تو میاں مصباح الرحمن کا مؤقف بڑا واضح تھا کہ کہ کاش ایسا ہو جاتا۔ ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں، اس وقت انڈسٹری چلانا ملک کی اہم اور بنیادی ضرورت ہے۔ اگر اس وقت سیاسی تعلقات کی بناء پر پیسے کی بندربانٹ نہ ہوتی اور یہ پیسہ چھوٹے صنعتکاروں کو جن کی انڈسٹری مدتوں سے بند پڑی ہے اور وہ ملیں جو مالی بدحالی کی وجہ سے بند ہیں، اُن کو دے دیا جاتا تو جہاں وہ ملیں اور بند ادارے چلتے، وہاں آپ کی بے روزگاری میں بہت کمی واقع ہوتی۔ اُن کا یہ مؤقف بھی درست تھا کہ حکومت بڑے لوگوں کی بجائے جن کے کاروبار آگے ہی چل رہے ہیں، اُن کی بجائے چھوٹے بزنس مین کو قرضے آسان قسطوں پر دے اور یہی بہترین حل ہوتا۔

پیارے پڑھنے والو…… شاید آپ کو یاد ہوگا کہ ایوب خان کے دور میں 22 گھرانوں کی بڑی باتیں ہوا کرتی تھیں اور ان 22 گھرانوں میں چند گھرانے ایسے بھی تھے جنہوں نے آزادی کے بعد ابتدائی چار ماہ میں حکومتی خزانے کو سرکاری اداروں کے لئے تنخواہیں بھی دی تھیں اور آج کے حوالوں میں اتریں تو ہمارے ہاں یوں تو ہزاروں بڑے امیر ترین گھرانے موجود ہیں مگر ہم ذکر کریں گے ان 22 گھرانوں کا جنہوں نے عمران خان کی حکومت سے بڑے مالی فائدے اٹھائے اور اربوں روپے کے قرضے بینکوں کے ذریعے لے کر ان چھوٹے بزنس مینوں اور تاجروں کے حق پر ڈاکہ ڈالا جو اپنی بند انڈسٹری کو چلانے کے لئے مدتوں سے قرضوں کے منتظر ہیں۔ اب بڑے صنعتکاروں کی طرف سے اربوں روپے کے قرضے واپس ہوتے ہیں یا نہیں۔ یہ تو بڑے قرضے لینے والے ہی جانتے ہیں مگر ہماری آرمی چیف جنرل عاصم اور نگران حکومت سے گزارش ہے کہ جو معاشی صورتحال کی بہتری کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ وہ ان بڑے صنعتکاروں سے اربوں روپے واپس کیوں نہ نکلوائیں جو قوم کی امانت ہیں۔ گو گزشتہ ایک دو ماہ سے یہ خبریں بھی گردش میں ہیں کہ اگر ان 22سے زائد بڑے صنعتکاروں نے عمران خان کے دور میں قرضہ جات جلد واپس نہ کئے تو ان پر مقدمات چلائے جائیں گے۔ تاحال اس پر عملدرآمد تو نہ ہو سکا مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا ماضی کی طرح ان کے قرضوں کو بھی معاف کر دیا جائے گا۔ جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا کہ سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے ہم نے کھربوں روپے ڈبو دیئے۔ جن کے سبب آج بھی ان کا خمیازہ معاشی تباہی کی صورت میں بھگت رہے ہیں، عمران دور میں لئے گئے قرضوں کی میرے سامنے لسٹ پڑی میرا منہ چڑا رہی ہے جس میں آج بڑے ناموں کے آگے اربوں روپے کی وصولی کی مہر لگی ہوئی ہے۔ یہاں سوال اُٹھتا ہے کہ کیا گزشتہ دو عشروں سے ہمارے انڈسٹری اور کاروباری صنعتوں میں چھا جانے والے بڑے نام ہی یہ بڑے قرضے لینے کے حقدار ہیں اور یہ حق اُن کو کیوں نہیں دیا گیا جو اپنی بند چھوٹی بڑی انڈسٹریوں کو چلانے کیلئے بینکوں کے چکر لگاتے لگاتے اپنی عمریں گنوا رہے ہیں اور مایوس ہو چکے ہیں اور ایک وہ خاندانوں کے خاندان جو حکومتوں سے تعلقات کی آڑ میں اپنی نسلوں کو اور امیر کر رہے ہیں۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ بڑے قرضے بڑوں ہی کو کیوں دیئے جاتے ہیں۔ اگر یہاں نام لوں گا تو بڑے بڑے پردہ نشین بے نقاب ہوں گے۔ اِن میں سے بعض کی خبریں گردش زمانہ بھی ہیں۔ ہمارے نزدیک جس طرح کے حالات کا آج قوم سامنا کر رہی ہے، ایسے میں تو کسی کو ایک روپیہ قرضہ دینا بھی بڑا محال لگتا ہے، لئے گئے ماضی اور حال کے قرضے کب اور کیسے واپس ہوں گے؟ کیا قانون کا شکنجہ حرکت میں آئے گا؟ کیا بینکوں کے ذریعے بڑے لئے گئے قرضے واپس ہوں گے، نہیں ہوں گے۔ اس کا فیصلہ اب جلد کرنا ہوگا۔ اگر یہی قرضے واپس ہو جائیں تو یقین کریں کہ اس ملک کی معاشی تباہی کا آدھا مسئلہ تو انہی سے حل ہو جائے گا۔

شاید کہ تیرے دِل میں اُتر جائے میری بات

تبصرے بند ہیں.