ہر انسان میں بشری کمزوریاں ہوتی ہیں۔ البتہ اس کی سوچ، کردار اور عمومی طرز عمل کے باعث اسے دوسرے انسانوں میں قدرے انفرادیت ضرور حاصل ہو جاتی ہے۔ میاں نواز شریف کئی حوالوں سے دوسرے سیاستدانوں سے کچھ مختلف نظر آتے ہیں تو جو بھی یہ رائے رکھتے ہیں ان کے پاس سب سے بڑی دلیل نواز شریف کی قومی سوچ اور ملکی مفاد کو اولین ترجیح دینے کا جذبہ ہے جبکہ ن لیگ کے مخالفین اپنے دلائل رکھتے ہیں۔نواز شریف کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ قومی یکجہتی کی شدید ترین خواہش رکھتے ہیں۔ نجی اور پارٹی کی خصوصی محفلوں میں کئی بار یہ بات ان کی زبان سے سنی گئی کہ یہ سندھ کے قوم پرست لیڈر اپنی قائدانہ صلاحیتیں سندھی قوم پرستی میں ضائع کرنے کی بجائے پاکستانی قوم پرستی کے فروغ کیلئے بروئے کار کیوں نہیں لاتے۔ ذریعہ کے مطابق انہوں نے ایاز لطیف پلیجو، جلال شاہ اور قادر مگسی سے براہ راست رابطوں کا ذہن بنایا اس طرح ایم کیو ایم کو قریب لانے کی سوچ کا اظہار کیا تاکہ یہ سب قومی سیاسی دھارے میں مثبت کردار ادا کریں۔ الطاف حسن نے لاہور کے تاریخی مقام مینار پاکستان پر جو پہلا اور آخری بھرپور جلسہ کیا وہ نواز شریف کی اسی سوچ کا مظہر اور وسعت تعاون کا نتیجہ تھا۔
سابق انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب سردار محمد چودھری مرحوم کے مطابق نواز شریف نے اپنے اقتدار کیلئے نہیں بلکہ ملکی مفاد کی خاطر جب سندھ کے شہری علاقوں سے اٹھنے والی مہاجروں کی تحریک ایم کیو ایم، بے نظیر کے وزیر داخلہ نصیرا للہ بابر کے مظالم کی وجہ سے کراہ رہی تھی تو نواز شریف نے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا حالانکہ اس کے ساتھ جنرل آصف نواز کی مہم جوئی کی وجہ سے شدید اختلافات تھے۔ جنرل نصیر اللہ بابر کی سربراہی میں بے نظیر نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کی ماروائے عدالت ہلاکتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کروا رکھا تھا۔ کراچی شہر کے ہر گھر میں کہرام مچا ہوا تھا۔ کراچی کی پولیس جسے چاہتی پار کر دیتی اور جسے چاہتی پیسے لے کر بچا لیتی۔ یہ جعلی پولیس مقابلوں کے اس سلسلے کی کڑی ہیں جنہیں جنرل موسیٰ خان نے بحیثیت گورنر مغربی پاکستان شروع کیا پھر یہ بدعت آج تک چل رہی ہے۔
نصیر اللہ بابر نے اسے کراچی میں کمال کی حد تک پہنچایا تاکہ یہاں حکومت کی مخالف ایم کیو ایم کا خاتمہ کیا جائے۔ اسی لئے اس طوفان کو روکنے کیلئے ایم کیو ایم کی طرف اس مصیبت کے لمحے میں دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو ان کی اپنی جماعت میں اس کی بہت زیادہ مخالفت ہو رہی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک دن نواز شریف نے کچھ دانشوروں کے ساتھ بشمول الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمن شامی اور ضیاء شاہد اس سلسلے میں ایک میٹنگ رکھی ہوئی تھی مسلم لیگ کے سینئر ارکان اسمبلی بھی تھے جو سب سے سب سخت مخالفت کر رہے تھے۔ آخر نواز شریف نے تنگ آکر کہا بھاڑ میں جائے یہ سیاست، میں ملکی یکجہتی کی قیمت پر سیاست نہیں کرنا چاہتا۔ ملک رہے گا تو سیاست ہوگی پھر وہ دانشوروں کو علیحدہ کمرے میں لے گئے۔
سردار محمد چودھری کے اس انکشاف سے نوازشریف کے قومی یکجہتی کیلئے جذبات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جناب الطاف حسن قریشی اور جناب مجیب الرحمن شامی بفضل تعالیٰ بقید حیات ہیں۔ تصدیق یا تردید کر سکتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں جس طرح ایاز لطیف پلیجو نے جی ڈی اے کے ساتھ اشتراک کے ذریعہ قومی سیاسی دھارے میں قدم رکھا ہے یہ نوازشریف کی خواہش کی بالواسطہ تکمیل ہے۔ بشیر میمن نے بہت کم عرصہ میں ن لیگ کو سندھ میں سرگرم کر دیا ہے۔ دراصل ن لیگ کیلئے سندھ کی زمین زرخیز تو تھی ذرا نم کی ضرورت تھی۔ انہیں چاہیے وہ قادر مگسی اور زین شاہ سے رابطے استوار کریں۔
سردار محمد چودھری نے جنرل آصف نواز کی مہم جوئی کے نتیجے میں جن شدید اختلافات کا ذکر کیا ہے یہ میرے نزدیک ایم کیو ایم کا صورتحال سے پریشان ہو کر سوچے سمجھے بغیر عجلت میں منفی ردعمل دیا تھا حالانکہ ا س کے خلاف آپریشن پر نواز شریف، تب وفاقی وزیر چودھری نثار علی خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب غلام حید روائن کے اس آپریشن کے خلاف بیانات آن دی ریکارڈ ہیں۔ کہا جاتا ہے نوازشریف اور جنرل آصف نواز کے مابین فاصلوں کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ایک اور واقعہ تاریخ کا حصہ ہے کہ نواز شریف نے ایم کیو ایم کیلئے نیک نیتی کا کھلا مظاہرہ کیا لیکن وقت کے طاقتوروں نے اسے ناکام بنا دیا تھا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے’صوبہ سندھ کی سیاسی صورتحال دوسرے صوبوں سے بالکل مختلف تھی۔ الیکشن کے بعد صوبائی سطح پر سب سے بڑی پارٹی پیپلز پارٹی تھی۔ دوسرے نمبر پر ایم کیو ایم تھی۔ لیکن مسلم لیگ جو اچھی خاصی تعداد میں کامیاب ہوگئی تھی، اس نے آزاد ارکان کو ساتھ ملا لیا اور ایم کیو ایم کو بھی، ا س طرح یہ اتحاد پیپلز پارٹی سے بڑا ہوگیا۔ اتحاد میں ایم کیو ایم کی تعدا د زیادہ تھی۔ وز ارت اعلیٰ اس کا حق تھا نواز شریف اس کیلئے بالکل تیار تھے مگر مقتدر ترین ادارے نے بوجوہ اعتراض کر دیا اس پر ایم کیو ایم نے گورنر کے عہدے کا مطالبہ کیا۔ یہ بھی نہ مانا گیا۔ بعد ازاں خاصی گفت و شنید کے بعد فیصلہ ہوا کہ وزیر اعلیٰ مسلم لیگ سے مگر اندرون سندھ سے ہوگا تاکہ پرانے سندھ مطمئن ہو سکیں اور گورنر فوج سے کراچی سے تعلق اور اردو بولنے والا ہوگا چنانچہ لاہور کے کور کمانڈر معین الدین حیدر کو گورنر نامزد کر دیا گیا اور ایم کیو ایم کو وزارتوں تک محدود کر دیا گیا جبکہ میاں نواز شریف کی سوچ تھی کہ جو حالات اور اصول کا تقاضا بھی تھا کہ چیف منسٹر ایم کیو ایم سے بنا دیا جائے اور ملکی ذمہ داری ان کے گلے میں ڈال کر بہت دیرینہ مسئلہ اسی طرح حل کر دیا جائے جیسے 1998ء میں بے نظیر کو حکومت دے کر اندرون سندھ کا ابال ختم کر دیا گیا تھااس وقت ایم کیو ایم کی قیادت صورتحال کا صحیح ادراک نہ کر سکی اور اشتراک کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ گئی۔ اب ن لیگ او ر ایم کیو ایم دوبارہ قریب آئے ہیں تو کیا فتنہ گروں کو قربت ہضم ہو گی۔ بالکل ہضم نہیں ہوگی۔ اس لئے یہ دونوں پارٹی کے قائدین کیلئے بڑا چیلنج بھی ہے۔
ایم کیو ایم نے میاں شہباز شریف اور مریم نواز شریف کو کراچی سے قومی اسمبلی کیلئے انتخاب لڑنے کی دعوت دی۔ ن لیگ کی مقامی قیادت نے ملیر اور کیماڑی کے حلقوں کو سازگار سمجھا۔ ایم کیو ایم اس کا وزیر اعلیٰ قبول کرنے میں کسی بخل سے کام نہیں لیں گے یہ ان کی اصول پسندی ہی تھی کہ جمعیت علمائے اسلام سے مل کر اور مولانا فضل الرحمن کے شدید مطالبے کے باوجود آسانی سے ن لیگ کی حکومت بنانے کی بجائے اکثریت حاصل کرنے والی تحریک انصاف کو حکومت بنانے کی اجازت دی۔ بعد ازاں حکومت جس طرح نواز شریف کے در پے ہوئی وہ سب پر روشن ہے۔
بلاول نے دلچسپ بات کی کہ لوگ ایسی پارٹی کومنتخب کریں جو 18ویں ترمیم پر عمل کرے۔ سندھ میں پانچ سال پیپلزپارٹی کی بلا شرکت غیرے حکومت رہی۔ اس لئے یہ کہنا چاہیے تھا کہ ہماری حکومت نے 18 ویں ترمیم پر عمل کر کے کراچی، حیدر آباد، سکھر، لاڑکانہ سمیت پورے سندھ کو عوامی مسائل اور مشکلات سے پاک صوبہ بنا دیا ہے اس لئے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں۔ اب تو یہ سوال بنتا ہے جب اقتدار و اختیار سب حاصل تھا تب کچھ نہ کیا تو اب کیا کرو گے۔
دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ اگر 18 ویں ترمیم کر کے ترقیاتی فنڈز وزیر اعلیٰ کی بجائے بلدیاتی اداروں کے پاس براہ راست چلے جاتے ہیں تو اس سے حکومت بننے کی صورت صرف سندھ کا وزیر اعلیٰ ہی محروم نہیں ہو گا۔ پنجاب میں اگر ن لیگ کی حکومت بنتی ہے تو ن لیگ کا وزیر اعلیٰ بھی تو محروم ہو گا۔ لہٰذا یہ بد نیتی نہیں ہے۔ شہری ادارں کو مضبوط بنانے کی جانب ایک مثبت قدم ہے اس کی حمایت کی جانی چاہیے۔ اگر شہروں، قصبوں اور گلی محلوں کی حقیقی ترقی مقصد ہے۔ بصورت دیگر وزیر اعلیٰ من پسند پارٹی کے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دیں گے ان فنڈز کا جو ہو گا یہ کوئی سربستہ راز نہیں ہے۔
تبصرے بند ہیں.