میں چشم تصور سے اُن خاندانوں کو دیکھ رہا ہوں جن کے جوان بیٹے وطنِ عزیز کی حفا ظت کرتے ہوئے جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ بچپن میں باپ کی موت کے بعد زندگی کیسے گزرتی ہے اِس کا اندازہ صرف وہی شخص لگا سکتا ہے جس نے اِس روزانہ کی قیامت کو اپنے اوپر گزرتے دیکھا ہو۔جوان بیٹے کے جنازے کو کندھا دینے کے بعد عمر بھر کیلئے باپ کے کندھے ہمیشہ کیلئے جھک جاتے ہیں۔ بہنوں کو جس بھائی پر مان ہوتا ہے اُس کی موت انہیں ہمیشہ کیلئے بے آسرا کر جاتی ہے۔ دہشتگردی کی جنگ کی جڑیں ہمیشہ افغانستان سے ہی ملیں گی کیونکہ اِس کا پودا بھی ہم نے وہیں لگایا تھا۔ ضیاء الحق اور اُس کے جرنیلوں کی غلط حکمتِ عملی نے پاکستانی قوم کیلئے تو دہشتگردی کا عذاب تیار کیا ہی لیکن روس کے ٹکڑے ہونے سے دنیا میں بھی طاقت کا توازن بگڑ گیا جس کا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑرہا ہے اور آج امریکہ دنیا کا اکلوتا بدمعاش بن کر پُرامن ریاستوں میں دندناتا پھر رہا ہے۔ فلسطینیوں کے قتل عام کے حوالے سے اسرائیل کے خلاف پیش کی گئی قرارداد پر امریکی ویٹو امریکہ کا کھلا سامراجی چہرہ ہے۔دوسری طرف بھارتی سپریم کورٹ کا 5 اگست 2019ء کومودی حکومت کا بھارتی آئین کی آرٹیکل 370 کے خاتمے کو آئینی اوردرست عمل قرار دینے کے فیصلے نے کشمیر پر پاکستان کے موقف کو کمزور کردیا ہے۔ اب کشمیر کا صرف فوجی حل باقی رہ گیا ہے اور افواج پاکستان کے خلاف دہشتگردی کی تازہ لہر نے جہاں عوام میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے وہیں افغانستان میں بیٹھی طالبا ن حکومت ٹی ٹی پی اور اُس کے ذیلی گروپس کی سب سے محفوظ پناہ گاہ بن چکی ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان کی مڈبھیڑ افغانستان سے ہو جائے تاکہ پاک بھارت دشمنی کے تیر کا رخ بھارت کے بجائے افغانستان کی طرف ہو جائے اور اس خطے میں برتری کی لڑائی میں بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنے کیلئے کھڑا کیا جا سکے اور یہ سب اتنی دیر تک ممکن نہیں جب تک بھارت کا ایٹمی دشمن اُس کے سر پر بیٹھا ہے۔ اِن حالات میں افغانستان اور پاکستان میں کشیدگی کو سرحدی جھڑپوں کے بعدممکن ہے ایک مستقل جنگ میں بدل دیا جائے جو جنگ سے زیادہ پراکسی وار ہو گی اور آج اگر ٹی ٹی پی استعمال ہو رہی ہے تو کل چیچن، ازبک اور تاجک بھی آ جائیں گے اور اُن کی مدد کیلئے پاکستان بھر میں بیٹھے افغان معاون، مدد گار اور سہولت کار کا کردار ادا کریں گے۔ پاکستانی قوم یہی سمجھتی رہے گی کہ یہ سب الیکشن میں تاخیر کے حربے ہیں جس کا چرچہ کرنے کیلئے عمران نیازی کی سپاہ موجود ہے اورہم آہستہ آہستہ ایک ایسی دلدل میں اترتے جائیں گے جو اِس سے پہلے بھی بہت سی قومو ں یا ہجوموں کو نگل چکی ہے۔
روز بروز بڑھتی ہوئی دہشتگردی کی وارداتوں کا ایک مطلب پاکستانی عوام کو اپنی افواج سے متنفر کرنا بھی ہو سکتا ہے جس کے امکان کو کسی صورت رد نہیں کیا جا سکتا۔ دہشتگرد وں کی حوالگی افغانستان سے مانگنے کا کبھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ افغانستان کی سب سے بڑی انڈسٹری ہی وار ہے سو اُس سے کسی پُرامن اقدام کی توقع کرنا میرے نزدیک ایک غیر عقلی فیصلہ اور اپنے حقیقی عملی اقدامات میں تاخیر ثابت ہوگا۔ ڈیرہ اسماعیل میں دہشتگردوں نے پاک فوج کے 23 جوانوں کو شہید کر دیا جواب میں 27 دہشتگرد جہنم واصل ہو گئے لیکن یہ سب پہلی بار نہیں ہو رہا ہمیں چوہے بلی کا یہ کھیل ختم کرنا ہو گا۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ہم نے افغانستان میں بیٹھ کر چائے کا کپ پینے کی تصویر وائرل کرا کر دنیا کو کیا پیغام دیا تھا؟ ابھی کل کی بات ہے کہ ہم نے چور رستے سے ایک ایسے شخص کو پاکستان کا وزیر اعظم بنا دیا تھا کہ جو سرعام پاکستان میں طالبان کا دفتر کھولنے کا مشورہ دیتا تھا جس نے 40 ہزار دہشتگرد افغانستان سے لا کر پاکستان میں بسائے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ دہشتگردی کی اس لہر کے بعد وہ اپنے گھروں سے غائب ہو چکے ہوں گے۔ 2013ء سے لے کر خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے تک عمران نیازی کے قریبی ساتھی طالبان کو بھتہ دیتے رہے اور اِس کی خبریں پاکستان کے اخبارات میں چھپتی رہیں مگر کیا یہ جنگ کبھی ختم نہیں ہو گی؟ کیا ہم دشمن کے بچوں کو پاکستان کے سکولوں میں پڑھاتے رہیں گے اور توقع کریں گے کہ یہ جنگ ہم جیت جائیں گے؟ کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ ہمیں آخری فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم نے پاکستانی قوم کے ساتھ کھڑے ہونا ہے یا دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے۔
درابن واقعہ کی ذمہ داری تحریک جہاد پاکستان نامی گروپ نے قبول کی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دہشتگردوں نے چوکی پر حملہ کیا اور بارود سے بھری گاڑی چوکی سے ٹکرا دی گو کہ اس حملے میں دہشتگرد بھی مارے گئے لیکن کیا ہمارے فوجی جوانوں کا مقدس خون اتنا ارزاں ہے کہ انہیں دہشتگردوں کے خون سے ماپا اور تولا جائے؟ اس سے بڑی نمک حرامی اور کیا ہو گی کہ افغانی کھلے عام پاکستان میں کاروبار کر رہے ہیں، غنڈہ گردی کر رہے ہیں، اپنے جتھے بنا رکھے ہیں، ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث ہیں، منشیات کی سمگلنگ میں پیش پیش ہیں اوریہ سب کچھ و ہ اُسی جغرافیے کے اندر کررہے ہیں جس کے خلاف اُن کی دہشتگرد ریاست برسرِ پیکار ہے۔ جو پاکستان کو دشمن اوربھارت کو اپنا دوست اعلانیہ کہتے ہیں لیکن ہم تو ابھی کل تک ایک اخبار کی پیشانی پر ”افغان باقی کہسار باقی“ سالہا سال چھپتے دیکھتے رہے ہیں۔ جن افغانوں کی ہیرو شپ ہم نے اپنے بچوں کے ڈی این اے میں انجیکٹ کرنے کی کوشش کی ہے اب ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ اُن سے لڑیں یا اِن کی مخبریاں کرکے انہیں گرفتار کرائیں تو اِس کا امکان بہت کم ہے۔ ہمیں الٹے پاؤں واپس جانا پڑے گا۔ ہمیں اس پاکستان کو سماجی حوالے سے 5 جولائی 1977 ء سے پہلے والا پاکستان بنانا ہو گا اور یہ اُسی صورت ممکن ہے کہ ریاست اِ س کیلئے ایسی مستقل پالیسیاں وضع کرے جو حکومتیں بدلنے سے نہ بدلتی رہیں۔ مجھے اپنے شہیدوں کا ماتم نہیں کرنا اُن کا بدلہ لینا ہے کہ بہادر ایسے ہی سوچتے ہیں۔ ہمیں افغانستان سے توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ دہشتگردوں کے خلاف کوئی راست اقدامات کرے گا اور دہشتگردی میں ملوث پاکستانی طالبان کو پاکستان کے حوالے کردے گا اور سب ہنسی خوشی رہنا شروع کردیں گے یہ کہانی نہ تو اتنی سادہ ہے کہ سمجھ نہ آئے اور نہ اتنی دلنشیں کے اسے زیادہ دیر تک برداشت کیا جا سکے۔ پاکستان کے عوام دہشتگردی کی جنگ میں اپنی بہادر افوا ج کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن ہمیں اِن بے رحم دہشتگرد وں اور اِنہیں پناہ دینے والے سہولت کاروں سے بھی فیصلہ کن مذاکرات کر لینے چاہئیں کہ روزانہ کی بنیاد پر یہ آنکھیں جلا نے اور دل دھڑکانے والے واقعات نہیں دیکھے جاتے۔ افغان سرزمین اگر پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی ہے تو ایک بھی افغانی پاکستان میں نہیں رہنا چاہیے اور نہ ہی اُن کا کچھ پاکستان کے رستے افغانستان جانا چاہیے۔ جن کو رشتے داریاں نبھانے کا شوق ہے وہ پور ا کرلیں لیکن ہمیں اُن سے صلح کے تمام رستے بند کرنا ہوں گے جنہوں نے ہمارے یونیفارم میں ملوث بچوں کے سکولوں کومقتل بناتے ہوئے نہیں سوچا تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ انہیں پاک فوج کا جوان یونیفارم میں اچھا لگتا ہو گا۔ پاکستانیوں کے پاس فخرکرنے کیلئے اپنی ہی فوج ہے یہ بھارت یا اسرائیل کی فوج پر تو مان نہیں کرسکتے لیکن افواج پاکستان کو بھی پاکستانی عوام کی امنگو ں کا خیال رکھنا ہو گا کہ مسلسل شکست حوصلوں کو پست بھی کردیتی ہے۔
تبصرے بند ہیں.