میرے قارئین اور ویلاگ ASIF INAYAT LIVE کے ناظرین بھی گواہ ہیں کہ میں موجودہ چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کا معترف اور منتظر ہی نہیں باقاعدہ حمایتی رہا ہوں۔ اس امید کے ساتھ دہائیوں بعد اور (مغربی پاکستان) جو کہ اب موجودہ پاکستان ہے کو پہلی بار کوئی تاریخی، حقیقی چیف جسٹس نصیب ہو گا اور حالات کے ارتقا نے آرمی چیف جناب سید عاصم منیر کے چیف آف آرمی سٹاف کے حالات بتا دیئے۔ میرے کالم اور ویلاگ آج بھی ریکارڈ پر ہیں، میں اس کو وطن عزیز کی خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔ بے شک آنے والے وقت اور لمحوں کا حالات کا اللہ کو علم ہے مگر جو کھلی آنکھ سے سامنے نظر آتا ہے اس کا تجزیہ ہو سکتا ہے، دیوار کے پیچھے کیا ہے دیکھنا انسانی آنکھ کے بس کا کام نہیں۔ آئین کی سپرامیسی اور حاکمیت، جرأت اور دیانت کے بغیر ممکن نہیں۔ اگلے روز سوشل میڈیا پر ایک کلپ دیکھا جس میں کسی شہید کی معصوم بچی وطن عزیز کے سپہ سالار سے شکایت (درخواست) کر رہی ہے کہ کوئی وڈیرا زبردستی ان کی زمین پر پانی چھوڑ دیتا ہے۔ سپاہ سالار اعظم نے بچی کے سر پر ہاتھ بھی رکھا، تسلی بھی دی اور وڈیرہ کو پیغام بھی دیا جو سب سن چکے ہیں۔ دراصل اس پیغام کی خوبصورتی اور اہمیت اس وجہ سے ہے کہ قوت کے ساتھ کردار کی طرف سے پیغام تھا۔ یقین کریں میری سرشاری کی کوئی حد نہیں۔ دراصل ہم نے بہت ڈرامے، نوٹنکیاں اور رنگ بازیاں دیکھی ہیں مگر دیانتدار قیادت، جرأت مند قیادت، غیر جانبدار قیادت، عدلیہ اور عسکری حوالے سے پہلی بار ایک وقت میں میسر ہے۔
مجھے جاننے والے جانتے ہیں کہ میں 21 سال کی عمر میں ایم آر ڈی کا کنوینئر اور ینگ لائرز آرگنائزیشن کا صدر تھا تب ضیاء کا تاریک دور تھا۔ وطن عزیز پر بُری ترین حاکمیت کا دور تھا اور میں اس حاکم کے خلاف انسانی و سیاسی حقوق مانگنے والوں میں بھرپور کردار ادا کر رہا تھا۔ آئین کے مطابق ادارے کام کریں، یہ ایک آئیڈیل صورتحال ہے۔ دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ریاست چلانے میں کلیدی ہوا کرتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے زمانے میں سکیورٹی ایجنسیوں نے امریکہ کی سالمیت کی خاطر نظام اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔ وائٹ ہاؤس کی باتیں باہر آنا شروع ہو گئی تھیں۔ 2018ء میں بھی ہماری سکیورٹی ایجنسیوں نے ملک کے مفاد کے لیے کافی کام کیا مگر سپیریئر قیادت کی جانب داری نے عدلیہ اور عسکری قوتوں کے متعلق عوام کے اندر تحفظات پیدا کر دیئے جو بندیال اور باجوہ صاحبان کے جاتے ہی اعتماد میں بدلنا شروع ہو گئے۔ سابق قیادتوں کی باقیات سے متعلقہ اداروں کو نجات دلانے سے اداروں کی تطہیر کا عمل مکمل ہو گا۔ آتے ہیں اس سرشاری کی طرف جو سپہ سالار نے وڈیرے کو پیغام بھیجا، کمال کر دیا۔ ماضی قریب میں اداروں کے بڑوں نے ذاتی پسند ناپسند کو رائج کر کے اتنے راکشش پیدا کر دیئے کہ بالکل امید نہ تھی کبھی کوئی بہتری آ سکے گی۔
الحمد للہ اب دونوں مؤقر اداروں کے سربراہوں کی قیادت کی وجہ سے امید ہے کہ وطن عزیز کے عوام کا اعتماد بحال ہو گا کیونکہ موجودہ قیادتیں ”یوٹرن“ نہیں لیتیں۔ سابقہ دور اس حوالے سے ملک و قوم اور معاشرت کے لیے تباہ کن دور تھا۔ یوٹرن لینے والے کو نگلہ بولتے ہیں اور نگلہ (بدعہد) کے حوالے سے ایک کہاوت یاد آ گئی۔ ایک عورت ایک مرد سے شادی کرنا چاہتی تھی، مگر مرد اس کے لئے تیار نہ تھا۔ وہ عورت کو مسلسل ٹالتا رہا اور اس شخص نے ٹالتے ہوئے عورت سے بار بار کہا کہ وہ کسی دوسرے شخص سے شادی کر لے۔ مگر عورت اپنے ارادے پر مضبوطی سے قائم رہی اور آخر جب یہ نہ ہی مانی تو ان دونوں کے در میان مندرجہ ذیل بات چیت ہوئی: مرد: میں بد چلن ہوں، ایک بد چلن شخص سے شادی مت کرو۔ عورت: مجھے کوئی اعتراض نہیں، میں پھر بھی تم سے شادی کروں گی۔ مرد: میں قمار باز ہوں۔ عورت: مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ مرد: میں شرابی ہوں۔ عورت: میں تمہارے شراب پینے کو بھی معاف کر دوں گی۔ مرد: میں چور ہوں۔ عورت: کوئی حرج نہیں۔ مرد: میں ڈاکو ہوں۔ عورت: مجھے قبول ہے۔ مرد: میں نگلہ (بد عہد) ہوں۔ عورت: میں تم سے شادی نہ کروں گی۔ ایک نگلہ (بد عہد) ایک بدمعاش، چور، قمار باز، شرابی اور ڈاکو سے بھی بُرا ہے کیونکہ نگلہ کی زبان کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا، دوسروں کا کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جرائم پیشہ لوگوں کی اکثریت اپنی زبان کی پابند ہوتی ہے اور جب یہ کوئی عہد کریں، تو یہ اپنے وعدے سے منحرف نہیں ہوا کرتے۔ ہماری بدنصیبی رہی کہ ہمیں ہر سطح پر حکمران طبقے اداروں کے سربراہ نگلے (بدعہد) ملے۔ اس پر ستم یہ کہ ”دانشور“ بھی ان کے ساتھ ساتھ کردار بلکہ اقتدار کے ساتھ بدلتے پائے گئے۔ ابھی انتخابات کا دور ہے، انتخابی جلسوں میں کالا رنگ گورا اور گورے کو چن ورگا، چھوٹے قد کو بڑا اور بے تکے بڑے کو چھوٹا کرنے تک کے وعدے کیے جا رہے ہیں۔ جب تک بیوروکریسی کی ری سٹرکچرنگ نہیں ہوتی، بادشاہی ختم نہیں ہوتی، کچھ بدلنے والا نہیں۔ یہ چاہے میاں نوازشریف ہوں یا بلاول بھٹو، مریم نواز ہوں یا کوئی اور اب یہ معمول کا کام نہیں، اب انقلابی کام ہو گا تو بات بنے گی۔ عسکری اور عدالتی قیادت تو اللہ نے عطا کر دی، اب خدا کرے کہ انتظامی و سیاسی قیادت بھی مل جائے کہ وطن کی کشتی پار لگے۔ سنگاپور کے وزیراعظم لی کوان یو نے بیوروکریسی کو ہی ری سٹرکچر کیا تھا۔ محکمہ کا ہیڈ سیکرٹری نہیں وزرا کو بنایا تھا جس کا نتیجہ حلیمہ یعقوب جیسی تاریخی صدر کے طور پر سامنے آیا جو چنا چاٹ ٹائپ ٹھیلے پر اپنی والدہ کا ہاتھ بٹاتیں اور صدر ہونے کے بعد بھی اپنے فرسٹ فلور کے 4 کمرے کے گھر میں رہتیں۔ آج سنگاپور دنیا کی پہلی 3 بندرگاہوں، معاشی قوتوں میں شمار ہوتا ہے اور میرٹ، ملٹی کلچرازم اور موٹیویشن کو بنیاد بنایا۔ صرف سپہ سالار نہیں صرف عدالتی قیادت جناب چیف جسٹس فائز عیسیٰ ہی نہیں ہر درجے اور ہر ادارے کی قیادت کو وڈیرے کو پیغام دینا ہو گا۔ سپہ سالار نے کمال کر دیا۔ اگلے کالم میں سمگلروں، کسٹم ڈیوٹی چوروں، محکموں میں بیٹھے ان کے سہولت کاروں کے متعلق سیاسی، عسکری، عدالتی قیادت کو آگاہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ امید ہے ایک پیغام ان وڈیروں کو بھی ضرور جائے گا۔
تبصرے بند ہیں.