پاک چین زرعی فورم کا انعقاد

64

پاکستان کی معیشت کا بہت زیادہ انحصار زراعت پر ہے۔ پاکستان کے اقتصادی سروے 2023ء کے مطابق پاکستان میں زراعت کا شعبہ 22 فیصد سے زائد جی ڈی پی اور 37 فیصد ملازمت کے مواقع فراہم کرتا ہے، یہ صنعت ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی میں اہم کردارا دا کرتی ہے اور دیگر اقتصادی شعبوں سے اس کا براہِ راست اور بلواسطہ تعلق ہے۔ تاہم ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان کو زرعی اجناس جیسے کہ گندم، دالیں اور خوردنی تیل درآمد کرنا پڑتا ہے۔ کم اوسط پیداوار، زائد پیداواری لاگت اور کم معیاری خوراک ہماری مقامی مارکیٹ میں درآمدی سامان کے لئے جگہ پیدا کرتی ہے۔ ان مسائل نے مقامی پیداوار کو نقصان پہنچایا ہے اور عالمی منڈی میں پاکستان کے لئے مسابقت کو بھی متاثر کیا ہے۔ لہٰذا بہتر معیشت کے لئے زراعت کا حیاء ضروری ہے۔ کسانوں کو فصل کی مئوثر نشونما کے لئے جدید تیکنیک اور آلات تک رسائی ملنی چاہئے۔ بنیادی مسائل میں جدید کاشتکاری کے طریقوں کے بارے میں معلومات کی کمی، کسانوں کے لئے مالی رکاوٹیں اور سائنسی و جدید زرعی طریقوں کی ضرورت شامل ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ روز انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹیکلچرل سائنس زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے زیر اہتمام چوتھے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ چین پاک زرعی فورم کا انعقاد کیا گیا۔ جس کے مہمانِ خصوصی وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ ڈاکٹر کوثر عبداللہ ملک کی۔

فورم سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ ڈاکٹر کوثر عبداللہ ملک نے کہا ہے کہ چین اور پاکستان کے زرعی تعلقات اور مشترکہ کوششوں سے فوڈ سیکیورٹی کے مسئلے سے نمٹنے اور ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے ڈائریکٹوریٹ آف فارمز کے زیر اہتمام گندم مہم کے سلسلے میں کسان ڈے کی صدارت بھی کی۔ اس موقع پر صوبائی وزیر زراعت ایس ایم تنویر، زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں، پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کے چیئرمین غلام محمد علی، بارانی یونیورسٹی راولپنڈی پروفیسر ڈاکٹر محمد نعیم، ہووانگ زرعی یونیورسٹی چین کے صدر ڈاکٹر شوہولی نے بھی شرکت کی۔ ہووانگ زرعی یونیورسٹی چین کے پارٹی سیکرٹری ژانگ ہونگ کرونگ، پرو وائس چانسلر/ڈین کلیہ زراعت پروفیسر ڈاکٹر محمد سرور خاں، ڈائریکٹر ہارٹیکلچرل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر احمد ستار خاں، ڈائریکٹر ریسرچ پروفیسر ڈاکٹر جعفر جسکانی، ڈاکٹر راحیل، ڈائریکٹر ایکسٹرنل لنکیجز پروفیسر ڈاکٹر محمد ثاقب اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ بعدازاں گندم مہم کی تقریب سے ڈی جی ایکسٹینشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب ڈاکٹر اشتیاق حسین، پرنسپل آفیسر تعلقات عامہ ڈاکٹر محمد جلال عارف، ڈائریکٹر ایکسٹینشن فیصل آباد ڈویژن ڈاکٹر عبدالحمید، ڈائریکٹر فارمز ڈاکٹر شاہد ابن ضمیر نے بھی خطاب کیا۔ وفاقی وزیر ڈاکٹر کوثر عبداللہ ملک نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ کاوشوں اور سائنس دانوں کے روابط سے ترقی اور خوشحالی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ انہوں نے کہا کہ گندم مہم ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے جس میں طلباء اور سائنسدان زراعت کو سائنسی بنیادوں پر لانے کے لیے کسانوں کے پاس زرعی سفارشات لے کر ان کی دہلیز پر پہنچتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منظم زراعت سے ہم اپنی پیداوار میں کئی گنا اضافہ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قابل قدر تحقیقی کام اور نئی ٹیکنالوجی میں قابل قدر ترقی ہو رہی ہے جس کو کھیتوں تک پہنچانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ صوبائی وزیر ایس ایم تنویر نے کہا کہ پاک چین تعلقات کا آغاز 1951 میں ہوا اور دونوں ممالک زندگی کے ہر شعبے میں بہترین تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی قریب میں چینی اداروں کے ساتھ زراعت، انفراسٹرکچر، صنعت اور دیگر شعبوں میں بیس سے زائد معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مختلف شعبوں میں چینی سرمایہ کاری سے ترقی کے نئے سفر کا آغاز ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی دنیا کے لیے ایک سنگین خطرہ بن رہی ہے جس کے لیے ہمیں مربوط کاوشیں کرنا ہوں گی۔

پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا کہ زراعت کے شعبے میں ترقی سے باقی شعبہ جات کو بھی خوشحالی کی منازل طے کرتے ہیں۔ کاشتکاری تمام زمروں اور شکلوں میں دیہی ترقی، آمدنی کے متبادل ذرائع اور نوجوانوں کے روزگار سے منسلک ہے۔ پاکستان کی زرعی صنعت میں انقلاب لانا ہوگا اور یہ صرف کئی اداروں کے علم، صلاحیتوں اور تیکنیکی ترقی کو عصری آبپاشی کی تیکنیکوں کے ساتھ استعمال کر کے ہی کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد زراعت کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے چینی اداروں کے ساتھ ٹھوس تحقیقاتی اور تعلیمی منصوبہ جات پر کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی میں چائینیز کنفیوشس انسٹیٹیوٹ قائم ہے جس میں چینی زبان سکھانے کے ساتھ ساتھ مختلف تربیتی پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی نے محکمہ زراعت توسیع کے ساتھ مل کر گندم کی مہم کا اجرا کیا ہے جس سے پیداوار بڑھانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کی مہم کی وجہ سے صوبہ بھر میں اوسط پیداوار میں تین من فی ایکڑ اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کے شعبے میں پیداواریت جمود کا شکار ہے بہترین اور موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف قوت مدافعت رکھنے والی نئی اقسام سے پیداوار میں اضافہ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کو خوراک فراہم کرنے کے لیے زرعی اداروں کے کے مابین تعاون کی فضا کو فروغ دینا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی نے موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف قوت مدافعت رکھنے والی گندم کی نئی اقسام متعارف کروائی ہیں۔ ڈاکٹر شوہولی و دیگر چینی ہم منصبوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے مابین بہترین تعلقات قائم ہیں جس سے استفادہ کرتے ہوئے زرعی ترقی میں مدد ملے گی۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد سرور خاں نے کہا کہ گندم مہم کے تحت پر عزم نوجوان پنجاب کی چھ ڈویژن میں گاؤں گاؤں کھلیان کھلیان جا کر کاشتکاروں کو زرعی سفارشات سے آگاہ کر رہے ہیں جس کے ٹھوس نتائج سامنے آئیں گے۔ڈاکٹر احمد ستار خاں نے کہا کہ ہم باہمی تعاون سے زرعی چیلنجز سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ ڈاکٹر جعفر جسکانی نے کہا کہ یونیورسٹی کاشتکار برادری کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ ہوا ژونگ زرعی یونیورسٹی چین نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد اور بارانی زرعی یونیورسٹی راولپنڈی کے ساتھ دو الگ الگ تعلیمی تعاون اور طلبہ کے تبادلے کے پروگرام کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔ گندم مہم کی تقریب میں ڈاکٹر شاہد ابن ضمیر نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی نے 300 کاشتکاروں میں ہائبرڈ گندم کا بیج بھی آزمائشی بنیادوں پر تقسیم کر رہی ہے جس سے پیداوار بڑھانے کے لیے ٹیکنالوجی کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔

پاکستان کے زرعی شعبے میں مسائل پر قابو پانے کے لئے جدید ٹیکنالوجی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ اسی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت نے رواں سال جولائی میں لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم کا بھی آغاز کیا تھا تاکہ عام زرعی عمل کو عصری زرعی ٹیکنالوجیز سے تبدیل کیا جا سکے۔ علم پر مبنی اختراعات اور مداخلتیں مسابقت کو فراغ دیں گی۔ اس طرح مستحکم پاکستان کے لئے غذائی اور معاشی ترقی حاصل ہو گی۔

تبصرے بند ہیں.