ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، ہر سال دنیا بھر میں 70 لاکھ سے زائد افراد فضائی آلودگی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پوری دنیا میں اس وقت ننانوے فیصد انسان ایسی آب و ہوا میں سانس لیتے ہیں جو آلودگی کے لیے ڈبلیو ایچ او کی گائیڈ لائن کی حد سے کہیں زیادہ ہے۔ ویسے تو پوری دنیا فضائی آلودگی کی وجہ سے متاثر اور پریشان ہے لیکن قومی اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کے شہر لاھور اور کراچی اس وقت دنیا آلودہ ترین شہروں میں سر فہرست ہیں۔
سموگ اور کاجل (soot) فضائی آلودگی کی وہ اقسام ہیں جن کے ذرائع تقریباً ایک ہی جیسے ہیں۔سموگ آنکھوں اور گلے میں جلن پیدا کر سکتا ہے اور پھیپھڑوں کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے، یہ خاص طور پر بچوں، بزرگ شہریوں اور باہر کام کرنے والے یا ورزش کرنے والے لوگوں کے لیے خطرناک ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے اور بھی بدتر ہے جنہیں دمہ یا الرجی ہے۔ کاجل میں ہوا سے نکلنے والے سب سے چھوٹے ذرات خاص طور پر خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ وہ پھیپھڑوں اور خون میں گھس سکتے ہیں اور برونکائٹس کو خراب کر سکتے ہیں، دل کے دورے کا باعث بن سکتے ہیں یہاں تک کہ قبل از وقت موت کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔
فضائی آلودگی عالمی سطح پر صحت عامہ کے لیے سب سے بڑا ماحولیاتی خطرہ ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس کی وجہ سے ہر سال تقریباً70 لاکھ قبل از وقت اموات ہوتی ہیں۔ فضائی آلودگی کا موسمیاتی تبدیلی سے بھی گہرا تعلق ہے لہذا اگر موسمیاتی تبدیلیوں کا ذمہ دار فضائی آلودگی کو قرار دیا جائے تو زیادہ غلط نہ ہو گا۔ویسے تو ہمارے ہاں فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے قومی اور صوبائی سطح
پرکئی محکمے ذمہ دار ہیں اور اب تو ماحولیات کی وزارت بھی قائم ہو چکی ہے لیکن جانے کیوں ان کی کارکردگی ڈھونڈے سے بھی کہیں نظر نہیں آتی۔ بات دھواں چھوڑتی گاڑیوں کی ہو، صنعتوں کی چمنیوں سے بغیر فلٹر کے دھواں چھوڑنے کی ہو، اینٹوں کے بھٹوں پر کوئی کنٹرول نہ ہونے کی ہو، دھان کی فصل کی کٹائی کے بعد بچ جانے والے مواد کو آگ لگانے کی ہو، سمندری، دریائی اور نہری پانی کو آلودہ کرنے کی ہو یا زیر زمین پانی کو ضائع کرنے کی ہو، ناتو کسی بھی سطح پر عوام میں شعور بڑھانے کی کوئی کوشش کی جاتی ہے اور ناہی حکومت اور اس کے ادارے اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہیں۔ سارا سال فضائی آلودگی کے مسلہ پر خواب خرگوش کے مزے لینے والے ادارے اور حکمران موسم سرما کے آغاز میں انتہائی قلیل مدت کے لیے عارضی طور پر اپنی نیند سے جاگتے ہیں، کچھ جعلی قسم کی کارروائیاں کرتے ہیں اور پھر غفلت کی چادر اوڑھ کر سو جاتے ہیں۔
سموگ کے بھر پور حملے کا جواب دینے کے لیے پنجاب حکومت نے بھی کمال ہی حل نکالا ہے، تعلیمی ادارے اور بازار بند کر دیے جائیں۔ یعنی اصل اور بڑی وجوہات کو پس پشت ڈال کر بچوں کو تعلیم سے محروم کر دیا جائے اور جن کا کوئی چھوٹا موٹا کاروبار چل رہا ہے اسے بند کرا دیا جائے۔ حیرت ہے کہ اگر حکومت چاہے تو بہت آسانی سے موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پر پابندی پر تو عملدرآمد کرا لیتی ہے لیکن سرعام بڑے پیمانے پر آلودگی پھیلانے والوں کے خلاف کوئی ایکشن لینے سے قاصر ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر آلودگی کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے والے ادارے اتنے ہی بے بس ہیں، یہ عوام کے ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقوم سے موٹی موٹی تنخواہیں تو لے سکتے ہیں لیکن انہیں صاف آب و ہوا فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتے، تو انہیں بند کیوں نہیں کر دیا جاتا؟
پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ نے اگرچہ ایک قلیل مدت میں کافی اچھے اچھے کام کیے ہیں لیکن اگر آلودگی پھیلانے والوں کے خلاف بھی بھرپور کارروائی کر کے مثال قائم کر دیتے تو شائد آنے والی حکومتیں بھی کچھ شرما شرمی اس سلسلہ کو جاری رکھتیں۔ محسن نقوی صاحب اگرچہ پنجاب کی آب و ہوا میں سے آلودگی کرنے کرنے کے لیے بہت کچھ تو نہیں کر کے لیکن پھر بھی دو اہم کام ضرور کیے ہیں۔ پہلا یہ کہ اب سرکاری طور پر ٖصرف الیکٹرک موٹر سائیکلیں ہی خرید کی جائیں گی اور دوسرا یہ کہ ٖفضائی آلودگی کو (عارضی طور پر ہی سہی)کنٹرول کرنے کے لیے مصنوعی بارش برسائی جائے گی۔
پنجاب حکومت کے ذرائع کے مطابق لاہور میں برسائی جانے والی مصنوعی بارش پر تقریباً پینتیس کروڑ روپے خرچ ہونگے۔ اس سلسلہ میں تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں، نگران وزیر ماحولیات بلال افضل والٹن ائیرپورٹ پر کھڑے جہازوں کا معائنہ بھی کر کے آئے ہیں۔ لیکن ماہرین نے ان دستیاب جہازوں کو مصنوعی بارش برسانے جیسے کام کے لیے چھوٹا قرار دیا ہے۔ خیال ہے کہ اس تجربہ کے لیے دبئی، چین یا امریکہ سے جہاز رینٹ پر لے کر کام مکمل کیا جائے گا۔
ماحولیاتی آلودگی یا سموگ کو کم کرنے کے لیے نگران وزیر اعلیٰ کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر شک تو بالکل نہیں کرنا چاہیے لیکن یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ اس قسم کے لگژری کام تو ایسے ہی ہیں جیسے نہر کے پر انڈرپاسز پر لگی ہوئی اچھی بھلی ٹائلیں اکھاڑ کر نئی اور مہنگی ٹائلیں لگائی جا رہی ہیں۔ نگران وزیر اعلیٰ صاحب نے اگر کچھ کرنا ہی تھا تو تو مصنوعی بارش پر کروڑوں روپے لگانے کے بجائے آلودگی کاباعث بننے والی وجوہات کا سختی سے سد باب کرتے تاکہ ان کے ایکشن کے دیر پا اثرات بھی مرتب ہو سکتے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.