اب تک کی سیاست کاری سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ کی سیاست بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، جھکانے اور دبانے کے لیے ہی ہو گی کیونکہ جو سیاست چھہتر برس میں بھی سنجیدہ فہم نہیں ہو سکی وہ اگلے برسوں میں بھی غیر سنجیدہ رہے گی لہٰذا یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ عوام نے جو تھوڑی بہت امید باندھ رکھی تھی وہ بھی پوری نہیں ہو گی۔
اس وقت آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سارا زور ان سیاسی جماعتوں کا جیتنے پر ہے جس کے لیے وہ ہر وہ ہتھکنڈا، حربہ اور فارمولا اختیار کر رہی ہیں جو سیاست کے میدان میں ممنوع اور غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔ اس بات کا قطعی خیال نہیں کیا جارہا کہ یہ انداز سیاست آنے والی نسلوں کے ذہنوں پر کیا اثرات مرتب کرے گا مگر یہ بھی ہے کہ اگر ہمارے سیاستدان نئی نسل کے لئے کچھ بہتر کرنا چاہتے تو وہ کبھی تکلیف دہ منظر کو جنم نہ دیتے انہیں یہ احساس ہوتا کہ وہ ایسا کرتے ہیں تو پورا سماج ایک بڑے بگاڑ کی طرف بڑھ جائے گا؟
دراصل ہمارے ارباب اختیار اپنے ذہن سے
سوچنے کے عادی نہیں دیکھے گئے ہاں اگر وہ اپنے دماغ کو متحرک کرتے بھی تو اپنے آپ کو مضبوط و توانا بنانے کے لیے، اب وہ سوچ پختہ ہونے سے ملک کی معیشت ہو، معاشرت ہو یا سیاست کچھ بھی مستحکم نہیں سب ڈانواں ڈول ہے۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے ہاں کی جو بھی قیادت اقتدار میں آئی اس نے سر جھکائے رکھنے کو ترجیح دی وہ عوام کو یہ شعور دینے میں ناکام رہی کہ قومیں زندہ کیسے رہتی ہیں اور اپنا آپ کیسے تعمیر کرتی ہیں لہٰذا ان کے ”واشنگٹانہ“ طرز عمل نے عوام کے دلوں میں دوری اور نفرت کو جنم دیا کیونکہ وہ ان کے بنیادی مسائل حل کرنے اور انہیں بنیادی حقوق دینے میں ناکام رہے۔ اب بھی وہ اپنے رویے اور عمل کو روک نہیں پارہے جبکہ لوگوں کی غالب اکثریت یا یوں کہہ لیجیے تاریخ کے مشکل ترین حالات میں سانس لے رہی ہے جنہیں مجبوری کا نام دیا جا رہا ہے اس مجبوری نے بھوکے مرتے لوگوں کو بالخصوص نوجوانوں کومجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنی بقا کے لیے جرائم کے راستے پر گامزن ہوں۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ جب سے پچھلی حکومت نے اقتدار میں آنے کے لیے
مغرب کی ہر شرط پر عمل درآمد کرنے کی ٹھانی تب سے پورے ملک میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا علاوہ ازیں لوگ حکمرانوں سے سخت متنفر ہیں اور انہیں بددعائیں دے رہے ہیں ان کو مالی مشکلات نے اس قدر بدحال کر دیا ہے کہ ان کے پاس اب فروخت کرنے کو بھی کچھ نہیں بچا۔ اگر کچھ بچا بھی ہے تو انہیں یقین نہیں کہ اس کے بیچنے کے بعد ان کے گھروں میں زندگی مسکرانے لگے گی۔ اس سماجی منظر کو دیکھ کر بھی ہمارے ارباب حل و عقد کے دل نہیں پسیج رہے اور وہ مسلسل اذیت ناک احکامات صادر کیے جا رہے ہیں۔ بس کریں اگر آپ کو انسانیت سے ذرا سی بھی ہمدردی ہے۔ کیا یہ ملک اس لیے بنایا گیا تھا کہ عوام پر ایک طبقہ حکمرانی کرے گا جو نسل در نسل اس سلسلہ کو آگے بڑھاتاجائے گا؟ ایسا ہرگز نہیں سوچا گیا تھا۔ یہ ملک آزاد اور خود مختار مملکت کے طور پے وجود میں آیا جس میں شہریوں کو پورے بنیادی حقوق دینے کا وعدہ کیا گیا احترام آدمیت و انسانیت کا کہا گیا مگر افسوس سب کچھ الٹ ہو گیا دوسروں کی تذلیل اور رسوائی کا خیال ہمارے اندر درآیا جس نے آج ہمیں تنہا کر دیا ہے۔
ایسے سماج میں کوئی کیسے زندہ رہے کیسے تخلیقی جوہر کو بروئے کار لائے کیسے ایک فلاحی سماج کے لیے جدوجہد کرے اب تو لگ رہا ہے کہ اگر کسی نے کوئی ترقی کا خواب بھی دیکھنا ہے تو وہ آئی ایم ایف سے پوچھ کر دیکھے گا۔ ہماری سوچوں پر پہرے بٹھا دیے گئے ہیں ایک محکومانہ و غلامانہ سی فضا قائم کر دی گئی ہے جبکہ شعوری ارتقا بہت آگے جا چکا ہے صرف ایک ہی طبقہ خود کو عقل کل تصور کر رہا ہے اور عوام کی مفلسی سے خوب لطف اندوز ہو رہا ہے انہیں اتنا دبایا جا رہا ہے کہ وہ اپنے وجودکو ایک بوجھ محسوس کرنے لگے ہیں۔
بہرحال یہ بات انتہائی افسوس سے کہنا پڑتی ہے کہ طویل عرصہ تک اقتدار میں رہنے والی جماعتیں اس وقت ایک بار پھر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا آغاز کر چکی ہیں تا کہ اقتدار میں آسکیں اور وہ کسی ایسی جماعت کی طرف اپنا رخ نہ کریں جو ان کی مشترکہ حریف ہے مگر یہ ان کی خوش فہمی ہے۔ عوام کا مزاج تبدیل ہو چکا ہے وہ انہیں بیوقوف نہیں بنا سکتیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اقتدار کے لیے بے چین پرانی سیاسی جماعتیں ان کی خوشحالی انصاف اور تعلیم و صحت کے حوالے سے کوئی پروگرام نہیں رکھتیں اگر رکھتی ہوتیں تو اب تک ملک میں ایک انقلاب برپا ہو گیا ہوتا مگر وہ تو اپنے آشیر آبادیوں کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف رہیں۔ اب بھی وہ واشنگٹن اور اس کے ذیلی ادارے آئی ایم ایف سے لپٹی ہوئی نظر آتی ہیں جو عوام کو غربت و افلاس سے نجات دلانے کے لیے کوئی واضح منصوبہ نہیں رکھتے وہ اپنے مفادات کو ہی ترجیح دیتے ہیں ان کے مفادات میں سے سب سے اہم مفاد یہ ہے کہ کس طرح چین اور روس کا یہاں اثر و رسوخ نہ ہو سکے اور وہ قرضوں اور ”دابوں“ کے ذریعے حکمران طبقہ کو زیر نگیں رکھیں مگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ وقت گیا جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔
موجودہ سیاسی منظر جس کو تبدیل ہونے سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے کسی کی لاکھ کوشش کے باوجود نہیں رکنے والا کیونکہ ارتقائی عمل پیچھے کی جانب کبھی نہیں سفر کرتا اسے ہر صورت آگے بڑھنا ہوتا ہے لہٰذا آج عوامی خواہشات کو اہمیت نہیں دی جا رہی تو کل انہیں اہمیت دینا پڑے گی لہٰذا خلق خدا کو راج کرنے میں بھی کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہو گا۔ یہ بات حکمران طبقہ سمجھ نہیں پا رہا وہ جو سوچ رہا ہے اجتماعی سوچ اس کی سوچ سے بہت بہتر ہے جو ترقی خوشحالی اور امن پر یقین رکھتی ہے لہٰذا علاقائی طاقتیں پہلی بار ان کے خیالات کو سمجھ رہی ہیں جس کے لیے اہل اقتدار کو قدرے روایتی طرز فکر سے باہر آنا پڑ رہا ہے اور وہ اپنے زاویہ فکر پرغور کرنے لگی ہیں اور یہ نیک شگون ہے بصورت دیگر نقصان سب کا ہو گا۔ شاید بلاول بھٹو زرداری نے اسی لیے کہنا شروع کیا ہے کہ پرانی سیاست اور پرانے لوگوں نے سوائے انتقامی سیاست کے کچھ نہیں کیا۔ بات ان کی دل کو لگتی ہے مگر کیا کیا جائے ہم لوگ دودھ کے جلے ہیں لہٰذا چھاچھ بھی پھونک کر پینا پڑتا ہے۔ حرف آخر یہ کہ آج لوگ پریشان تو ہیں دکھوں میں گھرے ہوئے ہیں مگر انہیں ہم یہ بتا دیں کہ بلند حوصلوں کے آگے کھڑے پہاڑ آخر کار راستے سے ہٹ جایاکرتے ہیں۔
ایک دن اپنے سفینے ہوں گے ساحل آشنا
غم نہیں کوئی اگر جذبوں میں طغیانی رہے
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.