سیاسی پولرائیزیشن میں کمی۔۔۔۔۔۔وقت کی ضرورت!

126

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ ملک انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہم الیکشن کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ الیکشن کمیشن پر پورا اعتماد ہے شفاف انتخابات کرائے گا۔ پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جو ہر ماحول میں الیکشن لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ۸ فروری کو اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئے گی۔ جناب آصف علی زرداری کا یہ بیان ایک ایسے ماحول میں جب ان کے صاحبزادے اور اُن کی جماعت کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری ماضی قریب کی اپنی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ن) کے خلاف مخالفانہ بیان بازی ہی جاری نہیں رکھے ہوئے ہیں بلکہ اس کی اعلیٰ ترین قیادت پر تابڑ توڑ حملے بھی کر رہے ہیں، یقینا ایک ٹھنڈے ہوا کے جھونکے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جناب آصف علی زرداری کے اِس بیان کے مطابق اگر سیاسی ماحول پروان چڑھتا ہے تو اس سے بلا شُبہ سیاست میں موجود پولرائزیشن (باہمی مخالفت) میں جہاں کمی آئے گی وہاں ضِد، انا پرستی اور غیر ضروری الزام تراشی کی فضا کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔

انتخابات کے انعقاد کے قریب مخالفانہ بیان بازی، اپنے سیاسی حریفوں کو نشانہ بنانا اور ان پر سخت تنقید کرنا کوئی انہونی بات نہیں۔ یہ ایک عام معمول کی بات ہے کہ ماضی میں جب بھی ملک میں عام انتخابات منعقد ہوئے ان سے قبل انتخابی مہم کے دوران سیاسی مخالفین اور حریفوں کو ایک دوسرے کی طرف سے کڑی تنقید اور الزام تراشیوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ تاہم باہمی تنقیداور ایک دوسرے کو اپنی سیاسی بیان بازی کا نشانہ بنانا ایک حد تک ہی روا سمجھا جا سکتا ہے۔ اس سے بڑھ کر یا ہٹ کر مخالفانہ بیان بازی اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ جاری رہے تو اس میں جہاں ملک کی سیاسی فضا اور ماحول میں دشمنی کی حدوں کو چھونے والی تلخی، ضِد اور نفرت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں وہاں ملک میں سیاسی عدم استحکام کو فروغ ملتا ہے جس سے ملکی سلامتی بھی خطرات سے دو چار ہوتی ہے۔

سیاسی پولرائیزیشن اور سیاسی حریفوں کی دشمنی کی حدوں تک ایک دوسرے کی مخالفت کرنے کے حوالے سے ہماری تاریخ کچھ ایسی اطمینان بخش اور قابلِ تقلید نہیں رہی ہے۔ یہاں زیادہ تفصیل میں نہیں جاتے کہ یہ سب تاریخ کا حصہ ہے تاہم ماضی کاکچھ حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ راقم کو یا د ہے کہ ملک میں جنرل یحییٰ خان کا مارشل لاء نافذ تھا کہ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات کا اعلان ہوا اور یہ انتخابات پہلے ستمبر ۱۹۷۰ء میں ہونے طے پائے۔ لیکن مشرقی پاکستان میں ہولناک سمندری طوفان کی تباہ کاریوں کی وجہ سے ان کو دسمبر ۱۹۷۰ء تک ملتوی کر دیا گیا۔ اس طرح اِن انتخابات کے لیے چلائی جانے والی انتخابی مہم بہت طویل ہو گئی جس کے دوران ایک طرف مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے مغربی پاکستان کے بارے میں نفرت کے جذبات کو خوب ہوا دی تو دوسری طرف مغربی پاکستان میں جناب ذولفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی مخالف دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں جن میں جماعت اسلامی سر فہرست تھی نے ایک دوسرے کو خوب نشانہ بنایا۔ اسی طرح سیاسی فضا اور ماحول میں تلخیوں، الزام تراشیوں اور بد اعتمادی میں جو اضافہ ہوا اس کے اثرات اگلے کئی برسوں تک سامنے آتے رہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں اِس کا کچھ حصہ رہا تو مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) میں مرحوم ذوالفقار علی بھٹوکی پیپلز پارٹی کے خلاف نو (۹) سیاسی جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی تشکیل اور بعد میں اِسی اتحاد کے تحت مارچ ۱۹۷۷ء کے انتخابی نتائج میں دھاندلی کو بنیاد بنا کر ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے لیے ملک گیر احتجاجی تحریک کے شروع ہونے میں اس کا کچھ نہ کچھ کردار ضرور رہا۔اس کے ما بعد جو اثرات سامنے آئے وہ کئی عشروں تک سمیٹے نہ جا سکے۔

یہاں ملکی تاریخ کے ماضی کے واقعات کو دہرانا مقصود نہیں، صرف یہ کہنا ہے کہ غیر ضروری بیان بازی اور جھوٹے الزام کبھی بھی خیر اور بھلائی کا باعث نہیں بنتے۔اُن کے ہمیشہ منفی نتائج سامنے آتے ہیں جن سے ملکی استحکام اور باہمی اتحاد و یگانگت کی فضا کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ زیادہ دور نہیں جاتے تحریکِ انصاف کے قائد عمران خان کے اندازِ فِکر اور طرزِ سیاست کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ مئی ۲۰۱۳ء کے انتخابات کے بعد عمران خان نے قومی سیاست میں جو راہ اپنائی۔ ضِد، ہٹ دھرمی، الزام تراشی، افترا پر دازی اور منتقم مزاجی کے جس کلچر کو فروغ دیا اور اگست ۲۰۱۸ء میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد اپنے اس اندازِ فِکر و نظر اور طرزِ حکمرانی کو معراج پر پہنچایا۔ اس کے منفی اثرات آج ہمارے سامنے موجود ہیں۔قوم برُی طرح تفریق کا شکار ہے۔ نوجوان نسل کے ذہن اِس طرح پراگندہ ہیں کہ وہ کوئی معقول بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ جھوٹ، بہتان تراشی، سُنی سنائی باتوں پر یقین کر لینا، افواہ سازی اور سیاسی مخالفین اور اُن سے بڑھ کر قومی اور ریاستی اداروں کو ہدفِ تنقید بنانا اور اسی طرح کی دوسری منفی باتوں کو فروغ دینا ہمارا عمومی چلن بن چکا ہے۔

بلا شبہ اس وقت ہمارے لیے یہ امر انتہائی ضروری ہے کہ ہم باہمی روا دراری اور تحمل و برداشت کو فروغ دیں۔ قومی انتخابات سر پر ہیں۔ انتخابی شیڈول کے اعلان کے ساتھ ہی انتخابی مہم زور پکڑ لے گی۔ اس میں اپنے سیاسی حریفوں کو نیچا دکھانا یا انہیں ہدفِ تنقید بنانا کوئی معیوب بات نہیں ہو گی لیکن یہ کام منفی اندازِ فکر و نظر اختیار کرنے کی بجائے مثبت اندازِ فِکر و نظر اپنا کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ پھر یہ بھی ضرور دیکھ لینا چاہیے کہ جو کچھ کہا جا رہا ہے، کہنے والا اس کے کہنے میں حق بجانب ہے یا نہیں۔ اب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری میاں شہباز شریف کی سولہ ماہی اتحادی حکومت کے اقدامات اور فیصلوں کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں اور اکیلی مسلم لیگ (ن) کو ہوش ربا مہنگا ئی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو اِسے معقول اندازِ فِکر و نظر نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔ بہتر ہے کہ وہ اپنے والد گرامی اور اپنی پارٹی کے شریک چیئر مین جناب آصف علی زرداری کے معتدل اندازِ سیاست اور فکر و نظر کو اپنائیں جس کا ذکر کالم کی ابتداء میں کیا گیا ہے۔

تبصرے بند ہیں.