ڈاکٹر وقار ملک صاحب صحافت اور ابلاغیات کے استاد ہیں۔ 1989 میں جامعہ پنجاب کے شعبہ صحافت سے ایم۔اے کرنے کے بعد آپ نے بطور صحافی عملی زند گی میں قدم رکھا۔ پانچ چھ برس تک صحافت کے میدان میں متحرک رہنے کے بعد تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ جامعہ پنجاب کے شعبہ صحافت کیساتھ منسلک ہوئے اور کم بیش 30 برس تک اس ادارے کے ساتھ جڑے رہے۔ چند دن پہلے ڈاکٹر صاحب ریٹائر ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر وقار ملک نے اس ادارے میں مسکین علی حجازی، ڈاکٹر مہدی حسن ڈاکٹر مغیث الدین شیخ مرحوم جیسے بڑے ناموں کے ساتھ کام کیا۔ انہی نامور اساتذہ کی طرح، ڈاکٹر صاحب بھی اپنے طالب علموں میں مقبول رہے۔ ان کے سینکڑوں، ہزاروں شاگرد عملی صحافت کا حصہ ہیں۔ طالب علموں کو صحافت کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب نے صحافت سے قطع تعلق نہیں کیا۔ آپ مختلف قومی اخبارات اور جرائد کے لئے فکر انگیز موضوعات پر کالم لکھتے رہے۔ نامور قومی شخصیات کے انٹرویوز کرتے رہے۔ انہوں نے کتابیں بھی تحریر کیں۔ کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر وقار ملک صاحب کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔ یہ دراصل ممتاز قانون دان اور سابق وزیر قانون ایس۔ایم۔ظفر سے ان کا پچیس برس پر محیط مکالمہ ہے۔ اس تناظر میں اس کتاب کا نام ”مکالمہ“ ہے۔
برسوں قبل ڈاکٹر وقار ملک نے معروف صحافی زاہد ملک کے اردو اخبار ”الاخبار“ میں ایس۔ایم۔ظفر کے انٹرویو کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ انہوں نے بیسیوں قومی اور بین الاقوامی موضوعات پر ظفر صاحب کے ساتھ مکالمہ کیا۔ اس سلسلے میں ان کی ایس۔ایم۔ظفر سے سینکڑوں ملاقاتیں ہوئیں۔ ڈاکٹر صاحب ایس۔ایم۔ظفر سے کسی سیاسی، سماجی، معاشی، تعلیمی موضوع پر گفتگو کرتے۔ ان سے سوالات پوچھتے۔ ان کے تاثرات نوٹ کرتے اور اس مکالمے کو اخبار یا جریدے میں شائع کر دیتے۔ یہ سلسلہ کم و بیش پچیس برس تک جاری رہا۔ اب ڈاکٹر صاحب نے ایس ایم ظفر کیساتھ ہونے والے طویل مکالمے کو کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ یہ کتاب مختلف حصوں میں تقسیم ہے۔ کتاب کے پہلے حصے میں ایس۔ ایم۔ظفر کے حالات زندگی پر مشتمل گفتگو پر مبنی مضامین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تصورپاکستان، انسانی حقوق، عدلیہ، جمہوریت، مذہب، سائنسی امور، مسئلہ کشمیر / پاک بھارت تعلقات،مسئلہ فلسطین، بین الاقوامی امور، اہم قومی مسائل، دہشت گردی، کالا باغ ڈیم، ذرائع ابلاغ، طنز و مزاح اور دیگر ناموں سے ابواب موجود ہیں۔ ہر باب یا سیکشن میں اس موضوع سے جڑے کئی مضامین شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے انٹرویو کو نہایت دلچسپ اور منفرد انداز میں شائع کیا ہے۔ مکالمے میں ڈاکٹر وقار کی ذاتی رائے، تجزئیے اور تبصرے بھی شامل ہیں۔ مختلف موضوعات پر ہونے والے مکالمے کو دلچسپ مضامین کی شکل دی گئی ہے۔
کتاب کے آغاز میں ڈاکٹر صاحب نے ”جس ایس۔ایم۔ظفر سے آپ واقف نہیں“کے نام سے ایک نہایت دلچسپ باب لکھا ہے۔ اس باب میں ایس۔ایم۔ظفر کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے تعلقات اور ان کی شخصیت کے بارے میں تاثرات موجود ہیں۔ وہ ایس۔ ایم۔ظفر کی شخصیت اور زندگی کے کچھ ایسے گوشوں سے پردہ ہٹاتے ہیں۔ جو عوام کی نگاہوں سے اوجھل ہیں۔ مثال کے طور پر لکھتے ہیں کہ ایس۔ایم۔ظفر وقت کے درست استعمال کے ہنر سے آگاہ تھے۔ عمر بھر انہوں نے وقت ضائع نہیں کیا۔ ایک بار کہنے لگے کہ انہوں نے عربی زبان سیکھ لی ہے۔ ڈاکٹر وقار ملک کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ بازار سے عربی زبان سیکھنے کے لئے کیسٹیں خرید لائے تھے۔ شیو کرتے وقت وہ کیسٹ لگا لیا کرتے۔ اس طریقے سے کچھ عرصے میں انہوں نے اتنی عربی زبان سیکھ لی کہ عربی میں بات چیت کر سکیں۔ اس باب میں ان کی تحمل مزاج شخصیت کے ضمن میں یہ قصہ بھی درج ہے کہ ایک مرتبہ ان کی بیٹی روشانے ظفر نے ایک ٹریفک وارڈن کی بدتمیزی کی شکایت کی۔ ظفر صاحب نے اس موقع پر نہایت تحمل کا مظاہرہ کیا اور اپنے سیکرٹری کے ذریعے وارڈن کو فقط یہ پیغام بھجوایا کہ خواتین سے شائستگی سے بات کرنی چاہیے۔ اس کتاب کو پڑھ کر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح سخت محنت اور جدوجہد کے ذریعے ایس۔ ایم۔ظفر ترقی کی منازل طے کرتے چلے گئے اور اپنے شعبے میں نام پیدا کیا۔ ایسی کتابیں اور قصے نوجوانوں کو ضرور پڑھنے چاہئیں تاکہ انہیں تحریک ملے کہ جہد مسلسل سے وہ بھی اپنی زندگی بدل سکتے ہیں۔
ایس۔ایم۔ظفر سیاست میں بھی متحرک رہے۔ وزیر قانون بھی رہے۔ ان کے سیاسی نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ملک کے ذہین اور ممتاز قانون دان ہیں۔ متنوع موضوعات پر ا ن کے ساتھ ہونے والی گفتگو اور اس پر مبنی تحریریں واقعتا قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ یہ ایک علمی اور تاریخی دستاویز ہے۔آپ میں سے جو لوگ معروف اور کامیاب لوگوں کے حالات زندگی اور جدوجہد جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہیں یہ کتاب پڑھنی چاہیے۔ مختلف قومی اور بین الاقوامی موضوعات کو سمجھنے اور ان پر دانشورانہ نکتہ نظر سے آگاہی کے لئے بھی یہ کتاب پڑھنا ضروری ہے۔ میری تجویز ہے کہ طالب علم یہ ضرور یہ کتاب پڑھیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.