تبدیلی پہلے نہیں آئی تھی اب آ رہی ہے، روک سکو تو روک لو، ڈنڈا چل پڑا، مفاداتی سیاست کے سرغنہ افراد اور حالات کے بے قابو ہونے پر تجوریاں اور گودام بھرنے والوں کے سروں پر برسنے لگا ہے۔ ”حافظ ڈاکٹرائن“ کے تحت چومکھی لڑائی شروع ہو گئی، پہلے احتساب، سخت احتساب کے نتیجہ میں انقلاب اور پھر پُر امن انتخابات، ٹیکس چوروں، ڈالر کے ذخیرہ اندوزوں، سمگلروں اور سٹہ مافیا کی گردنوں پر ہاتھ ڈال دیا گیا، کریک ڈاؤن، بے رحم آپریشن کا آغاز، ”ملک میں مضموں نہ پھیلا اور ڈنڈا چل گیا“ کارروائیاں، پکڑ دھکڑ، آرمی چیف کا عزم مصمم، ”ملک کو ٹھیک کر کے چھوڑیں گے“ ”چراغ سب بجھیں گے ہَوا کسی کی نہیں۔“ 6 ستمبر یوم دفاع کے موقع پر اپنے پیغام، کراچی اور لاہور میں تاجروں اور صنعتکاروں سے خطاب اور کور کمانڈرز کانفرنس میں ان کا موقف واضح تھا کہ ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ ہم معیشت کو بچائیں گے۔ ریاستی اداروں اور عوام کے درمیان خلیج پیدا کرنے کے لیے مذموم پروپیگنڈا کرنے والوں کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ 10 نکاتی ڈاکٹرائن پر عملدرآمد کے لیے ہدایات جاری کر دی گئیں، 48 گھنٹوں میں ڈنڈے کے کمالات ظاہر ہونے لگے۔ ڈالر 18، 20 روپے کم ہو کر 304 پر آ گیا۔ بے مہار اضافہ رک گیا۔ ڈالر فروخت کرنے والوں کی بینکوں میں لائنیں، پشاور یادگار چوک کی کرنسی مارکیٹ بند، طورخم اور چمن کے راستے بوریاں بھر کر افغانستان سمگل کرنے والے ڈالروں کے سمگلر غائب، کراچی میں حوالہ ہنڈی کے ذریعہ ڈالروں کی ترسیل کی نگرانی، بڑی کھیپ پکڑی گئی، سٹیٹ بینک کرنسی ایکسچینج کمپنیوں سے ڈالر خریدے گا۔ کراچی سمیت ملک بھر میں بجلی چوروں کے خلاف آپریشن، رینجرز کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ کراچی کے نواحی علاقوں میں کنڈے اور غیر قانونی کنکشن کاٹ دیے گئے۔ کروڑوں کی بجلی چوری کرنے والی ملوں اور فیکٹریوں کے خلاف بھی کارروائی، فہرستیں تیار، گرفتاریاں ہوں گی۔ لاہور میں ساڑھے تین سو کیسز پکڑے گئے، سب سے زیادہ بجلی چوری کے علاقہ خیبر پختونخوا میں کارروائی تیز، واپڈا اور بجلی کمپنیوں کے اہلکاروں کو بھی پکڑا جائے گا۔ بجلی اور مہنگائی کے خلاف عوام کا احتاج رنگ لے آیا۔ اگر چہ آئی ایم ایف نے نگراں حکومت کا ریلیف پلان یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ریلیف دینے سے 6 ارب نہیں 15 ارب کا فرق پڑے گا۔ متبادل پلان دیا جائے۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ جو بجلی عوام استعمال نہیں کریں گے اس کے بل ان سے نہیں لیے جائیں گے۔ 200 یونٹس تک ریلیف دیا جائے گا۔ وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کے مطابق ہر سال 589 ارب کی بجلی چوری ہوتی ہے۔ بجلی کمپنیاں 100 ارب کا نقصان کرتی ہیں۔ صرف مردان میں ایک ارب کا نقصان ہوتا ہے۔ چوری والے علاقوں میں پرائیویٹ سیکٹر سے کام لیا جائے گا۔ چوری کے 589 ارب کو 25 کروڑ عوام پر تقسیم کیا جائے تو ہر شخص پر 2454 روپے بوجھ پڑتا ہے 5 افراد کے خاندان کو پندرہ ہزار روپے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ چینی مافیا کی مناپلی ہر دور میں برقرار، وجہ بڑی سادہ، شوگر مل مالکان اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں۔ بینکوں سے قرض لے کر شوگر مل لگائی تو قومی اسمبلی سے قرض معاف کرا لیا۔ ”ہینگ لگی نہ پھٹکری رنگ چوکھا آیا“ الا ما شاء اللہ۔ حالیہ بحران میں کیا ہوا۔ 20 اپریل 2023ء کو وزارت خوراک نے چینی کی قیمت 99 روپے 33 پیسے مقرر کی۔ نومولود پارٹی کے سربراہ دیگر مالکان کے ہمراہ لاہور ہائیکورٹ پہنچ گئے۔ وزارت نے سٹاک کی نگرانی کین کمشنر کے سپرد کی۔ ملوں نے سٹے آرڈر لے لیا۔ چینی گوداموں میں پہنچ گئی۔ بازاروں سے غائب 55، 56 ارب کا نقصان ہوا۔ اوپر تلے دو سٹے آرڈر ملنے سے مالکان کی چاندی سونا بن گئی۔ چینی کے دام بڑھنے لگے اسی دوران اتحادی حکومت میں بیٹھے بڑی پارٹی کے سربراہ نے زائد چینی برآمد کرنے کی تجویز دی۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ملکی کھپت (پانچ چھ ہزار ٹن) کی چینی محفوظ کر کے زائد مقدار برآمد کرنے کی اجازت دے دی برآمد ہوئی یا نہیں کچھ پتا نہیں۔ زر مبادلہ کا بھی علم نہ ہو سکا لیکن مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کر کے چینی 225 بلکہ دور دراز علاقوں میں ڈھائی سو روپے کلو دستیاب ہونے لگی۔ خوب ہاتھ رنگے گئے۔ ڈنڈا حرکت میں آیا تو قیمتیں کم ہوتے 180 روپے تک آ گئیں۔ ایک دو چھاپے پڑ گئے تو ”اور سدھر جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں“ حافظ ڈاکٹرائن کے مطابق بیرون ملک سے 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی۔ آئندہ سال 75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا امکان ہے۔ ملازمتوں میں اضافہ ہو گا۔ برآمدات کو 70 ارب تک لایا جائے گا (اس وقت بیس اکیس ارب سے زیادہ نہیں درآمدات 74 ارب ہیں) ان خوابوں کی تعبیر کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ آنے والی ہر حکومت چارٹر آف اکانامی کو ترجیح دے گی۔ معاشی انقلاب کی دعا کرنی چاہیے۔
الیکشن کا معاملہ ابھی تک ڈیڈ ہے۔ وہی پرانا جھگڑا، اونٹ کے گلے میں گھنٹی کون باندھے، تاریخ کا اعلان کون کرے گا؟ صدر اپنی آئینی مدت (8 ستمبر کی رات 12 بجے) پوری ہونے سے پہلے تاریخ کا اعلان کرنے کے لیے پر تول رہے تھے لیکن 8 ستمبر گزرنے کے بعد خاموش ہو گئے۔ آئندہ انتخابات تک ایوان صدر ہی میں مقیم رہیں گے۔ تنخواہ میں اضافہ نہیں ہوا۔ اسی تنخواہ پر کام کرتے رہیں گے اگرچہ بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ صدر نے صورتحال سے مایوس ہو کر استعفیٰ دے دیا ہے ان کا استعفیٰ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ سامان پیک کیا جا رہا ہے۔ چلنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ مگر اندر کا حال کسے معلوم شاید چلے جائیں یا پھر شاید ہرگز نہ جائیں۔ ہوش و حواس عقل و خرد والے کوئی ایڈوائس بھیج دیں۔ مایوسی کی وجہ پچھلے دنوں ایک ملاقات بنی، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ایوان صدر کے چوتھے سنسان فلور پر ان سے دو گھنٹے تبادلہ خیال کیا کیا کہا کیا سنا؟ کراماً کاتبین راہم خبر نیست مگر صدر محترم کو چپ لگ گئی۔ خبروں کے مطابق مقتدرہ کی دونوں اعلیٰ شخصیات نے چیف الیکشن کمشنر سے بھی بات چیت کی۔ وہی تاریخ کا اعلان کریں گے ممکن ہوا تو جنوری میں بھی الیکشن ہو سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ بھی کوئی فیصلہ دے سکتی ہے۔ اسی دوران وکلا نے بھی اپنے کنونشن میں 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کے لیے تحریک چلانے اور 14 ستمبر کو عدالتوں کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے تند و تیز تقریریں کیں۔ اب کون سے 90 دن رہ گئے۔ مقتدرہ ملک کو صحیح سمت میں ڈالنے کے لیے کچھ وقت چاہتی ہے۔ کنویں سے ڈھائی سو بالٹیاں نکالنے سے کنواں پاک نہیں ہو گا۔ کئی مردار نکالنا ہوں گے۔
کچھ بڑا ہونے والا ہے۔ سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ آئندہ چند دن اہم ہیں۔ حالات کروٹ بدل رہے ہیں۔ 16 ستمبر میں 6دن باقی ہیں۔ تین چار فیصلے آ سکتے ہیں یا پھر شاید چھوٹے فیصلوں پر اکتفا کر لیا جائے خان کو اٹک جیل میں پڑے ایک ماہ سے زائد ہو گیا۔ ”اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے (خدانخواستہ) سیانے کہتے ہیں۔ ان کا باہر آنا کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا۔ ان کے مستقبل کا فیصلہ کہیں اور ہو گا۔ مقتدرہ اور سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی پیشکش ہوا میں اڑا دی گئی۔ مقتدرہ کی جانب سے تین شرائط رکھی گئیں۔ سانحہ 9 مئی کی مذمت، اظہار ندامت، سیاست سے مکمل دستبرداری اور پارٹی کی قیادت کسی اور کے حوالے، سب سے بڑا مسئلہ گارنٹی کون دے گا۔ بد قسمتی سے اس کے لیے کوئی تیار نہیں، اہلیہ محترمہ کی گرفتاری کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ ایک ممتاز اور معروف صحافی نے بقائمی ہوش و حواس خبر دی کہ انتخابات فروری میں ہوں گے تاہم ان میں پی ٹی آئی ہو گی نہ بلے کا نشان، خان اس وقت بھی جیل میں ہوں گے۔ راجہ ریاض اور فیصل واوڈا بھی مسلسل اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔ بات حیران کن بلکہ خطرناک بھی ہے۔ ایسا کیسے ہو گا کیا سانحہ 9 مئی کے سلسلہ میں خاں سمیت 68 ملزموں کے خلاف ٹھوس شواہد 16 ستمبر کے بعد عدالتوں اور الیکشن کمیشن میں پیش کیے جائیں گے۔ جن کی بنا پر ملزموں کو لمبی سزائیں اور پارٹی کو لمبی مدت کی پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہاں بھی حتمی فیصلہ عدالت عظمیٰ کرے گی۔ شنید ہے کہ پندرہ یا 16 ستمبر کے بعد چند بڑی گرفتاریاں ہوں گی۔ بچے کھچے بھی پکڑے جائیں گے۔ فوج کو دھول چٹانے کی سازش کرنے والوں کو دھول چٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ مہارانی کی گرفتاری بھی طے ہو چکی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی ضمانتیں کرا کر نڈھال ہو گئے ان کی گرفتاری ٹیسٹ کیس ہے وہ جس سسٹم کی بی ٹیم رہے اسی سسٹم کی پکڑ میں آ گئے۔ سیانے سچ کہتے ہیں کہ اس قسم کے کاموں میں بد عہدی اور بد اعتمادی سے بچنا چاہیے یہی حال رہا تو خدانخواستہ کسی مقدمہ میں کسی ایسی جگہ پہنچا دیے جائیں جہاں وہ کسی کے بھی دائرہ اختیار میں نہ رہیں۔ انہیں اور ان جیسے ہوش کے ناخن کٹوانے والوں کو بارہا سمجھایا گیا کہ چاروں اطراف اندھیرا ہے جاگتے رہنا۔ تمہیں بھی رات نے گھیرا ہے جاگتے رہنا۔ مگر مکے لہراتے رہے۔ آرمی چیف نے آٹھ دس سیاستدانوں کے خلاف کرپشن کی تحقیقات کا بھی عندیہ دیا ہے۔ ان میں چار نام واضح طور پر لیے ہیں جو اسد قیصر، محمود خان، عمران اسماعیل اور پرویز خٹک تھے۔ چاروں غالباً ہمیشہ کے لیے یا وقتی طور پر خان کا ساتھ چھوڑ چکے لیکن کیا لا تعلقی انہیں احتساب سے بچا سکے گی اس کا انحصار 15 سے 20 ستمبر کے دوران فیصلوں اور اقدامات پر ہو گا۔ سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ ستمبر کے دوران قیامت صغریٰ نہیں قیامت کبریٰ ٹوٹے گی۔ محبت میں بے خود سہولت کاروں کے خلاف بھی ڈنڈا اٹھایا جائے گا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.