نوحہ کناں ہیں کہ ریاستِ پاکستان کا دگرگوں سسٹم بالآخر اپنی آخری ہچکی لے چکا ہے۔ ملک کے سوختہ بال باسیوں کے لیے اُمید کی کوئی کرن نہیں بچی۔ تار پر گیلے کپڑے ڈالتے جائیں تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ تار ٹوٹ جاتا ہے۔ صاف دیدہ رہبروں نے جس بے رحمی سے ریاست پر شب خون مارا ہے اس کے باعث چار کھونٹ روزِ اسود کی سیاہی پھیل چکی ہے۔حالات کی سرگوشیاں بتارہی ہیں کہ اس بار کچھ ایسا ہونے جارہا ہے جو پاکستان کی 5فیصد طاقتور اشرافیہ کے وہم و گمان میں بھی نہ ہے۔ارباب اختیار و اقتدار نے کرپشن، لوٹ مار اور ہوس و حرص کی جو خاردار فصل کئی دھائیوں سے بوئی ہے، وہ پک کر تیار ہوچکی ہے۔ اب کی بار ہاتھوں سے لگائیں گئیں گرہیں دانتوں سے کھولنی پڑیں گیں۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ستم رسیدہ عوام کی داد رسی اور تقدیر کے بدلنے کا دعوے دار ہر حکمران و ارباب اختیار اپنی اور اپنے خویش واقارب کی زندگیاں سنوار کر چلتے بنے۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
بجلی کے ہوشربا بلوں سے عوام میں پیدا ہونے والی حالیہ بے چینی اور غیض و غضب ہے کہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ گویا ایک آتش فشاں ہے کہ پھٹنے کو تیار ہے۔پورے ملک میں مظاہرے شروع ہو چکے ہیں جو آنے والے دنوں میں مزید منظم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ تحریک کسی لیڈر کے مرہون منت نہیں بلکہ خالصتاً وہ عوامی تحریک ہے جو اپنی لیڈر شپ کا چناؤ بھی خود ہی کرلے گی۔ حکومت کے پاس اقدامات لینے کا وقت بھی کم ہے۔ ایک بار ایک وکیل نے بتایا تھا کہ پاکستان میں کبھی وہ وقت نہیں آسکتا جب ملک کی پانچ فیصد اشرافیہ اور اسکی عیاشیوں کے خلاف 95فیصد اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ خونی انقلاب کی جڑوں میں بھوک ہوتی ہے۔ پاکستان کی 70فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ وہ بھوکی نہیں رہتی۔ ان کے گھر میں گھی اور چاول نہ بھی ہوتو وہ روٹی پر پیاز رکھ کر یا پھر مرچوں کی چٹنی بنا کر کر کھالیتے ہیں۔ ملک کی طاقتور اشرافیہ انہیں در خور اعتنا نہیں سمجھتی اور ان کے نزدیک ان کا وجود بھیڑ بکریوں سے زیادہ نہیں۔ باقی شہروں میں تیس فیصد آبادی بشمول سول سوسائٹی تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر کر اپنا اتحاد تک کھو چکی ہے۔ یہ ایسی بڑی تحریک چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتی جو مقتدر حلقوں یا ملک کی حکمران اشرافیہ کے لیے دردِ سر بنے۔لیکن اس بار بدلتے حالات کچھ اور ہی خبر دیتے ہیں۔ مہنگی ترین بجلی کا بیس پچیس ہزار کا بل اگر شہر میں رہنے والے سفید پوش یا غریب کے گھر آرہا ہے تو اتنا ہی بل گاؤں میں روٹی پر پیاز رکھ کر کھانے والے کو بھی پہنچ رہا ہے۔ یعنی وہ تمام انتظامات کردیے گئے ہیں جس کی وجہ سے آنے والے دنوں میں شہری آبادی کے ساتھ دیہی آبادی کی اکثریت بھی سڑکوں پر نظر آئے گی۔ چنانچہ ابھی بھی وقت ہے کہ
مقتدر حلقے اور شتر بے مہار برسرِ اقتدار اشرافیہ ہوش کے ناخن لے۔ پولیس کے ایک ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ نظام کو کچھ نہیں ہوا، یہ ویسے ہی چل رہا ہے جیسے انگریز دور میں چل رہا تھا یہ آج بھی حکمران اشرافیہ کی خدمت پر پوری تندہی سے کر رہا ہے۔ انگریز دور میں ڈی سی کا کام حکومت کے لیے زیادہ سے زیادہ ریونیو اکھٹا کرنا تھااور پویس کا کام عوام کو ڈنڈے کے زور پر قابو میں رکھنا۔ اب یہ ظالمانہ ٹیکس اکٹھا کر کے حکمران اشرافیہ کے جیبوں میں ڈالا جاتا ہے۔ نظام کا جبر شاہ کو فقیر اور فقیر کو شاہ بنانے میں دیر نہیں لگاتا۔ اس کی تازہ مثال اینٹی کرپشن کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے پی سی بی ایل کے سابقہ چیئرمین طارق محمود ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے عرصہ تعیناتی کے دوران نچلے درجے کے 20 سے زائد ملازمین کو غیر قانونی طور پر مستقل کیا۔ تاہم ذرائع کے مطابق اس کے پیچھے رائیونڈ لاہور میں ایک ہزار کنال پر محیط وہ سرکاری اراضی ہے جو مبینہ طور پر نواز شریف دور کے طاقتور سابقہ بیوروکریٹ احد چیمہ اپنے ایک پرائیویٹ شخص کو دلانا چاہتے ہیں جو اس پر غیر قانونی طور پر قابض ہے۔ طارق محمود کے انکار پر پہلے تو انہیں او ایس ڈی بنادیا گیا پھر ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار کرا دیا گیا، حالانکہ یہ تمام ملازمین ڈیلی ویجز پر بھرتی کیے گئے تھے جو قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ نظام کی خوبی یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں عمران خان کی خوبیوں اور پالیسیوں کی بھرپور وکالت کرنے والے پولیس افسررفعت عباس کو آئی جی سندھ تعینات کردیا گیا ہے جبکہ پولیس کے چند قابل ترین ڈی آئی جیز میں شمار ہونے والے ڈی آئی جی احمد جمال جو کچے جیسے علاقہ میں آپریشن کا وسیع تجربہ بھی رکھتے ہیں کو کھڈے لائن لگا دیاگیا۔ اپنے گزشتہ کالم میں جن طاقتور انسپکٹرز کا ذکر کیا تھا ان میں سے ایک انسپکٹر مظہر اقبال کے سرکاری دفتر میں اینٹی نارکوٹکس فورس نے چھاپہ مار کر کروڑوں روپے مالیت کی آئس، ہیروئن، دیگر منشیات اور نقدی برآمد کرلی۔ ملزم انسپکٹر جو ڈی ایس پی کی سیٹ پر تعینات تھا، کے ایک ساتھی تھانیدار کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ ملزم فرار ہونے میں کامیاب رہا۔نظام کس قدر تعفن زدہ ہوچکا ہے اس کا اندازہ پولیس کے ایک اہم افسر کے بیان سے لگایا جاسکتا ہے جس نے بتایا کہ مظہر اقبال مبینہ طور پر ہر ماہ ایک جج کی اہلیہ کو پانچ لاکھ روپے دیتا تھا۔سوال تو ہنوز حل طلب یہ ہے کہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے وہ کون ہے جس نے اسے اتنی اہم سیٹ پر تعینات کیا۔
تبصرے بند ہیں.