اکھاڑ پچھار و برطرفی

90

محسن نقوی کو بطور وزیر اعلیٰ ذمہ داریاں سنبھالے ہوے چند ماہ گزر گئے۔ یہ اتنی معمولی مدت ہے کہ صوبائی سطح پر کسی بڑی تبدیلی کی توقع رکھنا یا کیے گئے اقدامات کے فوری نتائج تلاش کرنا یقیناً غیر منطقی ہو گا۔ ہمارے ہاں یہ رواج رہا ہے کہ جو بھی حکمران آتا ہے کسی نہ کسی سطح پر ذاتی یا اپنے اقربا کے فائدے کا کچھ نہ کچھ کرتا یا کر جاتا نظر آتا ہے جبکہ محسن نقوی نے ہر ممکن ایسے کسی بھی کام سے اجتناب کی کوشش کی ہے جس سے ان کی ذات پر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع ملے۔ بلکہ ہسپتال ہوں یا تھانے یا یونیورسٹیوں میں اٹھنے والے طوفان، وزیراعلیٰ پنجاب نے فرنٹ فٹ پہ آ کے فیصلے کیے ہیں اور انسانی احساس کی بنیادوں پر اور قومی فریضہ سمجھتے ہوے فوری اقدامات اٹھائے ہیں۔ یہی صورت حال ان کی کابینہ کی بھی ہے جس میں وزراء کی اکثریت نہایت خاموشی سے اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں۔ لے دے کے عامر میر ہی سب کے سامنے بُرا بنا ہوا ہے۔ لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ہر طرح کا ملبہ اٹھانے کے لیے اس کے علاوہ کسی اور نے کندھا پیش کرنے کی ہمت ہی نہیں کی۔ سب سے مشکل مرحلہ وہ تھا جب عمران خان اپنی سیاسی عاقبت نااندیشی کے باعث روزانہ کی بنیاد پر احتجاج احتجاج کھیل رہے تھے اور ان کے چاہنے والوں نے ذرا سی مخالفت بھی کرنے والے کو سوشل میڈیا پر آڑے ہاتھوں لیا ہوا تھا۔ اس وقت عامر میر کی جگہ کوئی بھی دوسرا حکومتی ترجمان بغل میں منہ دے کے رفو چکر ہو جاتا۔ یہ عامر میر ہی تھا جس نے حکومت پنجاب کی ترجمانی کا حق ادا کیا۔
ذرائع کے مطابق الحمرا کے ڈائریکٹر سلیم ساگر کو دو تین دفعہ پوسٹ سے ہٹانے کی کوشش کی گئی لیکن چیف منسٹر نے چیف سیکریٹری کو ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ پھر ڈائریکٹر سلیم ساگر کے تبادلے سے پہلے الحمراء میں ہونے والے کمرشل ڈرامے کے دوران اچانک فحش ڈانس ہوا اور اس کی ویڈیوز بھی بن گئیں اور چیف منسٹر تک پہنچ بھی گئیں۔ جس کے بعد آناً فاناً ایک صاف شفاف ریکارڈ رکھنے والے افسر کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ برستی دکھائی دی۔ وہ سلیم ساگر جو کسی ادبی پروگرام کے لیے بھی ہال دیتے ہوئے کرایہ مانگتا ہے اور کہتا ہے مفت نہیں دے سکتے رولز نہیں ہیں اور بجٹ کے مسائل بھی ہیں۔ جو اپنے باس اور سیکریٹری انفارمیشن کی بار بار سفارش کے باوجود عشق آباد کمپنی یا این جی او کے کرتا دھرتا عباس تابش کو فیسٹیول کی مد میں پانچ لاکھ معاف نہیں کرتا اور لے کے چھوڑتا ہے ایسا افسر ملک، صوبے یا چیف منسٹر کی ضرورت تو ہو سکتا ہے سیکریٹری کو وارے کہاں کھاتا ہے۔ نازیہ جبین کو الحمراء کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا چارج دیا گیا اس نے دن رات کی محنت سے مشکل ترین وقت میں شاندار میلہ کرا کے دکھا دیا انعام کے طور پر اس کی چھٹی کرا دی گئی، سلیم ساگر نے تین ماہ میں پچاس سے زائد ایونٹ کرائے انعام کے طور پر فارغ۔ سابق ایڈیٹر مجلہ اقبال نے مدتوں سے بے ضابطگی کا شکار چلے آتے سہ ماہی اقبال کے دو پرچے وقت پر نکال کے مجلے کو ٹریک پر چڑھا دیا انعام کے طور پر سیکریٹری انفارمیشن نے بذات خود اپنے مبارک دستخطوں سے اسے ٹرمینیٹ کر دیا۔ شفیق احمد خان جیسا صاحب مطالعہ ادیب پاکستان میں کوئی کوئی ہی ہو گا 23 اگست کو مجلس ترقی ادب کے صدر نشین عباس تابش نے یہ کہہ کہ ان کو ٹرمینیٹ کر دیا کہ سیکریٹری صاحب کا حکم ہے۔ پچھلے دو ہفتوں سے وہ مجلس ترقی ادب کے دو سٹاف ممبرز پر مسلسل دباؤ ڈال رہا تھا کہ استعفے دے دو مجھ پر دباؤ ہے بہت زیادہ۔ اس وقت پاکستان بلکہ دنیا بھر کے پاکستانی ادیب شاعروں کی طرف سے سیکریٹری انفارمیشن کی عباس تابش پر مسلسل نوازشات پر سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر سیکریٹری صاحب کا جتنا بھی قریبی تعلق ہو تابش سے ان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اپنے اختیارات کے ذریعے اس کے آگے حکومت پنجاب کے ادارے بچھا دیے جائیں۔
میں نے ذاتی طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کے ساتھ ان کے چینل میں ایک سال کام کیا ہے۔ وہ چپڑاسیوں کے ساتھ بیٹھ کے کھانا کھاتے ہیں۔ سکیل میں جتنا کم ملازم ہو اس کے ساتھ اتنی زیادہ محبت اور مہربانی سے پیش آتے ہیں۔ کسی قریبی کو اپنے ذاتی اداروں میں بھی غیروں پر صرف قرابت داری کی وجہ سے ترجیح نہیں دیتے۔ سٹاف کے دکھ درد کا احساس رکھنے والے وزیر اعلیٰ کی عین ناک کے نیچے وزارت ثقافت کی اکھاڑ پچھاڑ ہی بند نہیں ہو رہی تو صوبے کے امیج کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کون کرے گا۔ اگر سبق سیکھنا ہے تو آئی جی پنجاب سے ہی سیکھ لیا جائے جس نے خود کو گالیاں دینے والے سپاہی کو سینے سے لگا کے اپنا اور محسن نقوی کی حکومت کا امیج آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ دنیا بھر میں ایڈمنسٹریشن کا سب سے مقبول ماڈل کیئر اینڈ سپورٹ کو سمجھا جاتا ہے۔ سٹاف کے ٹرن اوور اور بار بار یا جلدی روٹیشن کو ایڈمنسٹریشن کی نا اہلی قرار دیا جاتا ہے۔ عمران خان کے خلاف اگر آج میرے جیسے بندے کے پاس اس کے نا اہل ہونے کی کوئی مضبوط دلیل ہے تو اس کی نالائق ٹیم کی سلیکشن اور بار بار کی اکھاڑ پچھاڑ ہے۔ کیونکہ یا تو آپ پہلے سے ہی پوری طرح دیکھ بھال کے کسی کی تقرری و تعیناتی کریں یا اگر کمزور آدمی پوسٹ پر رکھ بیٹھے ہیں تو اس کی مدد کر کے معاملات کو درست ڈگر پر چلائیں اور اگر کہیں خوش قسمتی سے کوئی قابل آدمی کام کر رہا ہے تو اس کے لیے حفاظتی حصار بن جائیں۔ لیکن یہ تمام سنہری اصول مخلص حکمرانوں اور عمال کے لیے ہیں جن کے دلوں میں ملک و قوم کی خیر کا جذبہ اور اپنی عزت کا احساس ہو۔ جن کا شوق ہی پورا نہ ہو رہا ہو ان کی سمجھ میں ہی نہیں آ سکتا کہ ذاتی فائدے اور قومی فلاح کے درمیان فرق کیا ہوتا ہے۔ یوم شہدائے پاکستان کی یاد منانے کے دن قریب آ رہے ہیں۔ میں بار بار یاد دلاتا رہتا ہوں کہ خلوص، محبت، سچائی اور ایثار کی سب سے بڑی گواہی شہادت ہے۔ وہ عظیم لوگ جنہوں نے ہمارے اور پاک سرمین کے لیے اپنی جانیں قربان کیں قیامت تک کے لیے ہمارے سروں کا تاج رہیں گے۔ پاکستان کے ہر سپہ سالار کی طرح آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر بھی شہداء سے عقیدت کے جذبے سے سرشار دل رکھتے ہیں۔ ان کے اس جذبے کا اظہار 6 ستمبر کو سب دیکھ لیں گے۔ ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے سرفروش بیٹوں کی یاد پوری عقیدت اور احترام سے منائیں۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

تبصرے بند ہیں.