انتخابات ایک امتحان

84

تمام ابہام ختم ہوگئے جب مشترکہ مفادات کونسل نے وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں ہونے والی ساتویں مردم شماری کے نتائج کو متفقہ طور پر منظور کر لیا یعنی انتخابات یقینی طور پر تاخیر کا شکار ہونگے کیونکہ الیکشن کمیشن آئینی طور پر انتخابات سے پہلے نئی حلقہ بندیاں کرانے کا پابند ہے جبکہ دوسری جانب سے اس بات کا بارہا اعلان کیا کہ کوئی بھی جماعت انتخابات میں تاخیر کی حامی نہیں۔ جب یہ بات بہت زیادہ زیر بحث آئی تو سینٹ کے اجلاس میں رضا ربانی اور شیری رحمان نے نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کرانے کی مخالفت کی، اور سندھ سے بھی ایم کیو ایم نے نئی مردم شماری کو حدف تنقید بنائے رکھا۔
خیر اگر سب کا اتفاق مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے پر ہو ہی چکا ہے تو یہ بات خوش آئند ہے کہ جو بھی ہوگا آئین پاکستان اور قانون کے تحت ہوگا لیکن اس بات کا بھی خیال کرنا ہوگا کہ تین ماہ کے اندر انتخابات کروائے جائیں جو کہ عملی طور پر ممکن نہیں اور اس بات کی دلیل پارلیمنٹرینز دیتے ہیں، ویسے بھی اگر وقت سے پہلے اسمبلی کو تحلیل کیا گیا تو انتخابات 90 روز میں ہوں گیاور اس میں شعور رکھنے والوں کے لئے اشارہ ہے۔
بظاہر یہ لگتا ہے کہ جماعت اسلامی نے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کو تسلیم تو کر لیا ہے مگر اس کی پیچیدگیاں تسلیم نہیں کی جن میں حلقہ بندیاں کس طرح کی جائیں اور اس کو کتنا وقت لگتا ہے اس بات کا ادراک ہونا بھی ضروری ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد نے سینٹ میں جو قرارداد جمع کروائی ہے اس نے یہ کہا گیا ہے کہ عام انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوں اور یہ کروانا الیکشن کمیشن کا استحقاق نہیں بلکہ اس کا ائینی فریضہ ہے۔ انتخابات الیکشن کمیشن اپنے وقت پر کروائے ایسا تو وزیراعظم پاکستان نے بھی کہا تھا اور اس وقت مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ بھی نہیں آیا تھا۔ کیا ایسا ممکن ہوگا کے تمام ریاستی ادارے الیکشن کمیشن کو انتخابات بروقت کروانے میں معاونت کر سکیں گے۔
رانا ثناء اللہ کے مطابق اگر انتخابات میں تاخیر ہوگی تو اس کی آئینی دلیل موجود ہے کیونکہ آئین کے مطابق ایک مردم شماری پر دو انتخابات نہیں ہو سکتے۔لیکن ایک اہم مسئلہ مردم شماری کے مطابق قومی اسمبلی میں صوبوں کا حصہ متعین کرنے کا بھی ہے جس کے لیے آئینی ترمیم ضروری ہے اور ایسا نگران سیٹ اپ میں ہونا ممکن نہیں۔ لیکن اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تمام جماعتوں نے کونسل اف کامن انٹرسٹ کا فیصلہ قبول کیا ہے تو وہ اس بات کے پیش منظر سے بھی اشنا ہیں۔
قومی اسمبلی میں بلاول بھٹو نے کچھ کڑوی اور کچھ میٹھی باتیں کیں، کہتے ہیں کہ ہم الیکشن کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اپوزیشن کی پالیسی آج بھی نہ کھیلوں گا اور نہ کھیلنے دوں گا کی ہے جو جمہوریت کے لئے نقصان دہ ہے۔ اگر اپوزیشن نے آج بھی سبق نہیں سیکھا تو کیا سیکھا ؟ میں نہیں چاہتا جس طرح ہمارے آباؤاجداد میں سیاست کی میں یا مریم نواز اس طرح کی سیاست کریں اس لئے نواز شریف اور آصف علی زرداری کو اس طرح کے فیصلے کرنے چاہئیں جس سے سیاست آسان ہوجائے۔ خیر اس بات میں تو کئی سوال موجود ہیں کیونکہ سیاست کسی کی جاگیر یا گھر کی باندی نہیں کہ اس کو جس طرح چاہے چلا لے، یہ عوام سے شروع ہوکر عوام پر ہی ختم ہوتی ہے یعنی اس کا فیصلہ جمہوری ملکوں میں عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے، آمریت میں ڈکٹیٹر اور مونارک سسٹم میں بادشاہ کی ثوابدید۔
پاکستان نے جس مشکل سے آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کیا ہے کوئی بھی جماعت یہ نہیں چاہتی ہو گی کہ جہاں سے بات دوبارہ شروع ہوئی تھی وہیں پر آکر ختم ہو جائے بلاشبہ اس کا کریڈٹ آرمی چیف اور شہباز شریف کو جاتا ہے۔ ملک کے سیاسی حالات کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ درست معاشی سمت کا تعین کرنا بھی ناگزیر ہے کیونکہ اس سے ملک میں استحکام ممکن ہے۔آئی ایم ایف کے 9 ماہ میں 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائے بندوبست کی تکمیل اور دوست ممالک کی جانب سے معاشی بحالی کے منصوبوں میں پارٹنرشپ کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ایسے میں اگر پالیسیز کو ڈرافٹ نہیں کیا جائے گا تو یہ غیر متوقع فیصلے کسی یقینی آفت کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.