پاکستان میں تعلیم کے نام پر جو کھلواڑ کیا جارہا ہے کوئی سیاسی جماعت اس پر بات کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ آمدہ الیکشن میں کسی کے منشور کا کا یہ بنیادی نقطہ بھی نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان میں کوئی ایسی سیاسی،سماجی یا مذہبی جماعت وجود ہی نہیں رکھتی جس کے پاس عوام کے بنیادی مسائل کا حل ہو یہ سب کے سب ”مفادتی“ کلب کے ممبر ہیں اور اپنے فائدے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہیں جس کی متعدد مثالیں موجود بھی ہیں اور نئی بن بھی رہی ہیں۔ بات تعلیم سے چلی تھی واپس اس طرف آتے ہیں۔ اس وقت ملک بھرمیں ر میٹرک اور ایف ایس سی میں ”میرٹ“ پر آنے کے لئے نمبرز کے حصول کے لئے جو معروف اکیڈمیاں بچوں کو تعلیم فراہم کر رہی ہیں اس سے بچوں کی ذہنیء حالت کیا ہو رہی ہے، کیا ایجوکیشن،ہیلتھ اور سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کا فرض نہیں کہ وہ ان اکیڈمیوں سے حاصل کردہ تعلیم کے نتیجے میں میٹرک یا ایف سی میں نمایاں نمبرز حاصل کرنے والے بچوں کی ذہنی حالت کے کسی ٹیسٹ کا بندوبست کریں اور دیکھیں کہ ان بچوں کے ساتھ میرٹ پر لانے کے سفاکانہ گھناونے کھیل بچوں کے ذہنوں کی کیا حالت کر رہا ہے اور بچے اس ذہنی تشدد سے کس قدر نقصان اٹھا رہے ہیں (اس موضوع پر میں جلد ہی تفصیلات کے ساتھ اظہار خیال کروں گا) ابھی ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں تعلیم کی کیا صورت حال ہے اور ہم کس طرح کی تعلیم بچوں کو مہیا کر رہے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے کی آنکھیں کھولتی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں دو لاکھ بیس ہزار سکول ہونے کے باوجود اب بھی بیس ملین کے قریب بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ اس کی وجوہات میں غربت اور نا مناسب نصاب تعلیم بھی شامل ہیں۔ترقی سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی نے جو رپورٹ جاری کی ہے، اس کے مطابق پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور آبادی کے لحاظ سے نوجوانوں کی شرح ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان کی 64 فیصد آبادی کی عمر 30 برس سے کم ہے۔ لیکن اس رپورٹ میں جو بات فکر انگیز ہے وہ یہ کہ ملک میں تعلیم کے فروغ پر تو کام ہوا ہے مگر یہ تعلیم، آبادی کے ایک حصے کوسماجی اور معاشی سطح پر محرومی سے نہیں بچا سکی ہے۔پاکستان میں تعلیمی اصلاحات کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق جب تک نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں
بہتری نہیں آئے گی، صورتحال میں تبدیلی ممکن نہیں۔پاکستان میں سکولوں کے پرائمری اور سیکنڈری درجوں میں دیکھا جائے تو بچے داخلہ تو لے رہے ہیں تاہم ان کے سکول چھوڑنے کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔ یہاں نظام تعلیم اتنا پرانا ہے پھر جو نصاب ہے اور اساتذہ کے پڑھانے کا جو انداز ہے اور جو سکولوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، وہاں بچوں کا تعلیم ادھورا چھوڑنے کا معاملہ بھی سامنے آتا ہے۔ والدین بچوں کو سکول بھیج تو دیتے ہیں لیکن بچہ جیسے جیسے پرائمری کے بعد میٹرک تک جاتا ہے، وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ جو اور جس طرح سے ان کو تعلیم دی جا رہی ہے، وہ مستقبل میں بچوں کے کام نہیں آئے گی تو وہ بچوں کو سکول سے نکال کر ایسے کام پر لگانے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے لیے مالی طور پر فائدہ مند ہو۔اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ نظام تعلیم کو بہتر کرنے کے لیے نیا نصاب لائے۔“یو این ڈی پی کی اس رپورٹ میں خواندگی کے حوالے سے یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ملک میں بچوں کے سکول میں داخلے میں نمو یا اضافے کی شرح اس وقت محض 0.92 فیصد ہے۔ اس کی بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ملک کے تمام بچوں کے سکول میں داخلوں کی سو فیصد شرح کا ہدف حاصل کرنے میں ابھی مزید 60 سال کا وقت درکار ہے۔ یہ اسی وقت ہی ممکن ہو سکے گا جب بڑے شہروں میں ہی نہیں بلکہ دور دراز کے گاؤں دیہات میں بھی سکول کھولے جائیں۔ حکومت نے جو اعداد وشمار جاری کر رکھے ہیں وہ بہت ہی عجیب سی صورتحال سامنے لاتے ہیں، ”اگر حکومت کی جانب سے گزشتہ دو سالوں کے دوران جاری کردہ اعداد وشمار کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ملک میں سکولوں کی تعداد زیادہ لیکن اساتذہ کی تعداد کم ہے۔ دوسری جانب سرکاری سکولوں کی تعداد گزشتہ دو برسوں میں کم بھی ہو رہی ہے۔ کئی سکول بند ہوئے ہیں اور کئی کا آپس میں انضمام بھی کیا گیا ہے۔صرف پڑھنے، لکھنے اور ریاضی کے روایتی انداز تعلیم سے ہٹ کر حکومت کی جانب سے بچوں اور نوجوانوں کو فنی تعلیم دینے کا بھی انتظام ہونا چاہیے تاکہ ان کے روزگار کے مسائل بھی حل ہو سکیں اور والدین بچوں کو ان کے معاشی مستقبل کی فکر سے آزاد ہو کر تعلیم دلوا سکیں۔گو کہ اس ضمن میں بھی حکومت پنجاب نے ٹیوٹا کے ذریعے کچھ اقدامات اٹھائے ہیں لیکن بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر وہ ابھی بہت کم ہیں۔
دوسری جانب کسی بھی معاشرے میں خواندگی میں اضافہ اور ناخواندگی میں کمی یونیورسٹیوں کا کام نہیں ہوتا لیکن پاکستان میں پرائمری کی سطح پر تعلیمی شعبہ مجموعی طور پر اتنی غفلت کا شکار ہے کہ تعلیمی شعبے کے غیر سرکاری اداروں کے مطابق قریب چوبیس کروڑ سے زائد ملکی آبادی میں سے سوا دو کروڑ سے زائد بچے آج بھی سکول نہیں جاتے۔ اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو کے مطابق یہ صورت حال اس لیے بہت پریشان کن اور فوری توجہ کی متقاضی ہے کہ پاکستان میں چودہ برس یا اس سے کم عمر کے بچوں کی تعداد ملکی آبادی کا قریب پینتیس فیصد بنتی ہے۔
پاکستان میں عام طور پر خواندہ شہری ان افراد کو قرار دیا جاتا ہے، جو کوئی خط وغیرہ لکھ پڑھ سکتے ہوں۔ حکومت پاکستان کے جاری کردہ سالانہ اقتصادی سروے کے مطابق گزشتہ برسوں ملک میں ناخواندہ افراد کی تعداد میں دو فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس سے ایک سال قبل اس تعداد میں دو فیصد کمی ہوئی تھی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سے بھی ایک برس پہلے، یعنی مالی سال دو ہزار چودہ پندرہ میں اس تعداد میں کوئی زیادہ تبدیلی آئی ہی نہیں تھی۔ اس طرح پاکستان میں گزشتہ قریب چار برسوں میں ناخواندگی کی شرح میں عملی طور پر کوئی فرق نہیں پڑا جبکہ یونیورسٹیوں کی تعداد مسلسل زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ تعلیمی ماہرین کے مطابق یہی حقائق اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان میں تعلیمی شعبہ غلط ترجیحات کی بھینٹ چڑھتا جا رہا ہے۔تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری پاکستانی تنظیم کے مطابق ملک میں اس وقت بھی دس سال اور اس سے زیادہ عمر کی آبادی میں خواندگی کا تناسب 58 فیصد ہے۔ یہ شرح شہری علاقوں میں تو 74 فیصد بنتی ہے لیکن دیہی علاقوں میں یہ ابھی بھی صرف 49 فیصد ہے۔
پاکستان میں اس وقت کتنی یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں اور ماضی میں ان کی تعداد کتنی تھی، اس بارے میں دارالحکومت اسلام آباد میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی میڈیا ڈائریکٹر کے مطابق ”پندرہ سال پہلے پاکستان میں انسٹھ یونیورسٹیاں تھیں۔ اب یہ تعداد ایک سو اٹھاسی یا کچھ زائد ہو چکی ہے۔ اس تعداد میں مزید اضافے کے لیے مختلف منصوبوں پر بھرپور کام جاری ہے اور سن دو ہزار پچیس تک اس تعداد میں مزید اضافہ یقینی ہے۔“ لیکن سوال وہیں پر موجود ہے پرائمری تعلیمی ادارئے ہوں یا یونیورسٹیاں یہاں پر فراہم کی جانے والی تعلیم کا میعار کیا معاشرے میں کوئی تبدیلی لانے کے ساتھ دنیا میں اپنا کوئی مقام بنا رہا ہے؟اس کا جواب سماج میں اخلاقی برائیوں میں اضافے اور بین الاقوامی رپورٹوں سے لگایا جاسکتا ہے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.