گذشتہ کچھ عرصہ سے یہ جملہ اکثر سننے کو مل رہا ہے کہ جس دن کوئی گروپ تحریک انصاف چھوڑتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ووٹ بنک تو تحریک انصاف کے چیئر مین کا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹوجنھوں نے بڑے مختصر عرصہ میں ڈھیر سارے کام کئے اور یہ کام کوئی معمولی نہیں تھے۔ ملک کو ایک متفقہ آئین دیا، نیو کلیئر پروگرام شروع کیا، اسٹیل مل دی جو کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد یہ کوئی معمولی کام نہیں تھے اور اس کے علاوہ بھی بہت ہیں لیکن بقول میاں شہباز شریف کہ تحریک انصاف کے چیئر مین نے تو تین سال چار ماہ میں ملک میں ایک اینٹ بھی نہیں لگائی تو جس بھٹو نے ملک کو بہت کچھ دیا اور ان کی مقبولیت میں بھی کوئی دو رائے نہیں اور ان کی سیاسی وراثت کسی غیر مقبول شخصیت کو منتقل نہیں ہوئی تھی بلکہ محترمہ شہید بینظیر بھٹو ایسی مقبول عوامی رہنما کو منتقل ہوئی تھی تو ایسی صورت حال میں فرق تو ان کو بھی پڑا تھا۔ ایک زمانہ تھا غلام مصطفی جتوئی پاکستان پیپلز پارٹی میں تھے ان کی علیحدگی کے بعد نوشیرو فیروز کی نشستیں پاکستان پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے نکل گئی تھیں۔ خیبر پختون خوا سے آفتاب احمد شیر پاؤ کے جانے کے بعد ان کے آبائی حلقہ چارسدہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کمزور پوزیشن میں چلی گئی تھی۔اسی طرح ٹھٹھہ سندھ سے شیرازی برادران کے پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت سے پہلے وہاں کی تمام نشستیں شیرازی برادران جیتتے آ رہے تھے۔ ڈیرہ غازی خان پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا تھا لیکن فاروق لغاری کے پارٹی چھوڑنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی وہاں سے کبھی نشست نہیں جیت سکی اور اسی طرح جنوبی پنجاب سے الیکٹ ایبل کے پارٹی چھوڑنے کے بعد وہاں سے پاکستان پیپلز پارٹی نہ صرف یہ کہ کمزور ہوئی بلکہ اس کا اثر پورے پنجاب پر بھی پڑا اور پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کی مقبولیت کا اب جو گراف ہے
اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
جو کچھ کہا یہ ہماری یا کسی کی رائے نہیں ہے بلکہ ناقابل تردید زمینی حقائق ہیں لہٰذا یہ کہنا کہ کسی کے آنے یا جانے سے فرق نہیں پڑتا یہ ایک سیاسی بیان تو ہو سکتا ہے لیکن حقیقت نہیں۔ یہاں پر ایک اعتراض ہو سکتا ہے اور ہم پہلے اس حوالے سے کچھ عرض کر دیں اس کے بعد آگے بڑھیں گے کہ پارلیمانی سیاست میں کچھ سیاست دان ایسے ہیں کہ جن کا سیاسی لحاظ سے قد بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن ان کے جانے سے پارٹی ایک رہنما سے تو یقینا محروم ہو جاتی ہے لیکن اس سے ہٹ کر انتخابی نتائج پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس کی مثال اس طرح سے ہے کہ متحدہ کے عروج کے زمانے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس لیاری، ملیر اور کیماڑی کے علاقوں کے علاوہ کوئی نشست نہیں تھی اور ان علاقوں سے انہی کے لوگوں کو انتخابات میں لایا جاتا تھا لہٰذا سینیٹر رضا ربانی کا قومی سیاست میں جتنا بڑا بھی کردار ہو لیکن انتخابی سیاست میں ان کا کوئی حلقہ انتخاب نہیں ہے اور اسی طرح لاہور ایک وقت تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا لیکن جب سے اس شہر پر نواز لیگ کی گرفت مضبوط ہوئی ہے تو رضا ربانی کے پائے کے اعتزازاحسن کی انتخابی سیاست کی حیثیت زیرو ہو کر رہ گئی ہے اور یہ نواز لیگ کی مقبولیت ہی تھی کہ 2018میں مسلم لیگ نواز کے ایک مڈل کلاس طبقہ سے تعلق رکھنے والے سعد رفیق نے تحریک انصاف کے چیئر مین کے حلقہ سے ہمایوں اختر خان کو شکست سے دو چار کر دیا تھا۔ شہروں میں زیادہ تر نظریاتی ووٹ ہوتا ہے لیکن دیہی آبادی گاؤں دیہاتوں میں نظریاتی ووٹ کے ساتھ ذاتی ووٹ بنک اور دھڑے بندیوں کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات ہم آج تک کے زمینی حقائق کے تناظر میں کر رہے ہیں کل کو اگر حالات بدل جاتے ہیں تو وہ اور بات ہو گی لیکن موجودہ حالات میں پارلیمانی سیاست میں ذاتی ووٹ بنک کی حاامل شخصیات کے پارٹی چھوڑنے اور شامل ہونے سے فرق پڑتا ہے۔
تحریک انصاف کی بات کریں تو شاہ محمود قریشی کا ذاتی ووٹ بنک ہے لیکن ملتان شہر میں نواز لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی پارٹی ووٹ ہے اور ضمنی الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار نے شاہ محمود قریشی کی بیٹی کو شکست دی تھی۔ اسی طرح چوہدری پرویز الٰہی کا شمار بھی ذاتی نشست رکھنے والوں میں ہوتا ہے لیکن یہاں پر مسئلہ یہ ہے کہ خاندان میں زبردست تقسیم ہو چکی ہے لہٰذا ووٹر کس کا ساتھ دیتا ہے یہ وقت بتائے گا لیکن ہماری رائے میں اب تک جن لوگوں نے تحریک انصاف کو خیر باد کہا ہے ان میں پرویز خٹک بجا طور پر ایک ہیوی ویٹ ہیں اور وہ آنے والے الیکشن میں تحریک انصاف کو اچھا خاصا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اسی طرح 2018کی نسبت اس مرتبہ جہانگیر ترین ایسے ہیوی ویٹ کہ انھیں اور علیم خان کو تحریک انصاف کے چیئر مین کی اے ٹی ایم بھی کہا جاتا تھا ان میں جہانگیر ترین کا اپنا حلقہ انتخاب ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کا جنوبی پنجاب میں بھی اچھا اثر و رسوخ ہے۔ یہ تو ہیوی ویٹس تھے لیکن جو انفرادی طور پر ایک ایک نشست جن کا ذاتی حلقہ انتخاب ہے پورے ملک سے ایسے درجنوں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی تحریک انصاف سے علیحدہ ہو چکے ہیں۔ اب دو باتیں ہیں کہ یا تو پاکستان استحکام پارٹی اور تحریک انصاف پارلیمنٹرین سے ملک کی دونوں بڑی جماعتیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گی یا ایک دوسرے کے مد مقابل انتخاب لڑیں گی لیکن دونوں صورتوں میں تحریک انصاف اگر انتخابات میں جاتی ہے تو اسے تنہا ہی انتخاب لڑنا پڑے گا۔ اس صورت حال میں یہ یاد رہے کہ تحریک انصاف میں جتنے بھی مضبوط امیدوار تھے وہ پارٹی چھوڑ کر مختلف جماعتوں میں جا چکے ہیں۔ جہاں تک وسطی پنجاب کی بات ہے تو مہنگائی کے باوجود بھی یہاں نواز لیگ کا ایک بڑا ووٹ بنک موجود ہے جس نے 2018میں پاکستان کے میڈیا سمیت تمام مقتدر حلقوں کی حمایت کے باوجود بھی تحریک انصاف کو جیتنے نہیں دیا تھا تو اب تو اور زیادہ مشکل ہو گی لہٰذا کوئی مانے یا نہ مانے فرق تو پڑتا ہے۔
تبصرے بند ہیں.