کمال اتاترک اور طیب اردووان

91

کمال اتاترک اور طیب اردوان دونوں میں موازنہ کرنا بہت مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ حال ہی میں طیب رجب اردوان ایک بار پھر سے بھاری اکثریت سے ترکیہ کے نئے صدر بن گئے ہیں۔ اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں اور تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود طیب رجب اردوان کو شکست سے دو چار نہیں کر سکے۔ آج کے اردوان کا مقابلہ اپوزیشن کے ساتھ نہیں بلکہ وہ کمال اتاترک کے برابر کھڑا ہو گیا ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس کا قد مصطفی کمال پاشا سے بڑھ گیا ہے۔ جس کے پیچھے چار لوگ کھڑے ہو جائیں وہ لیڈر نہیں بن جاتا بلکہ اس کے لیے ایک لمبی سیاسی جدوجہد، عوام کی سیاسی تربیت، اپنے آپ کو روایات اور تہذیب سے جوڑنا سمیت بہت سے عوامل درکار ہیں۔ حالیہ تاریخ میں طیب رجب اردوان واحد لیڈر ہیں جن کی جدوجہد ہم سب کے سامنے ہے۔ بیشمار مواقع پر اسے شکست بھی ہوئی، اقتدار سے الگ بھی کیا گیا لیکن اس نے اپنا چلن نہ بدلا اور بالآخر وہ ہو گیا جس کا محض گمان کیا جا سکتا ہے۔اپنی سیاسی تاریخ کو دیکھیں تو ہمیں دور دور تک کسی طیب اردوان کے آثار نظر نہیں آ رہے ہمارے پاس وہ لیڈر ہیں جو ہر وقت بکنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
اتاترک نے خلافت عثمانیہ کے کھنڈرات پر ترکی کی ریاست کو تشکیل دیا۔ فوج کو آئین میں تحفظ دے کر باقاعدہ سیاست میں شامل کر دیا۔ سیکولرازم کو پروان چڑھایا، اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے مغرب کے ساتھ معاہدات کیے۔طیب اردوان نے ترکی کو ترکیہ کر دیا۔ فوجی بالادستی کو عوامی بالادستی میں تبدیل کر دیا۔ معاشرے کو اسلام کے سنہری اصولوں سے روشناس کرایا۔عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنایا اور مغرب کے سامنے جھکنے کے بجائے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلے کے لیے تیار ہو گیا۔ ترکیہ لیرا کو ٹکا ٹوکری کرنے کی امریکی چال کا مقابلہ کیا اور اپنی معیشت کو خود انحصاری کی جانب گامزن کیا۔ آج ترکی میں طیب اردوان سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک نظریے کا نام ہے۔ اس کے خلاف بغاوت کرائی گئی اور جو اس بغاوت کے پیچھے تھا آج وہ امریکہ میں قیام پذیر ہے۔ اس بغاوت کا مقابلہ طیب رجب اردوان کی پارٹی کے بجائے عوام نے کیا اور یہ بغاوت ایک کامیاب انقلاب کی صورت میں سامنے آئی۔
جولائی کا مہینہ ہے۔ 2016 میں اسی مہینے کی 15 تاریخ کو فوج اور گولن کی جماعت نے مل کر رجب طیب اردوان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت کرنے کے منصوبے کا آغاز کیا۔۔ ترکیہ کی تاریخ میں دو تاریخیں بہت اہم ہے۔ پہلی تاریخ ہے 29 اکتوبر 1923 جب جمہوریہ ترکی کا قیام عمل میں آیا اور مصطفی کمال اتاترک کو قومی اسمبلی نے اپنا صدر منتخب کر لیا۔ یہ تاریخ اس لیے بھی اہم ہے کہ ترک قوم نے ایک عرصہ تک آزادی کی جدوجہد کی اور بالآخر جمہوریہ ترکی کی بنیاد رکھ دی گئی۔ جمہوریہ ترکی کے دو بنیادی اصول تھے۔ سیکولرازم اور نیشنل ازم۔ فوج کو ان دو بنیادی اصولوں کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی اور یوں فوج براہ راست اقتدار میں آگئی۔ ترک فوج نے معاشرے میں اسلام کو داخل کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنانے پر کام کیا تاکہ ترکی خلافت عثمانیہ کے عقائد پروان نہ چڑھ سکیں لیکن طیب اردوان اور اس وقت کے دوسرے سیاسی رہنماؤں نے تعلیم کے ذریعے قوم کی سیاسی تربیت کا اہتمام کیا۔
15جولائی 2016 وہ دن ہے جب اردوان نے سابق سیاسی حلیف محمد فتح اللہ گولن نے فوج کے ساتھ مل کر طیب اردوان کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔ فتح اللہ گولن کی خدمت پارٹی قبل ازیں طیب اردوان کی جسٹس پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد کا حصہ رہی بعد ازاں اختلاف پیدا ہوئے اور دونوں نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہہ دیا۔ فتح اللہ گولن مذہبی رہنما بھی تھے تاہم انہوں نے فوج کے ساتھ مل کر جمہوریہ ترکی کے سیکولرازم کو بحال کرانے کا نعرہ بلند کیا۔ ترکیہ کے عوام اس بغاوت کو کچلنے کے لیے سڑکوں پر آ گئے، فوجی ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے اور فوج کو پیش قدمی سے روک دیا۔ اس دن 272 افراد جاں بحق ہوئے، سیکڑوں زخمی ہو کر ہسپتالوں میں پہنچے اور
فوجی طاقت کے بجائے عوام کی بالادستی قائم ہو گئی۔ گولن کی جماعت کو دہشت گرد جماعت قرار دے دیا گیا اور اس کے لیڈر نے امریکہ میں سیاسی پناہ حاصل کر لی۔ آج پاکستان کی تحریک انصاف اور گولن کی خدمت پارٹی کا تقابلی جائزہ لیں تو بہت سے مشترکات سامنے آتے ہیں لیکن یہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے لیکن اگر کوئی اس پر تحقیق کرنا چاہیے تو بہت سا مواد میسر ہے۔ خدمت پارٹی نے گراس روٹ سطح تک خود کو منظم کیا تھا، فوج، عدلیہ، انتظامیہ، پولیس اور عوامی خدمت کے اداروں میں اس کے لوگ گھس چکے تھے اور فوج بھی ساتھ تھی تو ناکامی کا امکان بہت کم تھا لیکن سب کچھ اس طرح نہیں ہوا جس طرح ڈیزائن کیا گیا تھا لیکن اس سارے کھیل میں ایک نئے طیب اردوان نے جنم لیا اور یہی وہ لیڈر تھا جس نے آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کر دیا۔ دنیا بھر میں شور مچا لیکن ترک کے رہنما نے صاف کہہ دیا جو مرضی کر لیں لیکن اس پر کوئی سمجھوتا نہیں، آیا صوفیہ صرف ایک مسجد کا نام نہیں ہے بلکہ وہ اب ایک علامت بن گئی جس میں سے نئے ترکیہ کا چہرہ دیکھا جا سکتا ہے۔اردوان نے آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے عمل کی نگرانی کی جس سے بہت سے مسیحی اور سیکولر ترک مسلمان ناراض ہوئے۔ یہ 1,500 سال قبل ایک کلیسا کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا، اور دور عثمانیہ میں ترکوں نے اسے ایک مسجد میں تبدیل کیا تھا، لیکن اتاترک نے اسے ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا تھا جو کہ نئی سیکولر ریاست کی علامت تھا۔
ترکی کے صدر طیب اردوان نے 1999ء کے بلدیاتی انتخابات میں استنبول کے میئر کی حیثیت سے اپنی سیاسی اننگ کا آغاز کیا تھا۔ میئر کی حیثیت سے دن رات اور انتھک کام کرکے انہوں نے استنبول کی حالت بدل دی اور اسے جدید ترقی یافتہ اور خوشحال شہروں کی فہرست میں شامل کردیا۔ آج تمام تر اختیارات کا حامل صدر اپنے ملک کو خوشحال ملک بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ اپنے موقف اور نظریات کو کسی سے چھپاتا ہے اور نہ ہی بین الاقوامی دباؤ کو قبول کر کے سودے بازی کرنے میں مصروف ہے۔ فروری 1954 میں پیدا ہونے والے اردوان کے والد ساحلی محافظ (کوسٹ گارڈ) تھے۔ جب رجب 13 سال کے تھے تو اْن کے والد نے اپنے پانچ بچوں کی بہتر پرورش کی امید میں استنبول منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔نوجوان اردوان نے پیسے کمانے کے لیے لیموں پانی اور تلوں والے بیگلز فروخت کیے جنھیں ترکیہ میں ’سمیت‘ کہا جاتا ہے۔ استنبول کی مرمرہ یونیورسٹی سے مینجمنٹ میں ڈگری حاصل کرنے سے پہلے انھوں نے ایک اسلامی سکول سے تعلیم حاصل کی۔ نجم الدین اربکان کی سیاسی جماعت کے ساتھ کام شروع کیا اور 1997 میں ایک انقلابی نظم پڑھنے کے جرم میں چار مہینے تک جیل کی ہوا کھائی۔
‘مساجد ہماری بیرکیں، گنبد ہمارے ہیلمٹ، مینار ہمارے چھرے اور وفادار ہمارے سپاہی۔‘ ان الفاظ کو معاشرہ میں تفرقے کا باعث قرار دیا گیا۔اگست 2001 میں انھوں نے سیاسی اتحادی عبداللہ گل کے ساتھ مل کر ایک نئی اسلام پسند پارٹی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کی بنیاد رکھی۔سنہ 2002 میں اردوان کی پارٹی ’اے کے پی‘ نے پارلیمانی انتخابات میں اکثریت حاصل کی اور اگلے سال اردوان کو وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا۔ وہ تین بار ترکی کے وزیراعظم رہے جب ان پر بطور وزیراعظم انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگی تو وہ صدر بن گئے۔
نیل آرمسٹرانگ نے کمال اتاترک پر ایک کتاب لکھی جو آج بھی انتہائی دلچسپی سے پڑھی جاتی ہے لیکن طیب اردوان پر ابھی بہت کچھ لکھنا باقی ہے۔ اردوان کی سوانح حیات ایک الگ موضوع ہے لیکن کمال اتاترک اور طیب اردوان کی سیاسی جدوجہد اور جدید ترکی میں ان کے کردار کا تقابلی جائزہ اس سے بھی بڑا موضوع ہے جس پر ابھی بہت سا کام ہونا باقی ہے۔

تبصرے بند ہیں.