ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ یہ کہانی وطن عزیز میں کئی بار دوہرائی جا چکی ہے۔ اب تک سیکڑوں نوجوانوں کی زندگیاں برباد ہو چکی ہیں۔ بات نوجوانوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ کئی بزرگ بھی اس کھیل میں ایسے پھنسے کہ برسوں بلیک میل ہوتے رہے اور پھر بدنامی الگ مول لینا پڑی۔ مارگلہ ٹریل تھری ریپ کیس کا فراڈ ایک ہفتہ بھی نہ نکال سکا اور حقیقت سامنے آ گئی۔ اس کیس میں مرید کے کی رہائشی لڑکی نے الزام لگایا تھا کہ اسے ملازمت کے بہانے اسلام آبادبلاکر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ پولیس نے مقدمہ درج کر لیا اور پھر چند ہی روز میں حقیقت سامنے آئی کہ لڑکی سے کسی قسم کی زیادتی نہیں ہوئی تھی بلکہ الٹا لڑکے کو پھنسانے کے لیے یہ سارا کھیل رچایا گیا تھا۔ اس سارے عرصہ میں وہ لڑکا کن حالات کا شکار رہا ہو گا اور کس کس طرح اپنے اہل خانہ اور جاننے والوں کو اپنی بے گناہی کا یقین دلاتا رہا ہو گا یہ بس سوچا ہی جا سکتا ہے۔ لاہور مینار پاکستان پر ہونے والے واقعہ کا تو سب کو ہی علم ہے جہاں ایک ٹک ٹاکر خاتون کو ہراساں کرنے کے معاملہ پر لاہور پولیس کے سینئر افسران تک کو تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اس واقعہ پر پاکستان کی عالمی سطح پر جگ ہنسائی ہوئی اور پھر ایک نئی کہانی سامنے آ گئی۔ وہ سارا واقعہ باقاعدہ پلانٹڈ نکلا۔ اس کے بعداس خاتون نے شناخت پریڈ کے دوران کئی بے گناہوں کو بلیک میل کیا اور ایسی خبریں بھی سامنے آئیں کہ شناخت پریڈ میں نہ پہچاننے کے وعدے پر لاکھوں روپے وصول کیے گئے۔مینار پاکستان پارک مڈل اور لوئر مڈل کلاس طبقے کے لیے ایک تفریحی مقام ہے۔ ان غریب محنت کشوں نے کئی کئی سال کی قید اور بدنامی سے بچنے کے لیے کس طرح رقم اکٹھی کی ہو گی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یہی معاملہ ایف آئی اے سائبر کرائم میں بھی سامنے آ چکا ہے۔ میں ایک ٹی وی چینل کے کرائم شو کا سکرپٹ رائیٹر تھا جب ایسی کہانیاں سامنے آئیں۔ ایک لڑکی نے ایک سرکاری ادارے کے حاضر سروس ملازم کو ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں بلا کر ہتھکڑی لگوا دی۔اس پرخبریں بھی نشر ہو گئیں اور پروگرام بھی ہو گیا۔ اس آفیسر کی بدنامی ہوئی اور لڑکی کا نام تک کہیں نہ چلایا گیا کہ ایک مظلوم لڑکی کی بدنامی نہ ہو۔ جب حقیقت کھلی تو میڈیا ہی نہیں ایف آئی اے کے متعلقہ اہلکار بھی سر پکڑ کے بیٹھ گئے۔ کہانی یہ تھی کہ لڑکی کی اس آفیسر سے دوستی تھی جو نازیبا تصاویر بھیجنے تک کا مرحلہ طے کر چکی تھی۔ دونوں میں تعلقات بھی قائم ہو چکے تھے اور یہ سلسلہ غالباً دو سال سے جاری تھا ۔ لڑکی نے اس سے گاڑی دینے کا مطالبہ کیا جو وہ پورا نہ کر سکاتو اس نے سائبر کرائم میں درخواست دے دی کہ میری تصاویر اس شخص کے پاس ہیں جنہیں وہ وائرل کر سکتا ہے۔ایسا ہی ایک اور کیس بھی سامنے آیا جس میں ایک نوجوان لڑکے کی اپنے سے بڑی عمر کی شادی شدہ خاتون سے دوستی ہو گئی۔ خاتون نے اسے کہا کہ وہ طلاق لے کر اس لڑکے سے شادی کر لے گی لیکن ایسا نہ ہوا۔ جب لڑکے نے اس تعلق کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا توخاتون نے لڑکے کے موبائل میں اپنی تصاویر ہونے کا کہہ کر اس پر کیس کرا دیا۔ مجھے ہتھکڑی پہنے وہ لڑکا آج بھی یاد ہے جو کہہ رہا تھا کہ اگر خاتون طلاق لے کر مجھ سے شادی کر لے تو میں اب بھی اپنی بات پر قائم ہوں لیکن میں اس کے شوہر کے ہوتے ہوئے غیر شرعی مطالبہ پورا کرنے کو تیار نہیں ہوں۔ لڑکا چلاتا رہا کہ میں نے کسی ایک میسج یا کال پر بلیک میل نہیں کیا اور میرے موبائل میں جو تصاویر تھیں وہ بھی خاتون نے خود بنائی تھیں لیکن اس کا سارا کیریئر تباہ ہو چکا تھا۔
ڈیجیٹل میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے ہمارے یہاں بے راہروی تو پھیلی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل قوانین کی کمزوریوں نے بھی کئی گھر تباہ کیے ہیں۔اس کا سب سے زیادہ فائدہ انہوں نے اٹھایا جنہیں مظلوم سمجھ کر قانون اور معاشرے نے ان کا ساتھ دیا۔ یہاں ایسی لڑکیوں کے بھی کئی گروہ ہیں جو نوجوانوں سے دوستی کرتی ہیں، پھر بات پیار محبت تک پہنچتی ہے، شاپنگ اور ہوٹلنگ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے،خود ہی اپنی تصاویر واٹس ایپ کی جاتی ہیں۔ اگلے مرحلہ میں اپنے شکار یعنی لڑکے کو بلیک میل کیا جاتا ہے کہ اگر وہ مطالبات پورے نہیں کرے گا تو اس کے خلاف ایف آئی اے سائبر کرائم میں درخواست دے دی جائے گی کہ وہ ان تصاویر کی بنیاد پر بلیک میل کر رہا ہے اور وائرل کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔ سیکڑوں نہیں ہزاروں نوجوان اس شکنجے میں پھنسے بے بسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ادھیڑ عمر افراد تو باقاعدہ ایسے گروہوں کا شکار ہیں۔بات ایف آئی اے تک نہ جائے تو بھی ارد گرد اور خاندان میں بدنامی کا ڈر ہی انہیں بلیک میل ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس پر کسی سے مشورہ لیا جاتا ہے اور نہ ہی صفائی قابل قبول سمجھی جاتی ہے۔ کیس ایف آئی اے میں چلا جائے توجب تک لڑکے کی بے گناہی ثابت ہوتی ہے تب تک وہ گرفتاری، ذلالت، خاندان، برادری میں بدنامی اور ملازمت سے نکالے سمیت جانے کتنے مسائل سے دوچار ہو چکا ہوتا ہے۔یقینا اب تک ایف آئی اے نے بھی ابتدائی خامیوں پر قابو پالیا ہو گیا اور کافی حد تک معاملات میں بہتری آ چکی ہو گی لیکن اس کے باوجود یہ مسائل ختم نہیں ہو سکے۔
ہم بظاہر تو یہی کہتے ہیں کہ پاکستان میل ڈومیننٹ معاشرہ ہے یعنی یہاں مردوں کی سنی جاتی ہے اور عورت کو مظلوم، بے بس اور لاچار صنف کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن دوسری جانب سچ یہ ہے کہ یہ فی میل ڈومیننت معاشرہ ہے لیکن اس کا اعتراف کرنامرد اپنی کمزوری سمجھتا ہے۔ آج بھی اگر کوئی لڑکی بھرے بازار میں الزام لگا دے کہ فلاں لڑکے نے مجھے ہراساں کیا ہے تو کوئی اس لڑکے کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا بلکہ بھرے بازار میں اس پر تشدد تک کر دیا جاتا ہے لیکن کسی لڑکے میں یہ ہمت نہیں کہ وہ بھرے بازار میں چلا سکے کہ مجھے فلاں خاتون ہراساں کر رہی ہے۔ یہ معاملہ بازار ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی میں نظر آتا ہے۔ کالجز، یونیورسٹیز، دفاتر، بازار سمیت ہر جگہ ہمیں جو معاشرہ ملتا ہے وہ خواتین کا معاشرہ ہے جس میں مرد ڈرے سہمے عزت بچاتے نظر آتے ہیں۔ یہاں حقوق نسواں کے نام پر برابری کا اعلان بھی کیا جاتا ہے اور دوران سفر اپنی جگہ سے اٹھ کر خاتون کے لیے سیٹ خالی نہ کرنے والے کو جاہل بھی کہا جاتا ہے۔ حقوق کے نعرے بھی لگائے جاتے ہیں اور فرائض سے نظریں بھی چرائی جاتی ہے۔ یہاں قوانین سے لے کر اخلاقیات تک خواتین کو مقدم سمجھا جاتا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ خواتین کا احترام ہمارے معاشرے کی پہچان ہے لیکن اس احترام کے پردے میں مرد کے حقوق کو تباہ کر دینا بھی درست نہیں ہے۔ ہمارے یہاں تو لڑکا اور لڑکی گھر سے بھاگ جائیں تو ایف آئی آر میں لکھا جاتا ہے کہ لڑکا لڑکی کو ورغلا کر لے گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ لڑکی نے لڑکے کو ورغلایا ہو اور قصوروار لڑکی ہو۔ اس سوال کا جواب اور ملک کے ہر تھانے میں موجود ایف آئی آر ز کا ریکارڈ بہت کچھ واضح کر دیتا ہے۔ خواتین کا احترام ہم پر لازم ہے لیکن اس احترام کا غلط استعمال کرنے والی خواتین کے حوالے سے معاشرے کو کوئی لائحہ عمل بنانا ہو گا ورنہ اسلام آباد کے مارگلہ ٹریل جیسے فراڈ ہوتے رہیں گے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.