ناقابل تسخیر پاکستان کی تحقیری عوام

77

سیانے بندے کی یہ خوبی تو بہرحال ہوتی ہے کہ وہ وقت اور مقام (Space and Time) کاتعین انتہائی سوچ سمجھ کرکرتا ہے۔سیاست کے بے رحم عمل میں درگزر تو ہوتا ہے لیکن معافی کی گنجائش پیدا کرنے والوں کو معافی کوئی نہیں دیتا۔ مذہب اور طاقت کی اپنی اپنی زبان ہے۔ مذہب جن باتوں سے منع روکتا ہے طاقت انہیں استعمال کرنا ریاست کے وجود کیلئے ناگزیر تصور کرتی ہے۔ یقینا مذہب اور طاقت کی زبان کہیں متضاد اورکہیں متصادم ہوتی ہے۔ ریاست صرف اورصرف سیاست کے بے رحم اصولوں پر چلتی ہے۔یہی حالت کم و بیش دنیا کی دوسری ریاستوں کی ہیں۔ اگر آپ اپنے مخالف کو سیاست میں معاف کریں گے تو اِس کی کوئی گارنٹی نہیں کہ وہ بھی طاقت حاصل کرنے کے بعد آپ کو معاف کردے گا جبکہ آپ نے طاقت کے زعم میں ان گنت جرائم کا ارتکاب بھی کر رکھا ہو۔ یہی کھیل ازل سے کھیلا جا رہا ہے۔
ہمارے پڑوس میں بھارت میں بی جے پی کی حکومت نے بھارت کا سیکولر فیس مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ اہل ِ مذہب جب ریاست بناتے ہیں تو اُن کایہی وتیرہ ہوتا ہے لیکن میں انتہائی ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں کہ ہندوستان کو صرف ہندووں کا دیس بنانے کی ناکام کوشش میں مودی سرکاری ہندوستان کا جتنا نقصان پہنچاجائے گی اسے درست کرتے ہوئے بھارت کو کئی دہائیوں تک اِس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم بھارتی مسلمانوں کیلئے سیکولربھارت اورپاکستانی مسلمانو ں کیلئے ایک مذہبی ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں۔ہمیں امریکہ سے نفرت ہے لیکن اگرموقع ملے تو ہم وہاں جانے یا اپنے بچوں کو بھیجنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرتے۔
یورپ کے بارے میں ہمارا نظریہ ہے کہ یورپ نے ہماری اخلاقیات برباد کی ہیں جس میں مرکزی کردار ہم برطانیہ کے عہدِغلامی کو تصورکرتے ہیں جبکہ میرا خیال ہے کہ اگر انگریز ہندوستان میں نہ آتا توہم آج بھی بیل گاڑیوں پرسفر کرتے اورپیدل حج پرجا رہے ہوتے۔ یہ پانچ دریا ہمارے پاس ہزاروں سال سے تھے لیکن ہم نے اِس سے نہری نظام بنانے کا سوچا بھی نہیں تھا۔ زمین اوررستے موجود تھے لیکن ہم ریل کا نظام نہ بنا سکے ٗانڈسٹریل انقلاب کا تو تصوربھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ پرائمری سکول سسٹم نام کی کسی شے سے شاید ہماری ابھی تک مکمل آشنائی بھی نہ ہوئی ہوتی۔ دنیا کی ہر ریاست نے ایک فو ج رکھی ہوئی ہے سو پاکستان کی فوج بھی
لازمی ہونی چاہیے کہ جدید دنیا میں فوج کے بغیر ریاست کا وجود خطر ے میں پڑ جاتا ہے۔ بھٹو نے کہا تھا کہ ایٹم بم بنائیں گے خواہ گھاس کھانا پڑے۔ ایٹمی طاقت بننے کے بعد دنیا کی ہر ریاست بیرونی حملے سے محفوظ ہو جاتی ہے اور اب پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جسارت کرنے والا پہلے اپنے گھروں کے نقشے بھی مٹا کر آئے گا سوپاکستان کو ناقابل ِ تسخیر بنانے کے بعد اب پاکستانی عوام کو بھی تحقیر سے بچا لیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
سول حکومت نے پاکستانی معیشت کوبحران سے نکالنے کیلئے افواج پاکستان کو بھی ایک پیج پرکرلیا ہے۔ اس سے پہلے عمران نیازی بھی باجو ہ صاحب کے ساتھ ایک ہی پیج پر تھا لیکن معیشت کاجو حال وہ کرگیا ہے اِسے ٹھیک کرتے کرتے پاکستانیوں کو صراط کے کتنے پلوں کے اوپر سے گزرنا پڑے گا اس کی کوئی گنتی نہیں۔ جب تک پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ اور قومی خزانہ لوٹنے والوں کا بے رحم احتساب نہیں ہوتا پاکستان کے ایک شہری کو بھی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ پاکستان کے معاشی حالات درست ہو سکتے ہیں۔ ایک بے رحم احتساب ٗ بلا تفریق ٗ بلا امتیاز ٗ سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر کیا جائے تو آج بھی ہم سنبھل سکتے ہیں۔ پروٹوکول کلچر پر ایک غریب ملک کے اربوں روپے کی لوٹ سیل حکمران اشرافیہ کے ہراقدام کو مشکوک بنا رہا ہے۔ اب آپ عام آدمی کو ڈلیورکیے بغیر حق ِ حکمرانی حاصل ہی نہیں کرسکتے۔غیرمربوط ترقی نے پاکستان کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ لوٹ مار کاایسا بازار گرم ہے کہ کسی کی توجہ بھی اُس طرف نہیں۔ کیا کوئی بتا ئے گا کہ عام آدمی کے ساتھ ہونے والی چوربازاری ٗذخیرہ اندوزی ٗرشوت ٗ غیر ضروری تعلیمی اخراجات کے مطالبے ٗ جعلی ادویات ٗ جعلی دودھ ٗ صحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی ٗ ادویات کا مہنگے داموں پر فروخت ہونا اورڈی سی ریٹ پر بازار سے کچھ بھی دستیاب نہ ہونا بھی ٗ کیا آئی ایم ایف نے آ کر کرنا ہے؟ یہ بے کارحکمران اور ناکارہ اور کلر ک ذہنیت رکھنے والی بیوروکریسی عوام کو آبرومندانہ طریقے سے زندہ رکھنے کیلئے کوئی بھی پالیسی تخلیق کرکے اُس پر عمل درآمد کرانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس چلچلاتی دھوپ میں اپنے ائر کنڈیشن کمروں میں بیٹھے ریاستی ملازمین نے اپنے دفاتر کے باہر اپنے آقاؤں کو دھوپ میں قطار اورہجوم کی شکل میں کھڑا کررکھا ہوتا ہے۔ عوام کا اداروں پر بڑھتا ہوا عدم اعتماد کسی بڑی سرجری کا مطالبہ کررہا ہے ورنہ عام آدمی کیلئے زندگی اتنی مشکل ہو چکی ہے کہ کسی بھی ذہنی مریض کا کوئی بھی ناقابل عمل بیانیہ اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے میں آسانی سے کامیاب ہو سکتا ہے۔ ہمیں جدید دنیا کا حصہ بننا ہو گا ٗ ہمیں دم توڑتی مخلوق کے مسائل کے ساتھ کھڑ ا ہونا پڑے گا ہمیں وقت اور مقام کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا ورنہ یہ بات سمجھ لیں کہ عمران نیازی اپنا کام مکمل کرچکا ہے۔ وہ قومی خزانے کو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچانے کے علاوہ قومی سلامتی کے اداروں پرحملے جیسے سنگین جرائم کا مرتکب ہونے کے باوجود ابھی تک اُسی لب ولہجے میں بات کر رہا ہے جیسے وہ اسلام آباد کے دھرنے میں اپنے مخالفین کو مخاطب کیا کرتا تھا۔ وہ اقساط میں اِس ریاست کو برباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔ الیکشن جب بھی ہوں پاکستانی عوام کے ذمہ داری ہے کہ بہترین انتخابی منشور کے ساتھ کھڑے ہوں اور الیکشن کے بعد کسی بھی قیمت پر اُس منشور پر عمل درآمد کروائیں۔شاید یہی ایک رستہ ہے جو ہمیں ذلت آمیز زندگی یا بدترین موت سے بچا سکتا ہے کہ آخری فیصلہ عوام نے ہی کرنا ہوتا ہے کہ حقیقی جمہوریت صرف اور صرف عوامی آمریت کا نام ہوتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.