اس شدید گرمی اور حبس کے موسم میں شیڈول لوڈشیڈنگ بھی کسی عذاب سے کم نہیں لیکن غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ تو انتہائی تکلیف دہ ہے اس لئے کہ اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا تو اندازہ ہوتا ہے کہ بجلی نے کب آنا ہے اور کب جانا ہے لیکن غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کتنے عرصہ پر محیط ہو گا اس کا علم نہیں ہوتا اور عام طور پر کئی گھنٹوں کے بعد جب بجلی واپس آتی ہیں تو سجدہ شکر سے کم پر بات نہیں رکتی۔ گرمی اپنی جگہ لیکن اگر مینجمنٹ بہتر ہو تو گرمی میں بجلی کی ترسیل میں بہتری ممکن ہو سکتی ہے آپ غور کریں کہ دنیا بھر میں کاروبار کا ایک ہی اصول ہے کہ زیادہ سے زیادہ گاہک ہوں اور ہر گاہک بھاری مقدار میں خریداری کرے لیکن دنیا میں پاکستان میں بجلی کے معاملات ہی بڑے عجیب ہیں کہ گاہکوں میں اضافہ پر مشکلات کھڑی کی جاتی ہیں اور جتنی زیادہ بجلی استعمال کریں گے آپ کی حوصلہ شکنی کے لئے اسی قدر بجلی کا مہنگا ٹیرف آپ کو لگایا جائے گا۔ ایک شدید گرمی، اس پر اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ اور اس پر مزید ستم ہمارا طرز تعمیر آج سے چالیس پچاس سال پہلے تک ہر گھر میں برآمدہ اور اس کے ساتھ کھلا صحن ہوتا تھا اور اس دور میں بند کمروں میں اے سی میں سونے کا تو رواج ہی نہیں تھا کھلی فضا میں سوتے تھے لیکن اب وہ برآمدے اور صحن تو خواب ہو چکے ہیں ان کی نسبت اب کیپسول طرز کے بند مکانات بنائے جاتے ہیں جس میں کھڑکیاں کھول کر بھی ہوا کا گذر کم ہی ہوتا ہے اور اس شدید گرمی کے موسم میں آج کے مکان در و دیوار اور چھت کے تپنے سے تندور بن جاتے ہیں اور پھر اللہ پاک کی ٹھنڈی ہوا اور بادلوں کے بعد بجلی پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے اور اب تو اگر بجلی کے جانے کا دورانیہ زیادہ ہو جائے تو پانی کہ جس کے بغیر زندگی کا کس تصور ہی محال ہے وہ بھی نہیں ملتا اور اس کے بنا کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسے کہنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے علاوہ 4 ضرب 4 فٹ کے باتھ روم ہیں۔ ان میں نہانے جائیں تو جسم پر پانی ڈالے بغیر بھی جسم پانی پانی ہو جاتا ہے۔
ایک زمانہ تھا اور وہ اچھے وقت تھے کہ کھلی فضا تھی اور ہریالی بھی آج کی نسبت بہت زیادہ تھی لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ایک دوسرے کے متضاد دو باتیں ہوئی ہیں ایک تو بہت زیادہ آبادی بڑی ہے جس کے لئے ہمیں غذائی اجناس کے لئے مزید
زرعی زمینوں کی ضرورت تھی لیکن ہوا یہ کہ جو زرعی قابل کاشت زمینیں تھیں شہر تو شہر ہم گاؤں دیہاتوں میں بھی انہیں رہائشی سکیموں میں لا کر ملک میں قابل کاشت زرعی زمینوں کا رقبہ بڑی تیزی کے ساتھ کم کر رہے ہیں جس سے غذائی اجناس کا مسئلہ تو اپنی جگہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے لیکن ہریالی کم ہونے سے موسم کی حدت میں تیزی سے اضافہ ہونے لگ گیا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ بین الاقوامی گلوبل وارمنگ کے سبب ہر سال درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بپر جوئے ایسے طوفانوں سے مستقبل میں بچنے کے لیے ہمیں ملک میں زیادہ سے زیادہ ہریالی کے لئے کام کرنا پڑے گا اور درختوں کی کٹائی کو روکنا ہو گا لیکن اس قسم کے طوفانوں کا پاکستان ذمہ دار نہیں ہے اور کسی طرح ہو بھی نہیں سکتا کہ پاکستان کی ساحلی سرحدوں سے سیکڑوں بلکہ ہزاروں کلو میٹر دور بننے والے کسی طوفان کا پاکستان کس طرح ذمہ دار ہو سکتا ہے۔
پورے ملک میں ہی شدید گرمی کا موسم ہے اور اس موسم میں اور کچھ روز بعد مون سون میں بارشیں شروع ہو رہی ہیں۔ تیز ہوائیں بھی چلتی ہیں آندھی بھی آتی ہے اور موسلادھار بارش بھی اور یقینا ان سے گرمی کی شدت کم ہوتی ہے اور موسم خوشگوار ہو جاتا ہے لیکن شومئی قسمت کہ تیز ہوا کا ابھی پہلا جھونکا آتا ہے یا بارش کا ابھی پہلا قطرہ گرتا ہے کہ شہر میں درجنوں فیڈر ٹرپ کر جاتے ہیں اور اس کے بعد ایک انتہائی اذیت ناک کیفیت سے دو چار ہو جاتے ہیں کہ جس طرح کالم کے شروع میں عرض کیا کہ موجودہ دور میں جس طرح کے کیپسول طرز کے گھر ہیں ان میں موسم کا فرق پڑتا ہے لیکن جس حد تک پڑنا چاہئے اس کی نسبت بہت کم فرق پڑتا ہے اور اگر اس کا تجربہ کرنا ہو تو گھر کی چھت پر چلے جائیں تو آپ کو زمین آسمان کا فرق محسوس ہو گا۔ دامن کالم میں گنجائش کم ہی رہ گئی ہے لیکن گرمی کے حوالے سے مستقبل میں جو سب سے موثر حل باقی رہ جانا ہے وہ سولر یعنی شمسی توانائی ہے اس لئے کہ پٹرول اور گیس کے ذخائر تو ایک دن ختم ہونے ہیں اور اب یہ وقت قریب آ رہا ہے۔ زیادہ سے زیادہ پچاس سال میں ان کا خاتمہ ہو سکتا ہے تو ہوا، پانی اور سورج کی روشنی سے توانائی کا حصول اور اس میں سب سے زیادہ شمسی توانائی کہ جو سارا سال پاکستان میں وافر مقدار دستیاب ہوتی ہے یقینا ایک موثر ذریعہ ہو گی۔ حکومت نے موجودہ بجٹ میں سولر توانائی کے لئے ساز و سامان پر ہر قسم کے ڈیوٹی اور ٹیکسز کو ختم کر دیا ہے یہ ایک احسن اقدام ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دو باتیں بڑی اہم ہیں ایک تو یہ کہ حکومت سولر پینل پر عوام کو سبسڈی دے اور اگر یہ ممکن نہیں تو بیرون ملک پر انحصار کے بجائے اپنے ملک میں اس کی قیمت کم کرنے پر کام کیا جائے تاکہ اس کے حصول تک غریب آدمی کی رسائی ممکن ہو سکے کیونکہ یہی ایک راستہ ہے کہ جس سے انتہائی سستی اور وافر مقدار میں بجلی پیدا کی جا سکتی ہے اور نجی کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر بھی شمسی توانائی کے منصوبوں کو اولین ترجیح دینی چاہئے کہ یہی مستقبل میں ہر قسم کے ایندھن کا متبادل ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.