جاگ میرے پاکستانی جاگ

55

یہ بات ہر پاکستانی کو ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اسلام دشمن قوتیں ہوں یا پاکستان دشمن، ان سب کا اصل نشانہ افواج پاکستان ہیں۔ 9 مئی کے واقعہ کو اس تناظر میں دیکھیں گے تو سمجھ آ جائے گا کہ ہمیں کہاں لا کے مارا گیا ہے۔ ابھی چوٹ تازہ ہے اس لیے سمجھ نہیں آ رہا کہ ہوا کیا ہے۔ کچھ وقت کے بعد پتہ چلے گا کہ بہت گہرا وار کیا گیا ہے۔ شہداء کی یادگاروں کی بیحرمتی کے واقعے کو خودکش حملوں اور اسلام کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی کے تناظر میں دیکھنا ہو گا۔ یہ دراصل جذبہ شہادت پر حملہ ہے۔ اسلام دشمن قوتوں کو سب سے زیادہ خوف ہی ہمارے جذبہ شہادت سے ہے جو اس وقت جتنا عظیم افواج پاکستان کے پاس ہے وہ دنیا کی کسی فوج کے پاس نہیں۔ میرے نزدیک ہماری افواج کا جذبہ شہادت ہر قسم کی عسکری و جوہری طاقت پر بھاری ہے اور اسی لیے ہماری افواج ہمارے دشمنوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ ہمارے جوان دفاع ِ وطن کے سامنے اپنی زندگیوں کو ارزاں سمجھتے ہیں اور وطن پر جان فدا کرنے کو زندگی کی معراج سمجھنا ان کے ایمان کا حصہ ہے۔ بموں کو سینوں سے باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر ناپاک عزائم کو ملیامیٹ کر دینے کی مثالیں موجود ہیں جو ہماری افواج کی تاریخ کو ہمیشہ جگمگاتا رکھیں گی۔ مجھے یاد ہے کوئی تقریباً تیس سال پہلے میرے پبلشر کا فون آیا کہ کچھ غیر ملکی ریسرچر آئے ہوئے ہیں جو پاکستانی رائٹرز سے ملنا چاہتے ہیں میری خواہش ہے آپ ضرور آئیں۔ میں شام کو وہاں پہنچا تو مجھے ایک ادھیڑ عمر غیر ملکی سے ملوایا گیا جن کا نام اب مجھے یاد نہیں۔ انہوں نے پہلے مجھ سے شاعری کی بات کی پھر خاص طور پر ایک معروف و مقبول کتاب ”موت کا منظر، مرنے کے بعد کیا ہوگا“ کے بارے سوالات کیے اور پھر کچھ مزید پوچھ گچھ کی۔ لب لباب یہ کہ ان صاحب کا ما فی الضمیر یہ کریدنا تھا کہ مسلمان شہادت کو پسند کیوں کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں جان دینے کو فضیلت کیوں سمجھا جاتا ہے۔ ان کے سوالات مجھے تب بھی کھٹکے تھے پھر بعد میں جب پاکستان کے اندر اسلام اور جہاد کے نام پر خودکش دھماکوں کا سلسلہ جاری ہوا تو میرے ذہن میں اس محقق کے سوالات گونجتے رہے۔ میری یہ سوچ غلط بھی ہو سکتی
ہے کہ دنیا کی معیشت، سیاست اور معاشرت کو کنٹرول کرنے کی خواہشمند قوتیں ہر اس عمل کو سمجھنے اور سمجھ کر اپنا ہتھیار بنانے پر اربوں ڈالر صرف کرتی ہیں جو انہیں یا تو اپنے کنٹرول سے باہر لگتا ہے یا انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی نظریہ، انداز فکر، عقیدہ یا ایمان کبھی ان کے خلاف جا سکتا ہے۔ لہٰذا وہ اس کے بارے تحقیق پر بے تحاشا وسائل خرچ کرتے ہیں اور ہر طرح کے رسک کو نہ صرف کمزور ترین کرنے کی کوشش کرتے ہیں
بلکہ حفظ ما تقدم کے مطابق اس کا توڑ پہلے ہی سوچ لیتے ہیں۔ ہم سب پاکستانیوں نے جہاد کے نام پر نوجوانوں کو اپنے ہی مسلمان بھائیوں اور اپنے ہی وطن کے امن پر خودکش حملے کرتے دیکھا بھی اور بھگتا بھی۔ افواج پاکستان نے کتنی جانوں کی قربانی دے کر دہشت گردی کے اس ناسور کو نہ صرف پھیلنے سے روکا بلکہ اس کا قلع قمع کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وطن عزیز پاکستان کی حفاظت اپنی جگہ افواج پاکستان نے تو دنیا بھر کے بیشتر امن مشنوں میں فرائض سرانجام دے کر اور مختلف برادر اسلامی ممالک کی مدد کر کے بھی ہمیشہ ملک و قوم کا نام بلند کیا ہے۔
یہ بات بھی ہم سب کے لیے سمجھنا ضروری ہے کہ انبیاء کے علاوہ کوئی بھی فرد کبھی عقل کُل ہو سکتا ہے اور نہ ہی دودھ کا دُھلا۔ کون ہے جس سے غلطی نہیں ہوتی۔ اداروں میں بیٹھے افراد سے بھی غلطی ہو سکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہم ذاتی نظریے اور سوچ کے باعث کسی دوسرے کے راست عمل کو بھی غلط سمجھتے رہیں۔ اداروں کے اندر بیٹھے افراد حالات کی نزاکت اور حساسیت کو جس طرح دیکھ رہے ہوتے ہیں ضروری نہیں کہ اداروں سے باہر بیٹھے افراد کو بھی ان کی سنگینی کا اندازہ ہو۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم بنیادی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ذاتی اختلاف کو ملک اور ملکی سالمیت کے حامل اداروں سے اختلاف کا موجب نہ بننے دیں۔ اختلاف تو ایک گھر، ایک خاندان کے افراد کے درمیان بھی ہو سکتے ہیں جس کا یہ مطلب نہیں کہ ان اختلافات کی بنیاد پر گھر کو ہی یا خاندان ہی کو تباہ کرنے کی ٹھان لی جائے۔ ہم جس نازک دور سے گزر رہے ہیں بطور پاکستانی ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہوش کے ناخن لیں اور دشمن کی آواز نہ بنیں نہ ایسے پراپیگنڈے کی زد میں آئیں جو ہمیں، ہمارے خاندانوں، ہمارے اپنے اداروں اور اپنے وطن کے خلاف کسی بھی عمل کے لیے اُکسائے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کسی طرف سے کوئی غلطی کی جا رہی ہے تو پورے اعتماد سے اس کی نشاندہی کی جائے، مکالمہ کیا جائے، گرینڈ ڈیبیٹ میں لایا جائے لیکن ریاست اور وطنیت کے بنیادی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آواز بلند کی جائے نہ کہ دشمنوں کے نادانستہ آلہ کار کا کام سرانجام دے کر ملک و قوم کی مشکلات میں اضافہ کیا جائے۔

تبصرے بند ہیں.