مماثلت اور مماثل انجام

77

توہم پرستی دنیا کے ہر ملک میں پائی جاتی ہے مگر ہر جگہ اس کا رنگ مختلف ہے اس کی سب سے مضحکہ خیز شکل ہندو معاشرے میں ملتی ہے جہاں گائے کو ماں کا درجہ حاصل ہے لیکن بھینس کی کوئی اہمیت نہیں، بندر کو اوتار مانا جاتا ہے لیکن بن مانس کا کوئی مونس نہیں اپنے ہاتھوں سے بت تراشے جاتے ہیں پھر انہی سے مرادیں مانگی جاتی ہیں ماضی قریب تک ستی کی رسم جاری تھی۔ بھارت کے کچھ علاقوں میں اب بھی جاری ہے جس کے تحت خاوند کے مرنے کے بعد اسکی بیوی کیلئے لازم ہے کہ وہ بھی خاوند کی چتا کو لگائی گئی آگ میں جل مرے لیکن بیوی کے مرنے پر خاوند کیلئے یہ ضروری نہیں، وہیں سے چلی کچھ باتیں ہمارے معاشرے میں بھی سننے کو ملتی ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ دنیا میں ایک ہی شکل کے نو انسان پیدا کئے گئے ہیں اس بات کی کوئی سائنسی وجہ بیان نہیں کی گئی لیکن یہ ان زمانوں کی بات ہے جب سائنس نے زیادہ ترقی نہیں کی تھی۔ دور جدید میں جانوروں کی کلوننگ سے بڑھکر انسانوں کی کلوننگ کے تجربات ہوئے اب مرحلہ جینیٹک انجینئرنگ تک آن پہنچا ہے۔ رحم مادر میں بچے کے نین نقش، بالوں کے علاوہ اسکی جلد کا رنگ اور قد کاٹھ تک مرضی کے مطابق تبدیل کیا جا سکتا ہے کوئی بھی شخص جینیٹک سرجن کو ایک من پسند تصویر دے کر اپنے ہونے والے بچے کے خدوخال اسکے مطابق ڈھالنے کی فرمائش کر سکتا ہے۔ گو یہ سب کچھ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے لیکن جینیٹک انجینئرنگ کے کچھ نمونے دیکھے جا سکتے ہیں معاملات ابھی تک ظاہری شکل و شباہت تک پہنچے ہیں کچھ عجب نہیں آنے والی صدی میں دماغ اور دماغی صلاحیت کو تبدیل کرنا بھی انسانی دسترس میں آ جائے۔ سائنس اور انسان جسقدر بھی ترقی کرلیں وہ کچھ رازوں تک نہ پہنچ سکیں گے جن میں ایک راز روح کی حقیقت اور روح کے جسم سے پرواز کر جانے کے بعد اسے دوبارہ قابو کر کے جسم میں داخل کرنا ہے۔
دنیا میں ایک ہی مشکل کے نو انسان پیدا ہوئے ہیں یا نہیں لیکن ایک جیسی عقل رکھنے والے اور ایک جیسا مزاج و عادات رکھنے والے سیکڑوں نہیں لاکھوں لوگ ہونگے، انہیں ہم فطرت بھی کہا جا سکتا ہے۔ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان کے سابق وزیراعظم ٹیریان کے ڈیڈی میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں دراز قد اور صاف رنگت کے مالک ہیں دونوں نے اپنی اپنی صلاحیت اور اپنے اپنے شعبے میں نام کمایا اور دولت کمائی دونوں عہد شباب سے لے کر بڑھاپے تک ہر قسم کی بے راہ روی کا شکار رہے اور اس پر کبھی نادم نہ ہوئے۔ عزت دار گھرانوں کی عورتوں، اداکاراؤں اور اخلاق باختہ خواتین سے مراسم کی داستانیں دونوں کے تعاقب میں رہیں، کبھی طرز عمل کو بدلنے کی خواہش ہوئی نہ کوئی ایسی شعوری کوشش کی گئی، تند خوئی دونوں کے مزاج کا حصہ ہے مقابل کو کوئی اہمیت نہ دینا خود کو عقل کل سمجھنا اپنے ہر غلط فیصلے کی توجیہہ پیش کرنا اور اس پر اڑے رہنا شخصیت کا اہم جزو نظر آتا ہے۔ فطرتاً دونوں ہرجائی ہیں، بے وفائی اپنا حق سمجھتے ہیں اور دوسروں
سے عمر بھر کیلئے وفا چاہتے ہیں۔ انکی خواہش ہوتی ہے کہ دوسروں کا بولا گیا سچ کوئی اہمیت نہیں رکھتا لیکن انکا بولا گیا جھوٹ مقدم ہے، شخصیت کا ایک عجیب پہلو ہے کہ کسی کو کسی اچھے کام یا کارکردگی کا کریڈٹ دینے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے بلکہ دوسروں کا کریڈٹ ایک لمحے میں چھین لینا مشغلہ ہے، دونوں دل کی بات کسی سے نہیں کہتے اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ لوگوں کو اپنی ضرورت کے تحت استعمال کرو اور پھر بھول جاؤ، ہمیشہ بات عام آدمی کی کرتے ہیں لیکن انہیں کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے، غریب آدمی سے دوستی انکی شرست میں نہیں انہیں جب بھی محبت ہوتی ہے امیر آدمی یا امیر عورت سے محبت ہوتی ہے، دونوں کے والدین ان کے چال چلن کے سبب ان سے نالاں رہے، ٹرمپ اٹھارہ برس کے ہوئے تو انکی والدہ نے ایک مشہور امریکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مجھے ڈونلڈ کی ہمیشہ فکر رہتی ہے میں یہ سوچ کر پریشان رہتی ہوں کہ اگر اسے زندگی میں کوئی اہم مقام یا اہم عہدہ مل گیا تو یہ اسکا کیا حشر کرے گا۔ یہی فکر ٹیریان کے ابا کی والدہ کو ستاتی تھی وہ زمانہ طالب علمی میں اپنے بیٹے کی لا ابالی طبیعت غیر سنجیدہ رویے اور بے راہروی سے پریشان رہتی تھی وہ اپنے بیٹے سے ہر مشرقی ماں کی طرح بہت محبت کرتی تھیں اور اپنی بیٹیوں سے اکثر کہتی تھیں خدا جانے یہ کب انسان بنے گا، وہ اسکی ہر غلط حرکت پر پردے ڈالتی رہیں جبکہ انکے خاوند خوب جانتے تھے کہ انکا بیٹا کن راہوں پر چل نکلا ہے دونوں میاں بیوی میں صرف ایک یہی معاملہ تھا جس پر انکے مابین تلخی ہوا کرتی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور ٹیریان کے ابا ایک جیسے احسان فراموش ہیں دونوں کی لغت میں احسان کا بدلہ احسان سے دینا درج نہیں۔ امریکہ اور پاکستان میں طوطا ایسا پرندہ ہے جو بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول ہے خاص طور پر باتیں کرنے والے طوطے سب کو اچھے لگتے ہیں، طوطے کی طوطا چشمی مشہور محاورہ ہے وہ ایک سیکنڈ میں متعدد بار آنکیں پھیرتا ہے۔ امریکہ اور پاکستان میں اب یہ ضرب المثل مشہور ہے کہ طوطے نے آنکھیں پھیرنا ڈونلڈ اور اسکے ہم ذات سے سیکھا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نرگسیت کا شکار ہو چکے ہیں اور وہ زمانہ اقتدار میں سمجھتے تھے کہ وہ امریکہ میں پاپولر ترین شخصیت ہیں ان جیسا کسی ماں نے جنا ہی نہیں اور نہ ہی آئندہ کوئی ماں جنے گی یہی سوچ ٹیریان کے ابا کی بن چکی ہے وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ یہ دنیا ان کے دم قدم سے قائم ہے اور اسکی ترقی و بقا کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ وہ بلا شرکت غیرے صاحب اقتدار ہوں۔ اول وہ خوبصورت بہت ہیں دوئم وہ سب کچھ جانتے ہیں حالانکہ دونوں باتیں صرف انکی خام خالی اور انکی قصیدہ گو ٹیم کی کارستانی کے سوا کچھ نہیں۔ ٹرمپ میں ایک بڑی خوبی ہے وہ امیر و کبیر تو ہے لیکن اس کے ساتھ شاہ خرچ بھی ہے وہ دولت کماتا ہے تو اپنے اوپر اسے خرچ کرتا ہے اپنے ساتھیوں اور اپنی ٹیم کا بہت خیال رکھتا ہے اس کے بزنس منیجرز بہت مطمئن اور خوشحال ہیں اسکی کا روباری ترقی کا راز یہی ہے جبکہ ٹیریان کے ابا نے زندگی بھر دوسروں کے مال پر عیش کی ہے وہ انتہا درجے کے کنجوس واقع ہوئے ہیں وہ لینا جانتے ہیں انہوں نے زندگی بھر کسی کو دینا نہیں سیکھا انکی بڑی خوبی ہے اگر انہیں علم ہو جائے کہ آپکے پاس دولت کے ذخائر ہیں بس پھر وہ آپ کے بہترین دوست ہوں گے اور جب تک آپکی دولت کے ایک کثیر حصے پر ہاتھ صاف نہ کر لیں انہیں چین نہ آئے گا۔ شادیاں اور طلاق دونوں کا مشغلہ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ گذشتہ دنوں ایک اہم معاملے میں گرفتار ہوئے ہیں ان پر الزام ہے کہ وہ وائٹ ہاؤس سے جاتے ہوئے تین سو کے قریب اہم فائلیں ساتھ لے گئے جس کا انہیں استحقاق نہ تھا انہیں ضمانت ملی ہے لیکن قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ وہ سزا سے بچ نہ سکیں گے کیونکہ انکی رہائش گاہ اور انکے ملکیتی کلب میں چھاپے کے بعد یہ فائلیں وہاں سے برآمد ہوگئی ہیں۔
ٹیریان کے ابا پر تو شہ خانہ، ممنوعہ فنڈنگ، معاہدوں میں گڑبڑ کے علاوہ اب کسی بھی وقت بغاوت کے الزام میں مقدمہ درج ہو سکتا ہے انہوں نے ملک کے اہم ترین ادارے کے سربراہ اور اعلیٰ افسروں پر اپنے قتل کی منصوبہ بندی کے جھوٹے الزام لگائے انہیں جب ان کا ثبوت پیش کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے پولے سے منہ سے کہا کہ ان کے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے انہیں یہ کسی نے بتایا تھا، انہوں نے یہ بات اپنے تحریری بیان میں لکھ دی ہے وہ سزا سے نہ بچ سکیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ اور ٹیریان کے ابا ایک جیسی فطرت کے مالک تو تھے ہیں اب ایک جیسے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مماثلت کے بعد مماثل انجام پر حیرت نہیں ہونی چاہئے۔

تبصرے بند ہیں.